جناح کا پاکستان
اسلام کا نظام حکومت موجودہ اصطلاح میں جمہوری نظام حکومت ہے
انسانیت کا پیغام ہمیں حجۃ الوداع میں بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے کہ ''لوگو تم سب ایک آدم کی اولاد ہو، عر بی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سر خ کو سفید پر اور سفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے، اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے کر چلے تو اس کی اطاعت کرو۔'' انسانیت اور برابری کا تصور ہمیں میثاق مدینہ کی دستاویز میں بھی ملتا ہے جو دنیا کی سب سے پہلی جمہوری ریاست کا سیکولر آئین کہلاتا ہے، جس میں کسی مذہبی اور سماجی فوقیت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔
تاریخ اسلام کے مورخ ابن تقطقی سے روایت ہے کہ ہلاکو خان نے جب بغداد کو فتح کیا تو علما سے یہ فتویٰ دریافت کیا کہ کافر مگر عادل فرمانروا بہتر ہے یا مسلمان مگر غیر عادل؟ سوال چونکہ ٹیڑھا تھا اس لیے حاضرین پر سناٹا چھا گیا، کسی نے جواب دینے کی جرأت نہ کی، علی بن طائوس جو اس اجتماع میں موجود تھے اور حلقہ علما میں خاصے احترام سے دیکھے جاتے تھے انھوں نے اس صورت حال کو دیکھا تو فتویٰ میں لکھ دیا ''کافر عادل، غیر عادل مسلمان حکمران سے بہتر ہے۔''
مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب اساسیات اسلام میں لکھتے ہیں کہ اسلام پر نظریہ کے اعتبار سے اور تاریخی لحاظ سے تھیوکریسی یا پاپائیت کا سایہ کبھی نہیں پڑا، اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ علما و فقہا نے بحیثیت ایک جماعت کبھی سیاسی اقتدار کی خواہش کی ہو، اسلام میں مذہبی اجارہ داری کی کوئی گنجا ئش نہیں۔ اسلامی نظام حکومت ہمہ گیر انسانیت پر مبنی ہے، یہ کسی بھی طرح کسی تنگ نظری اور تعصب سے آلو دہ نہیں، یعنی ایسی حکومت جو انسانی بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے وہی عین اسلامی ہے۔
اسلام کا نظام حکومت موجودہ اصطلاح میں جمہوری نظام حکومت ہے، جس میں کسی بھی شخص کو سربراہ مملکت بنایا جا سکتا ہے۔ بانیان پاکستان کے تصور میں پاکستان کا کیا خاکہ تھا، وہ پاکستان کو ایک مذہبی مملکت بنانا چاہتے تھے یا قومی جمہوری وفاقی ریاست؟ ہمیں ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے اس سوال کا جواب علامہ اقبال اور قائداعظم کے خطبات سے تلاش کرنا چاہیے۔ قائداعظم کا پاکستان کو ایک سیکولر، آزاد اور لبرل اسٹیٹ بنانے کا پہلا جرأت مندانہ قدم اور نہایت واضح ثبوت یہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت ایک ہندو ممبر جوگندر ناتھ منڈل سے کروائی۔ ولی خان نے اپنی کتاب ''حقائق حقائق ہیں'' میں صاف لکھا ہے کہ اسکندر مرزا نے مجھے بتایا کہ دہلی سے روانہ ہوتے وقت انھوں نے قائداعظم سے پوچھا کہ جناب ہم سب پاکستان جا رہے ہیں لیکن وہاں حکومت کس طرح کی قائم کریں گے، آیا یہ اسلامی حکومت ہو گی۔ تو انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ نہیں ہم وہاں جدید طرز کی حکومت قائم کریں گے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930ء میں صدارتی خطبہ میں کہا تھا، جہاں تک میں مسلم ذہن پڑھ سکا ہوں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مستقبل کے فرقہ وارانہ سمجھوتے کی خاطر ہندوستانی مسلمان کا اگر یہ حق تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اپنی تہذیب اور ہدایت کی روشنی میں آزاد اور ترقی کا حق دار ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دے گا، میں چاہوں گا کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان ایک ریاست میں ضم کر دیے جائیں، چاہے یہ ریاست برطانوی ہند ہی کے اندر اپنی خود مختار حکومت قائم کرے یا اس سے باہر، ہندوئو ں کو یہ ڈر نہ ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے معنی ان میں کسی قسم کی مذہبی حکومت کے قیام کے ہوں گے بلکہ یہاں اسلام عرب شاہیت کے اب تک موجود اثرات سے آزاد ہو کر اس جمود کو توڑنے میں بھی کامیابی حاصل کرے گا، جو اسلامی تمدن، اسلامی تعلیمات اور شریعت اسلامی پر سیکڑوں برسوں سے طاری ہے، یہ جمود ٹوٹے گا تو نہ صرف تجدید ہو گی بلکہ موجودہ دور کی روح بھی قریب تر ہو جائے گی۔
اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس بارے میں کسی کو ابہام پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال واقعتاً پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری اور آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہتے تھے اور ریاست کو وفاقی بنانا چاہتے تھے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1920ء میں گاندھی کی جانب سے سیاست میں نمائشی مذہبی حکومت پر ان کا ردعمل کیا تھا۔ ایک اور موقع پر جب ان کے چند پرجوش معترفین نے انھیں مولانا جناح کہہ کر مخاطب کیا تو انھوں نے بڑی ترش روئی سے بات کا ٹتے ہوئے کہا، میں مولانا نہیں صرف مسٹر جناح ہوں۔ آزادی کے موقع پر قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔
ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ان بنیادی اصولوں کا بھر پور احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کی تخلیق کا محرک بنے اور اس تقریر کے لیے ایک ایسے اہم ادارے کا انتخاب کیا گیا جسے نو تخلیق ریاست کی بنیادی دستاویز یعنی آئین کی تدوین کرنا تھی، عین تخلیق پاکستان کے موقع پر ایسا خطاب یقیناً بر محل تھا، ایک نئی مملکت وجود میں آ رہی تھی اور اس انتہائی با وقار اور موزوں ترین لمحات میں مملکت کی سب سے اہل اور مجاز شخصیت کا یہ خطاب دراصل ریاست کے اہم اور اساسی نظریات کی وضاحت کے لیے تھا جسے جدوجہد آزادی کا نچوڑ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ان مقاصد کی نشاندہی بھی جن کا حصول قوم کی دسترس میں تھا۔ نو تخلیق ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر سے بڑھ کر اور کون سی شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔
اپنی تقریر کے آغاز میں قائد نے زور دے کر کہا کہ آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا اولین فرض قانون اور امن کی بحالی ہے تا کہ شہریوں کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کا مکمل تحفظ کیا جا سکے۔ آپ آزاد ہیں، آپ اس مملکت پاکستان میں اپنے مندروں، اپنی مسجدوں اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ریاست کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا تعلق کس مذہب، ذات اور نسل سے ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں ہو گا، مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے بلکہ صرف سیاسی اعتبار سے اور وہ بھی بطور ایک ہی ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی ہدایت پر اس تقریر کو جلا دینے یا ریکارڈ سے غائب کر دینے کی کوششیں کی گئیں۔ ضمیر صدیقی کے مطابق قائد کی اس دن (11 اگست) کی مشہور تقریر انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدے داروں کو پسند نہ آئی، انھوں نے چاہا کہ تقریر کا ایک حصہ اخباروں میں شایع نہ ہو کیونکہ ان کے خیال میں اس سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی تھی جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھا، یہ ڈان اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین تھے جنہوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور اصرار کیا کہ تقریر کو کسی تحریف کے بغیر جوں کا توں شایع ہونا چاہیے۔
انھوں نے دھمکی دی کہ وہ قائداعظم سے جا کر استفسار کریں گے کہ اس حصے کو چھپنا چاہیے یا نہیں، اس طرح تقریر کو اصل صورت میں اخباروں کے حوالے کیا گیا۔ بد قسمتی سے قائداعظم کو اپنی فکر کے مطابق ریاست کو تشکیل دینے کا موقع نہ مل سکا اور پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ قائد اعظم کے بعد بننے والی کمزور حکومتوں میں مذہبی انتہا پسندوں کو دبائو ڈالنے کا موقع مل گیا اور آئین میں بعض دفعات شامل کرا دیں جس کے سہار ے مذہبی انتہا پسندوں نے ریاست کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جناح کے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی جائے اور بانیان پاکستان کی اصل سوچ کے مطابق ریاست کی نظریاتی از سر نو تشکیل کی جائے۔
