راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
بھائی انور شعور کا ایک قطعہ ہے۔ ذہن میں اس کے مصرعے درست ہو رہے ہیں
حکومتیں بس چند دنوں کی مہمان ہیں اور نگراں حکومتیں نظام سنبھال لیں گی، مگر ان آخری دنوں کا عوامی خون بھی یہ ''جونکیں'' چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور چوس رہی ہیں۔ سیاسی میدان میں دنگل شروع ہو چکے ہیں۔ بڑے اور فیصلہ کن جلسوں، جلوسوں کا آغاز ہو چکا ہے، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور عوام کی عدالتوں میں پیش کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی کوتاہیاں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مئی 2013ء میں ہونے والے جنرل الیکشن کے لیے ہو رہا ہے۔
کچھ اور بھی یہاں ہو رہا ہے۔ لاہور کے علاقے بادامی باغ میں عیسائی بستی جوزف نگر کے سیکڑوں گھر نذرآتش کر دیے گئے۔ چھ سات ہزار اللہ کے بندے تیار ہو کر آئے اور انھوں نے غریب بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یہ ہماری پولیس نے اچھا کیا کہ جوزف نگر والوں کو ایک آدھ گھنٹے پہلے خبر دے دی کہ آبادی سے نکل جاؤ، اللہ کے بندے آ رہے ہیں اور اللہ کے غریب عیسائی بندے اپنے لدے پھندے گھر بار چھوڑ کر جوان بچیوں اور معصوم بچوں کو لے کر بھاگ گئے۔ ادھر یہ عیسائی اللہ کے بندے بھاگے، ادھر مسلمان اللہ کے بندوں نے آتش گیر مادہ خالی بستی پر اچھالا اور لمحوں میں شعلے رقص کرنے لگے اور اللہ کے مسلمان بندوں نے بچے کچے سامان کو بھی آگ کے الاؤ میں پھینکنا شروع کر دیا، چھوٹی موٹر سائیکلیں، ٹھیلے، پتھارے، سب آگ میں پھینکے جا رہے تھے۔ اللہ کے مسلمان بندوں کی کوشش تھی کہ اللہ کے عیسائی بندوں کے پلے کچھ بھی نہ چھوڑا جائے۔
اب آگ لگانے والے واپس جا چکے تھے اور بستی والے آ چکے تھے، گھروندوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان، بچے سب رو رہے تھے۔ بستی جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکی تھی، عورتیں رو رو کر بتا رہی تھیں (پتا نہیں کسے بتا رہی تھیں) ''میری بچی کا جہیز جل گیا، دو تولے سونا تھا، کچھ نقدی تھی، اب کچھ نہیں ہے''۔ میں سب کچھ سن رہا تھا۔ 4 مارچ کی رات عباس ٹاؤن کراچی میں بھی عورتیں یہی ''بین'' ڈال رہی تھیں۔ پانچ دن بعد بادامی باغ لاہور میں بھی وہی باتیں ہو رہی تھیں اور ایک دن بعد موجودہ حکومتیں اپنے لاؤ لشکر سمیٹ لیں گی۔ ان کے فوٹو سیشن ہو چکے ہیں، آخری کھانے ہو چکے ہیں۔ اب یہ حکومت والے اپنی پانچ سالہ کہانیوں کا اختتامیہ لکھ رہے ہیں اور اچھے لکھاریوں کا کہنا ہے کہ اختتامیہ بڑا زور دار ہونا چاہیے تا کہ پڑھنے والے کو یاد رہ جائے۔
بھائی انور شعور کا ایک قطعہ ہے۔ ذہن میں اس کے مصرعے درست ہو رہے ہیں، مگر صحیح مصرعے ہو نہیں رہے، چلیے بھائی انور شعور کا مدعا بیان کیے دیتا ہوں۔ انور شعور کا قطعہ یوں شروع ہوتا ہے ''محمد عربی کا نام لیتے ہیں'' آگے بیان یوں ہے کہ اگر یہ نام لیوا اپنے کرداروں پر ذرا سا غور کر لیں۔ پھر بھائی انور شعور قطعہ کا اختتام یوں کرتے ہیں ''تو شرم آئے محمد کا نام لیتے ہوئے ۔ ابھی صبح صبح کا وقت ہے، میں معمول کے مطابق ''مسجد اویس قرنی '' (مسجد کا نام قصداً لکھا ہے) کہ حضرت اویس قرنی بہت بڑے عاشق رسولؐ تھے۔ احد کی جنگ میں حضورؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا تھا، اویس قرنی نے مدینے سے دور اپنے شہر میں یہ سنا، تو ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت توڑ دیے کہ نامعلوم حضورؐ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے۔ یہ ہے ''مقام محمدؐ'' اور ''عشق محمدؐ''۔
