قومی ایشوز پر وزیراعظم کی اہم باتیں
پیپلز پارٹی ہمارے مقابلے میں ایک بھی ایسا ترقیاتی منصوبہ پیش نہیں کر سکتی،وزیراعظم
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز سی پی این ای(CPNE) کے وفد سے گفتگو کے دوران ملکی سیاسی صورت حال اور دیگر موضوعات پر خاصی اہم باتیں کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ کوئی طاقت اسمبلیاں توڑنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ حکومت مدت پوری کرے گی اور الیکشن مقررہ وقت پر 15 جولائی کو ہی ہوں گے۔ ان باتوں سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ حکومت اور مسلم لیگ الیکشن مقررہ وقت پر ہی چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل بھی منظور ہو گیا ہے۔ اس سے مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
وزیراعظم نے اس حوالے سے تمام خدشات کو مسترد کر دیا۔ پاکستان میں مختلف ذرایع سے قبل از وقت انتخابات کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں، کچھ حلقے قومی حکومت کی بھی باتیں کرتے رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی سیاست میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ حکومت مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ لیکن اس پروپیگنڈے کے دوران وقت آگے بڑھتا رہا اور انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوئے۔ اس بار بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے الیکشن کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک بات کی ہے اور اب اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بارے میں اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف یہ تاثر پیش کرتی ہے کہ وہ ایک ڈمی وزیراعظم ہیں اور وہ میاں نواز شریف سے پوچھے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ میاں نواز شریف نے آج تک حکومتی امور پر مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا۔ جب میں محسوس کرتا ہوں تو مشورے کے لیے ان سے خود رابطہ کرتا ہوں۔ بہرحال یہ وزیراعظم کا مؤقف تو ہو سکتا ہے لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ آج بھی حکومتی معاملات میں اہم فیصلے میاں صاحب کی منظوری سے ہی ہوتے ہیں۔
بہرحال یہ بات حقیقت ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چونکہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم ہیں جب کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد ہیں لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ ان سے مشورہ لیا جاتا اور ایسا کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اگلا الیکشن کارکردگی اور اپنے ترقیاتی منصوبوںکی بنیاد پر لڑیں گے جب کہ پیپلز پارٹی ہمارے مقابلے میں ایک بھی ایسا ترقیاتی منصوبہ پیش نہیں کر سکتی۔ بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ الیکشن میں عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ آیندہ الیکشن میں مسلم لیگ کو تحریک انصاف کے ساتھ سخت مقابلہ کرنا ہو گا جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی فیصلہ کن سیاسی قوت ہے۔
اس لیے مسلم لیگ (ن) کے لیے اگلا الیکشن جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے لیڈر اور رہنما کہہ رہے ہیں کہ ان کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں کی نسبت بہتر ہے لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ موجودہ دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور غیرملکی قرضے بھی بڑھے ہیں جب کہ ملک میں سیاسی غیریقینی بھی موجود ہے۔ گو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ہے لیکن کئی معاملات پر حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے خصوصاً زرعی شعبہ اتنی ترقی نہیں کر رہا جتنی اسے کرنی چاہیے تھی جب کہ کسان کی حالت بھی خراب ہو رہی ہے۔ اس سوال پرکہ میاں نواز شریف عدلیہ پر تنقیدکر رہے ہیں، وزیراعظم نے کہاکہ میاں نواز شریف کو اظہار رائے کا حق ہے تاہم کوئی بھی آئین کے خلاف کام کرے گا تو میں اس کے خلاف کارروائی کروںگا۔ یہ بھی صرف باتیں ہی نظر آتی ہیں لیکن عملی طور پر شاید حکومت کچھ نہ کر سکے۔ میاں نواز شریف مسلسل اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے، اسے بتانے کی ضرورت ہیں ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ سندھ طاس معاہدہ پر حکومت غافل نہیں ہے، معاہدے پر ہماری پوزیشن مضبوط ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا ہے۔ بھارت عالمی فورموں پر کتنا ناکام رہا اور پاکستان کتنا کامیاب رہا اس کا پیمانہ تو دریاؤں میں بہنے والا پانی ہی ہے۔ مشاہدے کی بات یہی ہے کہ دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان پانی کے بحران کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس میں شاید کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے۔ ہم تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کوئی بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارت نے اسی سے فائدہ اٹھایا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ڈیم اور بیراج تعمیر کیے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم نے جو باتیں کی ہیں، وہ خاصی اہم ہیں اور ان سے بہت سے ایشوز پر حکومت کا مؤقف واضح طور پر سامنے آیا ہے۔
