ظلم و استبداد کا شکار روہنگیا مسلمان

برما کی فوج اور بودھ بھکشو مسلم آبادی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور جلاؤ گھیراؤ کررہے ہیں۔


Shakeel Farooqi December 18, 2017
[email protected]

DUBAI: یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر کو عدم تشدد اور امن و آشتی کا درس دینے والے بدھ مذہب کے دیس برما میں جو اب میانمار کہلاتا ہے اس وقت بے بس اور نہتے مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ پاکباز مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور شیر خوار معصوم بچوں کا سفاکانہ قتل عام اس ملک میں ہورہا ہے جس کی سربراہ اس وقت ایک عورت ہے۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی اس انسانیت سوز مہم پر انسانی حقوق کی علمبردار نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں ہورہی، بلکہ وہ انتہائی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ بھی کررہی ہیں کہ یہ سب ان کے بقول دہشت گردوں کا بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی کہاوت اس صورتحال پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔

ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے امن اور انصاف پسند لوگ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے لیے میانمار کی ظالم حکومت کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا میانمار کا حالیہ دورہ توجہ کا حامل ہے، کیونکہ انھوں نے اس سنگین بحران کا ذکر تک نہیں کیا، جس پر عالمی میڈیا ان کی مسلسل سرزنش کررہا ہے۔ سوچی پر تنقید کرنے کے بجائے مودی نے ان کی حمایت اور ہمنوائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان چیلنجز کو سمجھتے ہیں جن کا سامنا میانمار کی سربراہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ مودی نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کرکے ظالم سوچی کا حوصلہ اور بڑھا دیا۔

مودی نے جس طرح اسرائیل یاترا کے دوران مظلوم فلسطینیوں کا ذکر تک نہیں کیا تھا، اسی طرح میانمار کے دورے میں بے یار و مددگار مظلوم روہنگیا مسلمانوں کا نام تک نہیں لیا۔ بھلا ایسا ہوتا بھی کیوں؟ مودی سرکار نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بھارت میں پناہ لیے ہوئے روہنگیا پناہ گزینوں کو بہت جلد اپنے ملک سے نکال کر واپس میانمار بھیج دے گی۔

برما (میانمار) کے شمال مغربی علاقہ اراکان میں روہنگیا نام کی ایک چھوٹی سی اقلیت صدیوں سے آباد ہے جس کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 11 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن اس کے باوجود یہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اب برما کی حکومت اور فوج ان سے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے اور اراکان میں جسے سرکاری طور پر راکھائن کے نام سے پکارا جاتا ہے حالیہ ملٹری کریک ڈاؤن میں 400 سے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جن میں کم عمر بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

گاؤں کے گاؤں جلادیے گئے اور جان بچاکر بھاگنے والوں پر ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائی گئیں۔ درجنوں بدحال مظلوم جو شکستہ کشتیوں کے ذریعے جان بچانا چاہتے تھے، دریا میں ڈوب کر مرگئے۔ میانمار کی ظالم اور جابر فوج نہ صرف ہتھیاروں سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے بلکہ انھیں بھوک اور پیاس سے بھی مار رہی ہے۔

ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے جو ادارے ان مظلوم محصور اور مجبور انسانوں کی مدد کے لیے خوراک، پانی اور دوائیں پہنچانے کے لیے جارہے ہیں، برما کی فوج انھیں راکھائن صوبے میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ فوج کے ظلم و ستم کو دنیا سے چھپانے کے لیے حکومت نے راکھائن کے علاقے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمایندوں اور صحافیوں، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے داخلے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ برمی فوج پورے راکھائن صوبے میں مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے میں مصروف ہے، جس کی تفصیلات سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اراکان کا علاقہ بنگلا دیش کے ضلع چٹاگانگ کی سرحد کے نزدیک واقع ہے اور روہنگیا باشندے جو زبان بولتے ہیں وہ بنگلا زبان ہی کی ایک شکل ہے۔ میانمار کے بدھ مت کے پیروکار ان لوگوں کو بنگالی تارکین وطن قرار دیتے ہیں اور اسی بہانے انھیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنارہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا سیکڑوں سال سے میانمار (برما) میں آباد ہیں۔

2015 میں برما میں عام انتخابات ہوئے اور آنگ سان سوچی جب الیکشن جیت گئیں تو دنیا بھر میں یہ امید جاگ گئی کہ برسوں سے اراکان کے ستائے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو بھی انصاف ملے گا، لیکن اس وقت بے حد مایوسی ہوئی جب انسانی حقوق کی اس نام نہاد علمبردار نے نہ صرف روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اپنی آنکھیں موند لیں بلکہ میانمار کی ظالم و جابر فوج کا دفاع کرنا مشکل کردیا۔

