سب سے سنہرا آخری باب

راجا پرویز اشرف جو گیلانی صاحب کی طرح ذہنی طور پر کبھی وزیر اعظم نہ بن پائے اِن مشوروں کو سنتے اور رد کرتے رہے۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official

یہ پچھلا ہفتہ عجیب کیفیت میں گُزرا، ایک طرف یہ اطمینان اور خوشی کہ 67 سال میں بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب ایک منتخب حکومت سیاسی مقتل گاہ میں جانے کے بجائے اپنی طبعی عمر پوری کر کے ایک نئی حکومت کو لانے کا راستہ مکمل ہموار کر کے جا رہی ہے۔ دوسری طرف منتخب حکومتوں کے ہاتھوں جمہوری رابطوں آئینی تقاضوں اور اچھی حکمرانی کے قواعد کی دھجیاں اڑائے جانے کا غم ایک طرف امید کی یہ کرن کہ شاید نئے حکمران جانے والوں سے بہتر ہوں۔

دوسری طرف یہ خدشہ کہ انتخابات سے پہلے اور بعد میں سیاسی مخاصمت، معاشی زبوں حالی اور انتظامی ابتری کہیں بڑھ نہ جائے۔ گزرے ہوئے ہفتے میں شادمانی کو بد گما نی پر حاوی کرنا اس لیے بھی مشکل ہو رہا تھا کہ منتخب نمایندگان نے اپنے آخری دنوں میں ایسی ایسی حرکتیں کیں کہ سن کر رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ مثلًا وزیر اعظم اجمیر شریف کا دورہ کرنے پر مُصر کسی ملکی مفاد کے حصول کے لیے نہیں تھے۔ دورے سے ایک ماہ پہلے انھوں نے اس زیارت کا ر خ کرنے کا عندیہ دیا تو تمام مشیران نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی نزاکت کی طرف توجہ دلائی اور یہ باور کروانے کی ناکام کوشش کی کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا ہندوستان جانا صرف اہم ترین معاملات کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔

راجا پرویز اشرف جو گیلانی صاحب کی طرح ذہنی طور پر کبھی وزیر اعظم نہ بن پائے اِن مشوروں کو سنتے اور رد کرتے رہے۔ آخر میں اپنی ضد کی گرہ خود ہی کھول دی اور یہ بتایا کہ اصل میں ان کی بیگم اس درگاہ کا دورہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی۔ گھریلو تنازعے سے بچنے کے لیے محترم راجا صاحب نے سفارت کاری کی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال دیا اور خود کو ایک بہترین شوہر ثابت کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ بیگم صاحبہ نے بیت المقدس جانے کی خواہش کا اظہار نہیں کر دیا ورنہ ہو سکتا ہے کہ بیوی کے راجا F-16 میں بیٹھ کر اُدھر کا رخ بھی کر لیتے۔ راجا صاحب نے جانے سے پہلے اپنے تمام خاندان کے لیے یورپ کے ویزے کا بھی مناسب بندوبست کیا، ظاہر ہے جب کاروبار مغرب میں پھیلے گا تو آنے جانے کی سہولت کا حصول لازم ہو جاتا ہے۔

امین فہیم نے اپنے بیٹے کے لیے برطانیہ میں جگہ بنا لی اور درجنوں وزراء اور مشیران نے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بیورو کریٹس کے سامنے ایسی ا یسی فائلیں رکھیں جن کو دیکھ کر چند ایک بیماری کی چھٹی لے کر چلے گئے اور بعض نے دفتر آنا چھوڑ دیا۔ مگر آخری دنوں کی لوٹ سیل رکی نہیں۔ ترقیاتی فنڈز، پلاٹوں کی تقسیم، ٹھیکے، تبادلے، تعیناتیاں، ویزے سب کچھ اس سیل کا حصہ بنے۔ صدام حسین کے گرنے کے بعد اس کے محل کے لوٹے جانے کے مناظر یاد آنے لگے۔ جب ہر کوئی آزادی، جمہوریت اور نئی صبح کا ورد کرتے ہوئے گملے، صوفے، ٹی وی، کمپیوٹر، کارپٹ، کرسیاں سر پر لاد کر گھر کی طرف بھاگ رہا تھا۔


