جامعہ کراچی میں بی ایس اورماسٹرزپروگرام میں داخلوں کے لیے این ٹی ایس کے تحت منعقدہ انٹری ٹیسٹ میں شریک ہزاروں طلبا کے امتحان انھیں ''کاربن کاپی'' فراہم کیے بغیرہی لے لیے گئے ہیں۔
طلبہ سے600روپے فی امیدوارکے حساب سے اضافی رقم لینے کے باوجود انھیں کاربن کاپی فراہم نہ کیے جانے کے سبب ٹیسٹ کاانعقاد اوراس کی ''اسسمنٹ'' سوالیہ نشان بن گئی ہے،ٹیسٹ کی شفافیت پرانگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں کیونکہ پہلے ہی ایم بی بی ایس کے داخلہ ٹیسٹ میں این ٹی ایس کاپرچہ آئوٹ کیے جانے کا معاملہ سامنے آچکا ہے بتایا جا رہا ہے کہ مذکورہ اقدام جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی سفارش پراین ٹی ایس کی جانب سے کیا گیاہے جس کا مقصد جامعہ کراچی کی جانب سے فی طالب علم 100روپے کی رقم بچانابھی بتایاجارہا ہے،انٹری ٹیسٹ میں 15ہزارکے قریب امیدوارشریک ہوئے تھے۔
یادرہے کہ اسی این ٹی ایس نے گزشتہ ماہ دائودانجینیئرنگ یونیورسٹی کے منعقدہ ٹیسٹ میں یونیورسٹی کے اصرار پر شفافیت کوبرقرارکھنے کے لیے طلبہ کوجوابی کاپیوں کے ساتھ ہی کاربن کاپی فراہم کی تھی جبکہ خود این ای ڈی یونیورسٹی بھی اپنے داخلہ ٹیسٹ میں طلبہ کوجوابی کاپی کے ساتھ ساتھ کاربن کاپی فراہم کرتی ہے جوطلبہ اپنے ساتھ گھر لے جاسکتے اوراس سے آنے والے نتائج کاتقابلی جائزہ لے سکتے ہیں۔
قابل ذکرامریہ ہے کہ ایچ ای سی کی ٹیسٹنگ سروس کے تحت پہلی بارپورے ملک میں منعقدہ انٹری ٹیسٹ میں بھی طلبہ کو کاربن کاپیاں فراہم کی گئی تھیں ''ایکسپریس'' کو معلوم ہوا ہے کہ ہفتہ اوراتوارکومنعقدہ ٹیسٹ کے دوران شریک ہزاروں طلبہ جوابی کاپیاں توواپس لے لی گئیں تاہم انھیں کاربن کاپی فراہم نہیں کی گئی۔
''ایکسپریس''نے جب اس سلسلے میں این ٹی ایس سندھ کے سربراہ مسعودرضوی سے رابطہ کیاتوانھوں نے انکشاف کیاکہ جامعہ کراچی کا اصرار تھا کہ وہ فی طالب علم آنے والے اخراجات میں 100روپے کی بچت کرنا چاہتی ہے لہذایونیورسٹی سے کیے گئے معاہدے کے تحت طلبہ کوکاربن کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم جامعہ کراچی کی ہی سفارش پر انھیں جوابی کاپیوں کی اسکین کاپی فراہم کی جائے گی۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کی جوابی کاپیوں کی اسکین شدہ کاپیاں این ٹی ایس سے منگوائے جانے سے مذیدشکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں اورطلبہ سوال کررہے ہیں کہ جب جامعہ کراچی نے ٹیسٹ کے عمل سے خود کوعلیحدہ کرتے ہوئے ٹیسٹ کیلیے تھرڈپارٹی کنٹریکٹ دیاہے تووہ ہماری جوابی کاپیاں حاصل کرکے نتائج کے حوالے سے کون سی معلومات لیناچاہتی ہے جس سے ٹیسٹ کا پورا کا پوراعمل مشکوک ہوتاجارہاہے۔
طلبہ سے ٹیسٹ کیلیے مجموعی فیس میں ایک ہزار روپے لیے گئے جبکہ این ٹی ایس کوفی طالب علم 400روپے کی ادائیگی کی گئی ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلوں کے لیے آن لائن ایڈمیشن فارم کی قیمت 2200روپے جبکہ اوپن میرٹ پرداخلوں کے لیے فارم کی قیمت 1200روپے مقررتھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ آن لائن پروسیسنگ فیس 1200روپے اوراین ٹی ایس کے ٹیسٹ کی مد میں طلبہ سے ایک ہزارروپے وصول کیے گئے ہیں تاہم این ٹی ایس کوتقریباً400روپے فی طالب علم اداکیے گئے ہیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ این ٹی ایس پر جواخراجات آتے ہیں وہ ہرسال جامعہ کراچی کی انتظامیہ طلبہ سے فارم کی قیمت یاپروسیسنگ فیس کی مد میں ہی لے لیتی ہے پروسیسنگ فیس اس بار بھی لی گئی تاہم اس کے باوجود این ٹی ایس سے 100روپے فی طالب علم منہا کروا کے ٹیسٹ کی شفافیت کیوں مشکوک کی گئی۔
''ایکسپریس''نے جامعہ کراچی کاموقف جاننے کے لیے وائس چانسلرڈاکٹرمحمد اجمل خان کے ترجمان سے رابطہ کیاگیاتوان کاکہناتھاکہ اس معاملے پر ڈائریکٹر ایڈمیشن کمیٹی سے رابطہ کیاجائے، ڈاکٹرمحمد احمد قادری سے رابطہ کیا گیا اور کاربن کاپی نہ فراہم کیے جانے کی اطلاع کی توانھوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا انھوںنے بتایا کہ وہ اس وقت لاہورایئرپورٹ پرہیں جس کے بعد ان کاموبائل فون بند ہوگیا۔