مٹھی بھر چاول
پانچ سال میں 4 وزیر خزانہ تبدیل ہوئے چاروں کی اکنامکس پر کمانڈ اور پرانا تجربہ کیا رہا ہے
نواز شریف کی حکومت میں ایک لطیفہ انٹرنیٹ پر مشہور ہوا کہ جب وہ کلنٹن سے ملنے امریکا گئے تو اس سے پوچھا امریکن حکومت کی کامیابی کا کیا راز ہوتا ہے جس سے پاکستانی حکومت بھی استفادہ کر سکے ۔کلنٹن نے کہا ہم اپنی کابینہ میں وزیر رکھتے ہوئے اس کا آئی کیو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی متعلقہ وزارت کی کتنی معلومات رکھتا ہے پھر اس معلومات کی روشنی میں اسے وہ وزارت دیتے ہیں۔
نواز شریف نے پوچھا آپ آئی کیو کیسے چیک کرتے ہیں کلنٹن نے اپنی وزیر نیلسی کو بلایا اور ایک سوال پوچھا ''وہ کون ہے جو تمہارے والدین کی سگی اولاد ہے لیکن نہ وہ تمہارا بھائی ہے نہ بہن ہے'' نیلسی نے ایک لمحہ اپنے ذہن میں سوال دہرایا اور کہا مسٹر پریزیڈنٹ ''وہ میں ہی ہوں'' نواز شریف بہت متاثر ہوئے کلنٹن نے انھیں مشورہ دیا کہ آیندہ آپ بھی اپنی کابینہ میں جس شخص کو بحیثیت وزیر جو وزارت دیں پہلے اس کا متعلقہ فیلڈ میں آئی کیو چیک کریں آپ دیکھیں آپ کے تمام محکمے ترقی کرنے لگیں گے۔ نواز شریف نے واپس آ کر اپنے وزیر خزانہ اور بعد میں بننے والے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کو بلایا اور کلنٹن نے جو سوال پوچھا تھا دریافت کیا سرتاج عزیز نے بار بار سوال اپنے ذہن میں دہرایا لیکن جواب نہیں ملا آخر 24 گھنٹے کا وقت مانگ لیا 23 گھنٹے گزرگئے جواب سمجھ نہیں آیا۔
آخر انڈیا اپنے ہم منصب جارج فرنانڈس کو فون کیا اور سوال کا جواب پوچھا اس نے سوچا سوال ذہن میں دہرایا اور کہا کہ یار وہ تو میں ہی ہوں سرتاج عزیز بہت خوش ہوئے فوراً نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس فون کیا اور کہا سر جواب مل گیا ہے نواز شریف نے پوچھا وہ کون ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ ''جارج فرنانڈس'' ہے نواز شریف نے کہا غلط سرتاج عزیز نے کہا پھر وہ کون ہے نواز شریف نے جواب دیاوہ ''نیلسی'' ہے۔ یہ بظاہر لطیفہ ہے لیکن جس نے بھی بنایا ہے ہماری ہر کابینہ کی بندر بانٹ کو واضح کر دیا ہے جسکے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے اور ہمارا یہ حال ہو گیا ہے کہ کسی بھی وزیر کا پروفائل چیک کر لیں شاذ و نادر اس کی تعلیم و تجربہ سے اس کی وزارت میچ کرتی ہو گی۔
لہذا گھوم پھر کہ بات بیوروکریسی کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اس وزارت کا سیکریٹری و دیگر افسران اپنی مرضی کے مطابق اس محکمے کو چلاتے ہیں اگر وزیر صاحب اس فیلڈ کے ماہر ہوں تو اس محکمے کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت نہایت فخر بلکہ غرور سے اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ ہم وہ پہلی جمہوری حکومت ہیں جس نے اپنے پانچ سال مکمل کیے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایسی ''حکومت'' اور جمہوریت کا کیا فائدہ جس میں عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے بلکہ اس کا معیار زندگی اور زیادہ پست ہو جائے کیونکہ اصل ترقی کا معیار اس بات سے چیک کیا جاتا ہے۔
جب گلی میں گھومنے والے سبزی فروش چاچامجید، پرچون کی دکان والے ماما اصغر، بابو قصائی، ماسٹر دین محمد، سپاہی عبداللطیف، کلرک نعمت علی وغیرہ وغیرہ کے چہرے پر رونق ہو ان کے چولہے صحیح جل رہے ہوں، جو بھی گھر سے نکلے گھروالے اس کی طرف سے اور وہ گھر والوں کی طرف سے بے فکر ہو، بازاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں و دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں یکسوئی سے اپنا کام کر سکیں نہ کہ خودکش دھماکے کا ہر وقت خطرہ ہو۔ ہر ایک کی زبان پر شکوہ شکایت نہ ہو اور وہ گھر و باہر معمولی باتوں پر مرنے مارنے کو تیار نہ ہو، طالبعلم اور ہنرمند اپنے کل سے نا امید نہ ہو، عوام کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ حکومتی سطح پر جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں وہ ملک و قوم کے لیے بہتر ہیں۔