تاریخ اسلام کے مورخ ابن تقطقی سے روایت ہے کہ ہلاکو خان نے جب بغداد کو فتح کیا تو علما سے یہ فتویٰ دریافت کیا کہ کافر مگر عادل فرمانروا بہتر ہے یا مسلمان مگر غیر عادل؟ سوال چونکہ ٹیڑھا تھا اس لیے حاضرین پر سناٹا چھا گیا، کسی نے جواب دینے کی جرأت نہ کی، علی بن طائوس جو اس اجتماع میں موجود تھے اور حلقہ علما میں خاصے احترام سے دیکھے جاتے تھے انھوں نے اس صورت حال کو دیکھا تو فتویٰ میں لکھ دیا ''کافر عادل، غیر عادل مسلمان حکمران سے بہتر ہے۔''
مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب اساسیات اسلام میں لکھتے ہیں کہ اسلام پر نظریہ کے اعتبار سے اور تاریخی لحاظ سے تھیوکریسی یا پاپائیت کا سایہ کبھی نہیں پڑا، اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ علما و فقہا نے بحیثیت ایک جماعت کبھی سیاسی اقتدار کی خواہش کی ہو، اسلام میں مذہبی اجارہ داری کی کوئی گنجا ئش نہیں۔ اسلامی نظام حکومت ہمہ گیر انسانیت پر مبنی ہے، یہ کسی بھی طرح کسی تنگ نظری اور تعصب سے آلو دہ نہیں، یعنی ایسی حکومت جو انسانی بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے وہی عین اسلامی ہے۔
اسلام کا نظام حکومت موجودہ اصطلاح میں جمہوری نظام حکومت ہے، جس میں کسی بھی شخص کو سربراہ مملکت بنایا جا سکتا ہے۔ بانیان پاکستان کے تصور میں پاکستان کا کیا خاکہ تھا، وہ پاکستان کو ایک مذہبی مملکت بنانا چاہتے تھے یا قومی جمہوری وفاقی ریاست؟ ہمیں ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے اس سوال کا جواب علامہ اقبال اور قائداعظم کے خطبات سے تلاش کرنا چاہیے۔ قائداعظم کا پاکستان کو ایک سیکولر، آزاد اور لبرل اسٹیٹ بنانے کا پہلا جرأت مندانہ قدم اور نہایت واضح ثبوت یہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت ایک ہندو ممبر جوگندر ناتھ منڈل سے کروائی۔ ولی خان نے اپنی کتاب ''حقائق حقائق ہیں'' میں صاف لکھا ہے کہ اسکندر مرزا نے مجھے بتایا کہ دہلی سے روانہ ہوتے وقت انھوں نے قائداعظم سے پوچھا کہ جناب ہم سب پاکستان جا رہے ہیں لیکن وہاں حکومت کس طرح کی قائم کریں گے، آیا یہ اسلامی حکومت ہو گی۔ تو انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ نہیں ہم وہاں جدید طرز کی حکومت قائم کریں گے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930ء میں صدارتی خطبہ میں کہا تھا، جہاں تک میں مسلم ذہن پڑھ سکا ہوں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مستقبل کے فرقہ وارانہ سمجھوتے کی خاطر ہندوستانی مسلمان کا اگر یہ حق تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اپنی تہذیب اور ہدایت کی روشنی میں آزاد اور ترقی کا حق دار ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دے گا، میں چاہوں گا کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان ایک ریاست میں ضم کر دیے جائیں، چاہے یہ ریاست برطانوی ہند ہی کے اندر اپنی خود مختار حکومت قائم کرے یا اس سے باہر، ہندوئو ں کو یہ ڈر نہ ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے معنی ان میں کسی قسم کی مذہبی حکومت کے قیام کے ہوں گے بلکہ یہاں اسلام عرب شاہیت کے اب تک موجود اثرات سے آزاد ہو کر اس جمود کو توڑنے میں بھی کامیابی حاصل کرے گا، جو اسلامی تمدن، اسلامی تعلیمات اور شریعت اسلامی پر سیکڑوں برسوں سے طاری ہے، یہ جمود ٹوٹے گا تو نہ صرف تجدید ہو گی بلکہ موجودہ دور کی روح بھی قریب تر ہو جائے گی۔
اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس بارے میں کسی کو ابہام پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال واقعتاً پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری اور آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہتے تھے اور ریاست کو وفاقی بنانا چاہتے تھے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1920ء میں گاندھی کی جانب سے سیاست میں نمائشی مذہبی حکومت پر ان کا ردعمل کیا تھا۔ ایک اور موقع پر جب ان کے چند پرجوش معترفین نے انھیں مولانا جناح کہہ کر مخاطب کیا تو انھوں نے بڑی ترش روئی سے بات کا ٹتے ہوئے کہا، میں مولانا نہیں صرف مسٹر جناح ہوں۔ آزادی کے موقع پر قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔
ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ان بنیادی اصولوں کا بھر پور احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کی تخلیق کا محرک بنے اور اس تقریر کے لیے ایک ایسے اہم ادارے کا انتخاب کیا گیا جسے نو تخلیق ریاست کی بنیادی دستاویز یعنی آئین کی تدوین کرنا تھی، عین تخلیق پاکستان کے موقع پر ایسا خطاب یقیناً بر محل تھا، ایک نئی مملکت وجود میں آ رہی تھی اور اس انتہائی با وقار اور موزوں ترین لمحات میں مملکت کی سب سے اہل اور مجاز شخصیت کا یہ خطاب دراصل ریاست کے اہم اور اساسی نظریات کی وضاحت کے لیے تھا جسے جدوجہد آزادی کا نچوڑ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ان مقاصد کی نشاندہی بھی جن کا حصول قوم کی دسترس میں تھا۔ نو تخلیق ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر سے بڑھ کر اور کون سی شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔
اپنی تقریر کے آغاز میں قائد نے زور دے کر کہا کہ آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا اولین فرض قانون اور امن کی بحالی ہے تا کہ شہریوں کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کا مکمل تحفظ کیا جا سکے۔ آپ آزاد ہیں، آپ اس مملکت پاکستان میں اپنے مندروں، اپنی مسجدوں اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ریاست کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا تعلق کس مذہب، ذات اور نسل سے ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں ہو گا، مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے بلکہ صرف سیاسی اعتبار سے اور وہ بھی بطور ایک ہی ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی ہدایت پر اس تقریر کو جلا دینے یا ریکارڈ سے غائب کر دینے کی کوششیں کی گئیں۔ ضمیر صدیقی کے مطابق قائد کی اس دن (11 اگست) کی مشہور تقریر انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدے داروں کو پسند نہ آئی، انھوں نے چاہا کہ تقریر کا ایک حصہ اخباروں میں شایع نہ ہو کیونکہ ان کے خیال میں اس سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی تھی جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھا، یہ ڈان اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین تھے جنہوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور اصرار کیا کہ تقریر کو کسی تحریف کے بغیر جوں کا توں شایع ہونا چاہیے۔
انھوں نے دھمکی دی کہ وہ قائداعظم سے جا کر استفسار کریں گے کہ اس حصے کو چھپنا چاہیے یا نہیں، اس طرح تقریر کو اصل صورت میں اخباروں کے حوالے کیا گیا۔ بد قسمتی سے قائداعظم کو اپنی فکر کے مطابق ریاست کو تشکیل دینے کا موقع نہ مل سکا اور پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ قائد اعظم کے بعد بننے والی کمزور حکومتوں میں مذہبی انتہا پسندوں کو دبائو ڈالنے کا موقع مل گیا اور آئین میں بعض دفعات شامل کرا دیں جس کے سہار ے مذہبی انتہا پسندوں نے ریاست کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جناح کے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی جائے اور بانیان پاکستان کی اصل سوچ کے مطابق ریاست کی نظریاتی از سر نو تشکیل کی جائے۔