جن کے ''عاشقوں'' نے جوزف نگر کے گھروندے توڑ دیے، آگ لگا دی اور سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
نہ تھکنے والے شہباز شریف نے سانحہ جوزف نگر پر کہا ہے ''گستاخ رسولؐ ملزم کا فیصلہ عدالت کرے گی، حکومت پنجاب کل صبح سے تباہ ہونے والی بستی کے مکانات کی تعمیر شروع کر دے گی، تمام متاثرہ لوگوں کے کھانے پینے کے انتظامات حکومت کرے گی۔ متاثرین کی عارضی رہائش کے لیے کیمپ لگا دیے ہیں اور فی خاندان پانچ لاکھ روپے حکومت پنجاب کی طرف سے پیش کیے جائیں گے۔ علاقہ ایس ایس پی اور متعلقہ تھانہ ایس ایچ او معطل کر دیے گئے ہیں اور دھن کے پکے، قول کے سچے شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ سانحہ جوزف نگر کے معاملات کی لمحہ لمحہ نگرانی میں خود کروں گا اور حکومت چھوڑنے سے پہلے جوزف نگر کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں پھر سے آباد ہو جائیں گے۔ یہاں لکھتے لکھتے میرے دل میں ایک بات آئی ہے میرے اندر کوئی بول رہا ہے۔ ''کاش! شہباز شریف اور عمران خان مل جائیں''۔ دیکھو بھئی! میں تو عوام کے لیے لکھتا ہوں، میں نہ دانش ور، نہ بڑے بڑے سوجھ بوجھ والے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں، تو میرے دل و دماغ میں ایسی ہی ''اوٹ پٹانگ'' باتیں آتی رہتی ہیں کیونکہ ''مجھے گفتگو عوام سے ہے۔''
جماعت الدعوۃ والے حافظ سعید اور مولانا طاہر اشرفی اور دیگر علماء نے جوزف نگر پہنچ کر کہا تھا ''ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔'' اس موقعے پر مولوی حضرات نے ایف آئی آر کا پرچہ لہرا کر ہجوم کو دکھایا تھا اور پھر اللہ کے بندے، اللہ کے بندوں کے گھر بار جلاکر چلے گئے۔ علماء حضرات نے گھروں کو جلانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا ہے ''یہ محمد عربی کی تعلیمات کے منافی کام کیا گیا ہے، محمد عربی سراپا رحمت ہیں اور تمام انسانوں کے لیے رحمت ہیں'' اور میں سوچتا ہوں تو پھر یہ ''غنڈے'' کون تھے؟ ان کو پکڑو اور سزائیں دو، جیسا کہ شہباز شریف نے بھی کہا ہے۔ اس وقت مجھے ہندوستان میں مسلمانوں کی جلتی بستیاں بھی یاد آ رہی ہیں، ہندو ہوں یا مسلمان، غنڈے، غنڈے ہی ہوتے ہیں۔
عباس ٹاؤن تو میرے شہر میں ہے، میں وہاں تیسرے دن پہنچ گیا تھا۔ تباہ بلڈنگیں اور برباد دکانیں، انسانی خون کی بو، ملبے، بہتے آنسو، عمران بھائی کے دونوں بازو جو ملبے سے نکالے گئے اور انھیں کفن میں لپیٹ کر نماز جنازہ کے لیے جنازہ گاہ پہنچایا جا رہا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ خود دیکھا۔ جوزف نگر بہت دور ہے، میں وہاں نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں جہاں میں ہوں، یہ بھی جوزف نگر ہے۔ میں جوزف نگر میں ہی ہوں، میں جوزف نگر کے مکینوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ عباس ٹاؤن ہو یا جوزف نگر، یہاں سب ایک جیسا ہے۔ کیفی اعظم کی نظم سنیے! دکھی دل کو کچھ تو قرار آئے گا۔
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں' شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
زندگی ہنس کے گزرتی تو بہت اچھا تھا
خیر ہنس کے نہ سہی رو کے گزر جائے گی
راکھ برباد محبت کی بچا رکھی ہے
بار بار اس کو جو چھیڑا تو بکھر جائے گی
٭٭
اب نہ وہ پیار' نہ اس پیار کی یادیں باقی
آگ یوں دل میں لگی' کچھ نہ رہا' کچھ نہ بچا
جس کی تصویر نگاہوں میں لیے بیٹھی ہو
میں وہ دلدار نہیں' اس کی ہوں خاموش چتا
٭٭
آرزو جرم' وفا جرم' تمنا ہے گناہ
یہ وہ دنیا ہے' جہاں پیار نہیں ہو سکتا
کیسے بازار کا دستور تمہیں سمجھاؤں
بک گیا جو وہ خریدار نہیں ہو سکتا