پاکستان اور اقلیتیں
پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان ایک قادیانی ہی تھے، وہ کئی سال تک وزارت خارجہ کے کرتا دھرتا رہے۔
14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے دن جب متحدہ ہندوستان کے آخری اور آزاد انڈیا کے پہلے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں یہ توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان میں اقلیتوں (غیر مسلموں) کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جیسا کہ ہندوستان کے بادشاہ اکبر اعظم نے کیا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فوراً جواب دیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہمیں ہمارے پیغمبر عظیم مصلح حضرت محمد ﷺ نے دی ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
قائد اعظم نے فرمایا تھا ''اکبر نے غیر مسلموں کے ساتھ جس تحمل اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی چیز نہ تھی، اس کی بنیاد آج سے 1300ء سال قبل ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ مفتوح ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ان کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں انتہائی احترام اور رواداری کے عملی رویے سے ڈال چکے تھے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔''
قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جو پہلی کابینہ بنائی اس میں ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنا کر عزت سے سرفراز کیا۔ 1950ء میں شہید ملت لیاقت علی خان انڈیا گئے تو دونوں ممالک کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو پیکٹ دستخط کر کے آئے۔ مسلم لیگیوں کے تیار کردہ 1956ء کے آئین میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی احترام اور فلاح و بہبود کے لیے کئی دفعات رکھی گئیں اور اقلیتوں کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ آئین 1973ء میں بھی اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے ہر طرح کے امتیازات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں اکثریتی مسلمان آبادی اور دیگر مذاہب ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی اقلیتیں بھائی چارے اور امن و امان سے رہ رہے ہیں، صرف گزشتہ برسوں میں قادیانیوں کے بارے میں ایک دو افسوسناک واقعات ہوئے ہیں لیکن ان کے شہری حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان ایک قادیانی ہی تھے، وہ کئی سال تک وزارت خارجہ کے کرتا دھرتا رہے۔ اس ملک کی خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا بڑا ہاتھ ہے جو کہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
ایک محب وطن قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبل پرائز جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ جسٹس اے آر کارنیلیس ایک عیسائی تھے جو کئی برس تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ رانا بھگوان داس ہندو مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ مشہور و معروف جج رہے ہیں۔ پہلے سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے بعد میں ترقی پا کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج بنے۔ سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی گرانقدر قومی اور قانون کی عملداری میں شاندار ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ خدمات اور کردار کی وجہ سے سول سروس آف پاکستان کے چیئرمین بنے۔
جہاں پاکستان میں ان اقلیتوں کو ہر طرح کے بلا امتیاز شہری حقوق، جانی و مالی تحفظ حاصل ہے اور ان کے مقدس مقامات کا احترام روا رکھا گیا وہاں یہ اقلیتیں بھی قومی زندگی کے ہر شعبہ دفاع، امور خارجہ، فنانس، قانون، تعلیم و تحقیق، صنعت و تجارت، سول ایڈمنسٹریشن، فلاحی اور تعمیراتی میدانوں وغیرہ میں اپنی ناقابل فراموش خدمات انجام دے کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر آج تک شک نہیں کیا گیا بلکہ وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا ملک کی اکثریتی مسلمان آبادی۔
مسلم لیگ جب بھی اقتدار میں آئی ہے تو اس کی مرکزی اور صوبائی کابینائوں میں ضرور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے وزیر اور مشیر رہے ہیں۔ مسلم لیگ پارٹی کی مرکزی، صوبائی، ضلعی اور مقامی تنظیموں میں اقلیتی برادری کی شمولیت اور شراکت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں حکمراں ہے، جس نے گزشتہ پانچ سال میں صوبے کی تعمیر و ترقی کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ اب بالکل آخری دنوں میں ان کے دور حکومت میں لاہور کے بادامی باغ کے علاقے میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ ہوا ہے جس میں چند مذہبی انتہا پسندوں اور شرپسندوں نے وہاں پر اقلیتی برادری کی ایک بستی جوزف کالونی کے گھروں کو آگ لگا کر تباہ و برباد کر دیا۔
یہ مذموم حرکت وہاں پر توہین رسالت کے ملزم کی شرمناک جسارت کے رد عمل کے طور پر ہوئی۔ مذکورہ ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع ہو گئی۔ جس کا فیصلہ انصاف کرنے والی عدالت کرے گی۔ لیکن اس کے جواب میں جو کچھ مذہبی انتہا پسندوں نے کیا ہے وہ ہمارے احترام انسانیت و آدمیت کا درس دینے والے عظیم مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام امن و رواداری کا مذہب ہے اور اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کا فرض ہے۔ ایک گستاخ کی گستاخی کے انفرادی عمل پر مسیحی آبادی کے 200 گھروں کو آگ لگا کر خاکستر کرنا اور مال و اسباب کو لوٹ کر اجتماعی نقصان پہنچانا سنگدلانہ، غیر انسانی اور قابل مذمت فعل ہے۔
شدت پسندوں کی اس کارروائی سے بیرونی دنیا میں اسلام اور پاکستان کا نام بدنام ہوا ہے۔ ان کوتاہ اندیشوں نے اقلیتی برادری کے گھروں کو جلا کر اپنے لیے دوزخ کمائی ہے۔ روز حشر یہ جذباتی اور جنونی انتہا پسند شافع محشر کو کیا منہ دکھائیں گے؟
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اﷲ اور دیگر صوبائی وزرا نے اس واقعے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کئی شر پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ امن و امان برقرار نہ رکھنے کے ذمے دار افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔ مظلوم متاثرین کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے معاوضے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ نیز پوری کالونی کے مکانوں کی تعمیر کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں راست اقدام یہ ہو گا کہ امت مسلمہ کی بدنامی کا باعث بننے والے اس واقعے کی صحیح تناظر میں تحقیقات کرتے ہوئے شرپسندوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