افسوس تو یہ ہے کہ وہ ان 11 لاکھ انسانوں سے ان کی شناخت بھی چھین لینا چاہتی ہیں، حالانکہ نوبیل انعام لینے کے موقع پر اپنی تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ جہاں بھی اور جب بھی لوگوں کے مصائب کو نظر انداز کیاجاتا ہے وہاں شورش برپا ہوجاتی ہے، اسی لیے دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو سوچی کو ان کے فرض کی یاد دہانی کرانا پڑی۔ ملالہ نے سوچی کو یاد دلایا ہے کہ دنیا آپ کے مذمتی بیان کا انتظار کررہی ہے۔

انصاف پسند سیاسی مبصرین نے مطالبہ کیا ہے کہ آنگ سان سوچی سے نوبیل امن انعام واپس لیا جائے، اس مقصد کے لیے ایک آن لائن ایپلی کیشن بھی لانچ کی گئی ہے جس میں ناروے کی نوبیل کمیٹی کے چیئرمین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سوچی کا میڈل یا تو واپس لیں یا اسے ضبط کرلیں۔ انعام کے ساتھ ساتھ دی جانے والی خطیر رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر یہ پٹیشن بے حد مقبول ہورہی ہے اور اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد اس کی حمایت میں اپنے دستخط ثبت کرچکے ہیں۔ برطانیہ اور متعدد مغربی ممالک کے عوام میں سوچی کی اس غداری پر بے حد ناراضی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت دنیا بھر کی انسان دوست تنظیموں نے اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ راکھائن صوبے میں جاری برمی فوج کی بربریت کی مفصل رپورٹ دنیا کے سامنے پیش کردی ہے لیکن امریکا، روس اور برطانیہ سمیت کسی عالمی پاور کی جانب سے احتجاج کا ایک لفظ تک ادا نہیں ہوا۔ البتہ پاکستان، ترکی، ایران، انڈونیشیا اور عرب پارلیمنٹ اور عرب یونین نے میانمار حکومت کی ریاستی دہشت گردی کی سخت ترین مذمت کی ہے۔

برما کی فوج اور بودھ بھکشو مسلم آبادی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور جلاؤ گھیراؤ کررہے ہیں۔ آتش زدگی اور حملوں کے تازہ ترین واقعات داتھیڈونگ میں پیش آئے جہاں روہنگیا مسلمان کی اکثریت آباد ہے۔ 1982 میں منظور کیے گئے ایک ظالمانہ قانون کے ذریعے برما کی حکومت نے راتوں رات برما کے مسلمانوں کی شہریت ختم کردی تھی۔

اعداد و شمار کے مطابق میانمار کے ظالم فوج اور تشدد پسند بودھ بھکشوؤں کے حملوں میں 6 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان مارے جاچکے ہیں، جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 8 ہزار سے زائد ہے۔ 130 دیہات اور 230 سے زائد مکان نذر آتش کیے جاچکے ہیں۔ منہدم کی جانے والی مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد 500 سے متجاوز ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتیرس نے اعتراف کیا ہے کہ روہنگیا مسلمان نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انھوںنے خبردار کیا کہ اگر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مظالم کا یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

پاکستان کے ایک نامور وکیل بیرسٹر اقبال جعفری کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو انھوں نے میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے میانمار کی سربراہ آن سانگ سوچی اور بدھ مت کے مذہبی پیشوا آشین ویراتھو کے خلاف ہالینڈ میں قائم عالمی فوجداری عدالت انصاف میں درخواست دائر کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ آنگ سان سوچی اور آشین ویراتھو مسلمانوں کے قتل عام کے براہ راست ذمے دار ہیں اور پرتشدد واقعات کے باعث لاکھوں روہنگیا مسلمان جبری طور پر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے عدالت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ اس دوران سیکڑوں مسلمان یا تو قتل کیے جاچکے ہیں یا دریا کے راستے نقل مکانی کرتے ہوئے ڈوب کر جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بیرسٹر اقبال جعفری نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف آن سانگ سوچی اور آشین ویراتھو کے خلاف تحقیقات کرواکر ان پر مقدمہ چلائے۔ واضح رہے کہ بودھ مذہبی لیڈر آشین ویراتھو میانمار کے بدھ مذہب کے ماننے والوں کو اپنی اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف اکساتا ہے اور بھڑکاتا ہے۔ ٹائم میگزین اسے ''بدھشٹ دہشت گردی کا چہرہ'' قرار دے چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کو اس انتہائی سنگین صورتحال کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور روہنگیا کے مظلومین کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ ہمارے میڈیا کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو پوری قوت اور شدت کے ساتھ جھنجھوڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