غیر قانونی تعمیرات ذمے دار کون
نیب کے ایکشن میں آنے کے بعد ایس بی سی اے کے افسر محتاط ہوگئے اور غیر قانونی تعمیرات میں کچھ کمی آئی مگر رکی نہیں۔
2008ء سے قبل غیر قانونی تعمیرات روکنے کی ذمے داری سندھ میں صرف کے بی سی اے کی تھی اور اندرون سندھ کہنے کی حد تک بلدیاتی اداروں کی تھی، مگر لوگ چھوٹی موٹی تعمیرات خود کرا لیتے تھے اور صرف بڑی عمارتیں نقشوں کی منظوری کے بعد تعمیر ہوتی تھیں۔ پی پی کے سندھ حکومت کے سابق وزیر بلدیات آغا سراج درانی نے کے بی سی اے کا دائرہ پورے سندھ تک وسیع کردیا تھا اور ایس بی سی اے قائم کرکے پورے سندھ میں تعمیرات سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی اجازت سے مشروط کردی تھی اور ہر شہر میں ایس بی سی اے کے دفاتر قائم کردیے گئے تھے۔
جس کا پہلا سربراہ منٹھار علی کاکا کو بنایا گیا تھا، جنھوں نے ایس بی سی اے کو رشوت ستانی کا گڑھ بنوادیا تھا اور ہر شہر سے باقاعدگی سے ماہانہ رشوت ایس بی سی اے کو ملتی تھی۔ منٹھار کاکا سندھ کے ایک نہایت بااثر شخص کے زیر سرپرستی سندھ بھر میں غیر قانونی تعمیرات بھاری رشوت کے عوض کراتے تھے اور انھوں نے اربوں کھربوں روپے سمیٹے اور نیب کے ایکشن میں پھنسنے سے قبل ہی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے تھے، جس کے بعد گرفتاری کے خوف اور قائم مقدمات سے بچنے کے لیے واپس نہیں آئے اور بعد میں سندھ حکومت نے ان کی جگہ ایس بی سی اے کے نئے سربراہ کا تقرر کیا اور نیب بااثر کاکا سے تفتیش بھی نہ کرسکا۔
نیب کے ایکشن میں آنے کے بعد ایس بی سی اے کے افسر محتاط ہوگئے اور غیر قانونی تعمیرات میں کچھ کمی آئی مگر رکی نہیں اور افسران کی رشوت بڑھ گئی اور وہ خود غیرقانونی تعمیرات اپنی سرپرستی میں کراتے رہے، جس کے نتیجے میں سندھ بھر میں بے تحاشا غیرقانونی تعمیرات ہوئیں جن میں شادی ہال، بڑی عمارتیں اور تجاوزات کی بھرمار بڑھتی رہی اور سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا۔
کراچی میں پہلے کے بی سی اے اور بعد میں ایس بی سی اے میں منہ مانگی رشوت پر 120 گز کے کارنر کے رہائشی مکانوں کو توڑ کر وہاں چھ سے آٹھ فلیٹوں کی تعمیر شروع ہوئی اور ان پرانے مکانوں کی آبادی جو دو تین فیملی تک محدود تھی وہ آٹھ فیملیوں تک پہنچ گئی۔ جس سے فراہمی و نکاسی آب اور بجلی کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ واٹر بورڈ کے افسران اب اس پر اعتراض کر رہے ہیں کہ واٹر و سیوریج لائنیں اس وقت جتنے خاندانوں کے لیے ڈالی گئی تھیں اب وہاں خاندانوں کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے فراہمی و نکاسی آب کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
کے بی سی اے کی وجہ سے کراچی میں گھروں کے فلور بنانے اور فروخت عروج پر ہے جس سے بھی فراہمی و نکاسی آب اور بجلی کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ 120 گز کے پلاٹوں پر فلیٹ اور فلوروں کی تعمیر و فروخت پر مختلف علاقوں میں عوام نے احتجاج بھی کیا مگر کے بی سی اے خاموش تماشائی بنا رہا۔
کراچی بھر میں کے ڈی اے نے فلاحی و تفریحی مقاصد کے لیے ہر علاقے میں ایمنٹی پلاٹ مختص کیے تھے جن پر کے بی سی اے کے بدعنوان افسروں کی ملی بھگت سے غیر قانونی تعمیرات کی گئیں۔ رہائشی کالونیاں، شادی ہال اور کارخانے قائم کیے گئے جو آج نہیں چالیس سال سے قائم ہیں مگر کبھی ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔
1974ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی نے ایک فلاحی انجمن سادات امروہہ کے رفاحی پلاٹ پر ایف بی ایریا میں تعمیرات کا سنگ بنیاد رکھا تھا، جہاں چار شادی ہال اور اسکول عشروں سے قائم تھے، جن کے خلاف 43 سال بعد سپریم کورٹ کے حکم پر انہدامی کارروائی اب کے ڈی اے نے کی ہے۔
یہ ایک مثال ہے کہ چار عشروں قبل کسی انجمن نے فلاحی پلاٹ لے کر وہاں اگر غیر قانونی تعمیرات کی تھیں تو کے ڈی اے اور کے بی سی اے نے انھیں کیوں نہیں روکا تھا۔ چالیس سال سے اگر فلاحی پلاٹوں پر غیرقانونی تعمیرات ہوئی تھیں، مختلف علاقوں میں پلاٹنگ کرکے وہاں گھر بنوائے گئے، اسکول، اسپتال، ڈسپنسریاں ودیگر تعمیرات ہوئی تھیں، غیرقانونی طور پر بسائی گئی بستیوں میں غریبوں نے پلاٹ خرید کر وہاں اپنے گھر بنائے تھے، جہاں کے ای ایس سی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے ایم سی اور سوئی سدرن گیس نے بجلی، پانی، گٹرلائنیں، سڑکیں اور سوئی گیس فراہم کی تھی مگر کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔
غیرقانونی پلاٹوں پر کئی کئی منزلہ رہائشی فلیٹ بنائے گئے تھے تو ان پر تعمیرات کی اجازت یقینی طور پر کے بی سی اے نے دی تھی اور نقشے منظور کیے ہوں گے۔ کے بی سی اے کی کراچی میں غیر قانونی تعمیرات پر کڑی نظر ہوتی ہے، کیونکہ غیرقانونی تعمیرات کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ کے بی سی اے کے افسروں نے پورے کراچی میں اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں جن کے ذریعے غیرقانونی تعمیرات کرانے والوں سے معاملات طے کیے جاتے ہیں، جب کہ نام نہاد این جی اوز اور صحافت کی آڑ میں صرف غیرقانونی تعمیرات پر کام کرنے والے الگ ہیں۔
غیرقانونی تعمیرات والوں سے پہلے کے بی سی اے کے افسران رشوت وصول کرلیتے ہیں اور بعد میں این جی اوز اور میڈیا والوں کو وہاں بھیجتے ہیں جو جاکر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور معاملہ نہ بننے پر میڈیا میں غیرقانونی طور پر بنائے گئے گھروں کی تصاویر اور خبریں لگنا ہوجاتی ہیں اور این جی اوز والے اپنے لیٹر پیڈز پر کے بی سی اے کو تحریری طور پر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا لکھتے ہیں اور بعض دفعہ عدالتی اسٹے بھی لے کر تعمیرات رکوانے کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
شہر میں کچی آبادیاں بڑھانے اور تجاوزات بڑھانے میں کراچی پولیس نے سب سے بڑا کردار ادا کیا اور متحدہ کے افسروں اور رہنماؤں نے شہر میں چائنا کٹنگ کے ذریعے جو پلاٹ فروخت کرائے انھیں خریداروں نے متعلقہ اداروں سے تصدیق کے بعد خریدا تھا، جو اب غیرقانونی قرار دیے گئے ہیں۔
متاثرین یہ کس سے پوچھیں کہ جب غیر قانونی پلاٹوں کی فروخت اور ان پر تعمیرات ہو رہی تھیں، رفاحی پلاٹوں پر شادی ہال برسوں سے کاروبار کر رہے تھے تو انھیں کیوں نہیں روکا گیا تھا؟ لوگوں نے مذکورہ پلاٹوں پر اربوں روپے خرچ کرکے تعمیرات کرائی ہیں اور شادی تقریبات والوں نے مہینوں قبل شادی ہال بک کرائے تھے تو انھیں کسی بھی ادارے نے متنبہ نہیں کیا تھا۔ اربوں روپے رشوت کھانے والوں کے خلاف کہیں کارروائی نہیں ہو رہی اور بے گناہ افراد کی تعمیرات منہدم کرکے انھیں سزا دی جا رہی ہے، جب کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے مگر وہ دادرسی کس سے چاہیں، کوئی تو بتائے؟