پچھلے ہفتے اضطراب میں اور بھی اضافہ ہوا جب یہ خبر سننے میں آئی کہ ایران سے تیل کے جہاز بذریعہ کراچی پاکستان میں تقریباً 4 مرتبہ ہزاروں گیلن تیل لا چکے ہیں۔ ایران پر پابندیاں اور پاکستان میں درآمد کا کوئی ریکارڈ نہ ہونا اس خبر کو تشویش ناک بنا دیتا ہے۔ نہ اسٹیٹ بینک میں تیل کی آمد کا کوئی ریکارڈ اور نہ پٹرولیم کی منسٹری کے ارکان اس سے واقف ہیں۔ مغربی ملک کے سفارت کار جو پاکستان کی سمندری اور زمینی سر حدوں کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اب جاننا یہ چاہ رہے ہیں کہ یہ تیل کس کے کھاتے میں آ رہا ہے اور کون منگوا رہا ہے۔

ابھی تک ہونے والی غیر سرکاری تفتیش یہ بتاتی ہے کہ ایک کلیدی عہدہ رکھنے والے بدنام زمانہ صاحب کے گھر سے اس آمد و رفت کی اجازت د ی گئی۔ دوسرے الفاظ میں ایران سے تیل کی اسمگلنگ اور پاکستان کی مارکیٹ میں بیچے جانے کے تمام عمل میں جمہوری نمایندگان میں سے ایک براہ راست ملوث ہے۔ شاید نگران حکومت اس معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش کرے کہ سب کو تیل دے کر یہ مال بنانے والے کون ہیں؟

نگران حکومت کو جانے والی حکومت کی آخری دنوں کی داستان کھول کر سامنے لانی ہو گی کس نے کتنے قرضے معاف کروائے اور کس نے اپنے استحقاق کو جمہوریت کے بدترین استحصال کے لیے استعمال کیا۔ یہ سب کچھ سامنے لانا ہو گا۔ مگر پھر ایسی جرأت حفیظ شیخ تو نہیں کر سکتے۔ ان کے نگران وزیر اعظم بن جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر ناکام وزیر خزانہ ملک میں اصل جمہوریت لانے کے کام کا بیڑا اُٹھا سکتا ہے۔ حفیظ شیخ کے دور میں معیشت کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو ان سے پہلے ہو رہا تھا۔ ان کے اپنے خیالات اور جذبات کیا رہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ امریکا سے گہری ذاتی وابستگی اور تعلق کے علاوہ موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک اور حفیظ شیخ میں معیشت کی تباہی کی قدر مشترک ہے۔ ان سے تو معاشی ہارا کاری (جاپا نی خود کشی) کا جواب طلب کرنا چاہیے۔ الیکشن کروانے کی ذمے داری سونپنا بد ترین ناکامی کو تاج پہنانے کے مترادف ہو گا۔

اس دوران ایوان صدر میں موجود جید بیورو کریٹس پر بھی نظر رکھنی ہو گی کہ وہ ان دنوں میں کدھر کا رُخ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب امریکا میں بڑی میٹنگیز کرنے کی خواہش لیے جا رہے ہیں جس میں ظاہرا ً توانائی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں ایوان صدر کی دلچسپی کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ صدر مملکت اور اپنے خاندان کے افراد کے لیے ممکنہ ایمرجنسی کی صورت میں مکمل انتظامات کرنے کے لیے یہ دورہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اِس دورے میں اپنی جیب میں سے وہ ایک پائی بھی نہیں لگائیں گے۔ کم از کم یہ تو پوچھنا چاہیے کہ وہ وہاں پر کسی کے حکم پر جا رہے ہیں۔

مگر یہ سب کچھ پوچھے گا کون؟ ذرایع ابلاغ سمیت سب اسی میں خوش ہیں کہ 5 سال مکمل ہوئے اور الیکشن کا ماحول بنا اس دوران تباہی اور بربادی کے ذمے دار افراد کتنی خاموشی سے نکل گئے اِس کا حساب کرنے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر شاید ہم حساب کرنا بھی نہیں چاہتے۔ ہم سب الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
Load Next Story