وزیراعظم نے اس حوالے سے تمام خدشات کو مسترد کر دیا۔ پاکستان میں مختلف ذرایع سے قبل از وقت انتخابات کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں، کچھ حلقے قومی حکومت کی بھی باتیں کرتے رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی سیاست میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ حکومت مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ لیکن اس پروپیگنڈے کے دوران وقت آگے بڑھتا رہا اور انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوئے۔ اس بار بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے الیکشن کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک بات کی ہے اور اب اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بارے میں اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف یہ تاثر پیش کرتی ہے کہ وہ ایک ڈمی وزیراعظم ہیں اور وہ میاں نواز شریف سے پوچھے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ میاں نواز شریف نے آج تک حکومتی امور پر مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا۔ جب میں محسوس کرتا ہوں تو مشورے کے لیے ان سے خود رابطہ کرتا ہوں۔ بہرحال یہ وزیراعظم کا مؤقف تو ہو سکتا ہے لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ آج بھی حکومتی معاملات میں اہم فیصلے میاں صاحب کی منظوری سے ہی ہوتے ہیں۔
بہرحال یہ بات حقیقت ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چونکہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم ہیں جب کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد ہیں لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ ان سے مشورہ لیا جاتا اور ایسا کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اگلا الیکشن کارکردگی اور اپنے ترقیاتی منصوبوںکی بنیاد پر لڑیں گے جب کہ پیپلز پارٹی ہمارے مقابلے میں ایک بھی ایسا ترقیاتی منصوبہ پیش نہیں کر سکتی۔ بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ الیکشن میں عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ آیندہ الیکشن میں مسلم لیگ کو تحریک انصاف کے ساتھ سخت مقابلہ کرنا ہو گا جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی فیصلہ کن سیاسی قوت ہے۔
اس لیے مسلم لیگ (ن) کے لیے اگلا الیکشن جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے لیڈر اور رہنما کہہ رہے ہیں کہ ان کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں کی نسبت بہتر ہے لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ موجودہ دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور غیرملکی قرضے بھی بڑھے ہیں جب کہ ملک میں سیاسی غیریقینی بھی موجود ہے۔ گو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ہے لیکن کئی معاملات پر حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے خصوصاً زرعی شعبہ اتنی ترقی نہیں کر رہا جتنی اسے کرنی چاہیے تھی جب کہ کسان کی حالت بھی خراب ہو رہی ہے۔ اس سوال پرکہ میاں نواز شریف عدلیہ پر تنقیدکر رہے ہیں، وزیراعظم نے کہاکہ میاں نواز شریف کو اظہار رائے کا حق ہے تاہم کوئی بھی آئین کے خلاف کام کرے گا تو میں اس کے خلاف کارروائی کروںگا۔ یہ بھی صرف باتیں ہی نظر آتی ہیں لیکن عملی طور پر شاید حکومت کچھ نہ کر سکے۔ میاں نواز شریف مسلسل اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے، اسے بتانے کی ضرورت ہیں ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ سندھ طاس معاہدہ پر حکومت غافل نہیں ہے، معاہدے پر ہماری پوزیشن مضبوط ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا ہے۔ بھارت عالمی فورموں پر کتنا ناکام رہا اور پاکستان کتنا کامیاب رہا اس کا پیمانہ تو دریاؤں میں بہنے والا پانی ہی ہے۔ مشاہدے کی بات یہی ہے کہ دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان پانی کے بحران کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس میں شاید کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے۔ ہم تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کوئی بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارت نے اسی سے فائدہ اٹھایا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ڈیم اور بیراج تعمیر کیے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم نے جو باتیں کی ہیں، وہ خاصی اہم ہیں اور ان سے بہت سے ایشوز پر حکومت کا مؤقف واضح طور پر سامنے آیا ہے۔