اسی طرح وہ سیاسی پارٹیاں اور ان کی لیڈر شپ جو حکومت کا ان پانچ سال میں حصہ رہیں اور بقدر جثہ جمہوریت و قومی ضرورت اور ترقی کے نام پر اپنا اپنا حصہ ڈالتی رہیں اور مختلف قومی و صوبائی وزارتوں پر براجمان رہیں جن میں سے کچھ حیلے بہانے کر کے حکومت سے بظاہر علیحدہ بھی ہو گئیں لیکن درِ پردہ وہ حکومتی حصہ رہی ہوں یہ عوام کا آسان آئی کیو ہے اپنے منتخب نمایندوں کی صلاحیتیں جانچنے کا اور وہ صاحب علم و بصیرت جن کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی بنیادوں پر جانچنے کا علم دیا ہے وہ بھی زیادہ گہرائی میں نہیں صرف اپنی مٹھی کو بند کریں اور چند وزارتیں اس میں بند کر لیں پھر اپنے آپ سے سوال کریں کیا جن کو بجلی اور پانی کی وزارتیں دی گئیں وہ کبھی Electrical یا Electronics کے طالبعلم رہے؟ تو پھر ان کو پانی و بجلی کی وزارت دینا ملک کو اندھیرے میں لیجانے کا صحیح بندوبست ہے۔
پانچ سال میں 4 وزیر خزانہ تبدیل ہوئے چاروں کی اکنامکس پر کمانڈ اور پرانا تجربہ کیا رہا ہے، پانچ سال تک وزیر داخلہ رہنے والا شخص صرف اس بات پر منتخب کیا جائے کہ وہ FIA کا افسر رہا ہو، وفاقی و مذہبی امور کی دینی تعلیم کیا ہے اور کیا وہ دینی مسئلے مسائل کا علم رکھتا ہے، وزیر ریلوے کیا اپنی وزارت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیر خارجہ کو ڈپلومیسی کا کتنا تجربہ تھا، آئی ٹی کا وزیر قانون کی ڈگری والا کیوں ہے، ڈپٹی وزیراعظم کی کیا وفاقی ذمے داریاں آئین میں ہیں اور کیا پنجاب حکومت کی تنقید کے علاوہ کبھی کوئی قومی سطح کا کوئی کام کیا، اس طرح دیگر وزارتیں بھی جانچی جا سکتی ہیں یہاں بھی آنکھ مایوسی سے کھلے گی لیکن اگر اسی حالت میں رہے تو پھر عوامی خدمت سے سرشار دوبارہ یہی لوگ اندھیرے دینے کے لیے حاضر ہو جائیں گے۔
سلام ہے اس MPA پر جس نے مسیحی برادری کا دکھ حکومت ختم ہونے سے صرف ایک ہفتہ پہلے محسوس کیا اور Resign دیا اس سے پہلے پوری حکومت میں پانچ سال خوب مزے کیے لہذا ابھی سے سب کی صلاحیتیں اور قابلیت کو جانچ لیں اور عوام الناس کو ایسے لوگوں کا اصل چہرہ دکھا دیں ورنہ پھر اگلے پانچ سال یہی حرکتیں سہنے کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ آزمائے ہوئے لوگ اچھے سیاستدان تو ہیں اچھے حکمران نہیں ہیں۔ فرعون جیسے شخص نے چن چن کر ذہین لوگ اپنی حکومت میں شامل کیے تھے۔
اب ہم عقل سے ووٹ دیں گے جذبات سے نہیں تا کہ جو امیدوار آئے وہ نہ بولے بلکہ اس کا Track Recordبولے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم میں سے ہر شخص اپنی مٹھی پر نگاہ رکھے گا کیونکہ اس جمہوریت میں لوگ تولے نہیں گنے جاتے ہیں جب کہ حقیقی ترقی کے لیے عوام کو Quantity میں سے Quality نکالنی ہو گی ورنہ یہ لوگ Power Politics کے عادی ہیں People Politicsکا ان کو کوئی تجربہ نہیں ہے ورنہ یہ نہیں بولتے ان کے کام بولتے ان کے لیے پاکستان کے عوام بولتے یہ تو نگران حکومت کے بھی متوالے ہوتے ہیںاور ترکیب کر کے اس کا بھی حصہ بن جاتے ہیں لیکن خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ عوام میں کافی حد تک احتساب کا مزاج آ گیا ہے اور ان کی چالوں کو سمجھ گئے ہیں اور اپنی مٹھی میں موجود چاول دیکھ سکتے ہیں جو ایک روشن صبح کی نوید ہے بقول محسن بھوپالی ۔
بتو شاباش کیا کہنے ترقی اس کو کہتے ہیں
نہ ترشے تھے تو پتھر تھے جو ترشے تو خدا ٹھہرے