آئیں پھر اقبالؒ اور قائدؒ کی باتیں کریں
برّصغیر کے مسلمان سب سے بلند کردار سیاستدان محمد علی جناح کی قیادت میں نکلے تو منزل تک پہنچنے سے کوئی طاقت نہ روک سکی۔
عالمی مفکّر خصوصاً ترکی اور ایران کے دانشور پاکستان کے اربابِ اختیار کے رویئے اور میڈیا کی ذہنی پستی پر حیران ہوتے ہیں کہ انھوں نے علاّمہ اقبالؒ جیسے عظیم محسن کو فراموش کردیا، غیروں اور بدخواہوں کے کہنے پر اقبالؒ کو نصاب سے نکالا (تاکہ نئی نسل کو مفکّرِ پاکستان کی فکر سے ناآشنا رکھا جائے) اور پھر انھی کی خوشنودی کے لیے حکیم الاُمّت کا مقام اور مرتبہ کم کرنے کے لیے یومِ اقبالؒ کی چھٹی ختم کردی گئی، اس بھونڈی حرکت کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ''ہمیں چھٹیوں کے بجائے کام کرنا چاہیے'' مگر ساتھ ہی سال میں باون چھٹیاں بڑھادی گئیں یعنی ہفتے میںدو چھٹیاں کردی گئیں۔
جو کام پیپلز پارٹی اور جنرل مشرّف سے نہ کرایا جاسکا، وہ مسلم لیگ کی حکومت نے کردیا، وہ مسلم لیگ جس کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اُمّت کے حکیم نے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے علیحدہ ملک کا تصوّر پیش کیا تھا، اُسی تصوّر اور اُسی فکر کا پرچم لے کر برّصغیر کے مسلمان بیسویں صدی کے سب سے بلند کردار سیاستدان محمد علی جناح کی قیادت میں نکلے تو انھیں منزل تک پہنچنے سے کوئی طاقت نہ روک سکی، محمد علیؒ جناح نے اپنا سب کچھ توانائیاں، صحت، آرام، جائیدادسب کچھ مسلمانوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے قربان کردیا۔اِدھر قائد نے آزادی کا تخفہ مسلمانوں کی جھولی میں ڈالا اور اُدھر وہ نڈھال ہوکر بستر پر جا گرے اور پھر سال بھر بیماریوں سے نبردآزما رہے ایک روز قائد کی سواری زیارت سے کراچی پہنچی تو دوسرے روز غم سے نڈھال پورا کراچی اپنے محبوب قائد کو سفرِ آخرت پر رخصت کرنے کے لیے نکل پڑا۔
آج ہم جو کچھ ہیں اور ہمارے پاس جو بھی ہے،ہمارے عہدے،کندھوں پر چمکتے ہوئے رینک، ہماری وزارتیں، حکومتیں، اقتدار، فیکٹریاں، اینکریاں، مال و دولت، سب کچھ اُس پاکستان کی بدولت ہے جو فکرِ اقبال اور قائد کی جدّوجہد کا ثمر ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں، انھیں شایانِ شان طریقے سے یاد رکھتی ہیں۔
ماہِ نومبر میں یومِ اقبالؒ کے سلسلے میں کئی تعلیمی اداروں سے دعوت نامے آتے ہیں، اقبالؒ کے خواب پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں کبھی بھی یومِ اقبال ڈھنگ سے نہیں منایا گیا، اس سلسلے میں علاّمہ اقبال کونسل کا قیام بڑا خوش آیند ہے، اقبال کونسل نے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اقبالؒ کے یومِ پیدائش پر بڑی بھرپور تقریب منعقّد کی اور دارلحکومت کومفّکرِ پاکستان کے اشعار سے مزّین کردیا، ہزاروں افراد نے وہ لازوال اشعار پڑھے اور خوش ہوکر تبصرے کیے کہ ''لگتا ہے یہ آج لکھّے گئے ہیں، آج بھی سو فیصد relevant ہیں''۔''اقبالؒ کے اشعار پڑھ کر روح تک نہال ہوجاتی ہے''۔
راقم نے اس بار اسلام آباد ماڈل کالج برائے خواتین، بحریہ یونیورسٹی، کیڈٹ کالج حسن ابدال،گورنمنٹ کالج لاہور، زمیندارہ کالج گجرات اور تاریخی اسلامیہ کالج پشاور سے فکرِاقبال پر طلباء سے خطاب کے دعوت نامے قبول کیے۔ میڈم ثمرہ لطیف کی سربراہی میں اسلام آباد ماڈل کالج اپنے ڈسپلن اور تعلیمی معیار کے لحاظ سے واقعی ایک ماڈل کالج لگتا ہے، بحریہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسے دارلحکومت کی ایک بہترین یونیورسٹی بنا دیا ہے،کیڈٹ کالج حسن ابدال میں میرے سہانے بچپن کے پانچ سال گزرے ہیں جہاں میں سر کے بل بھی جانے کو تیار رہتا ہوں، موجودہ پرنسپل جنرل (ر) نجیب طارق نے دن رات محنت کرکے اسے ایک شاندار ادارے میں بدل دیا ہے۔
پرنسپل صاحب مجھے میرے پرانے ہوسٹل لیاقت ونگ میں لے گئے جہاں میں نصف صدی قبل گزرے ہوئے ماہ و سال میں کھوگیا۔گورنمنٹ کالج لاہور اپنی قسمت پر ہمیشہ ناز کرتا رہے گا کہ مشرق کے بے مثل شاعر اور مفکّر علامّہ اقبالؒ وہاں پڑھتے بھی رہے اور پڑھاتے بھی رہے، راقم کو بھی کچھ عرصہ ُاس عظیم درسگاہ میں علم کے موتی چُننے کا موقع ملا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارے کی تحریک شروع کی گئی جس کے محرّک اور سرخیل صاحبزادہ عبدالقیوم تھے، انھوں نے جب پندرہ لاکھ کی رقم جمع کرلی تو دارالعلوم اسلامیہ کے نام سے اس تاریخی ادارے کی تعمیر کا آغاز ہوا، جو بعد میں اسلامیہ کالج پشاور کے نام سے مشہور ہوا۔21 مارچ 1912 کو اس کے افتتاح کے موقع پر صوبے بھر اور قبائلی علاقوں سے تیس ہزار افراد نے شرکت کی ۔ کالج کا سنگِ بنیاد نامور مجاہدِ آزادی حاجی صاحب آف ترنگ زئی سے رکھوایا گیا۔
تحریکِ پاکستان میں اسلامیہ کالج پشاور نے تاریخی کردار ادا کیا، بانیٔ پاکستان یہاں تین مرتبہ تشریف لائے۔ وائس چانسلر صاحب کے بقول ایک مرتبہ پشاورمیں داخل ہوتے ہی طلباء نے ان کی کار روک لی، گاڑی کا گیئر نیوٹرل کردیا اور اپنے زور اور جوش و جنون سے گاڑی کو اسلامیہ کالج لے آئے، پھولوں سے پوری درسگاہ گلرنگ بنادی گئی خیبر یونین کے صدر نے اپنی تقریر میں کہا ''قائد اعظم ! اسوقت آپ ہی مسلمانوں کے سب سے سچے اور مخلص راہنما ہیں، ہم آج آپ کی خدمت میں آٹھ ہزار روپے پیش کررہے ہیں اگلی بار ہم آٹھ ہزار طلباء پیش کریں گے جوآپ کے ایک اشارے پر جانیں دینے کے لیے تیار ہونگے'' نوجوان نہیں جانتے تھے کہ ان کا قائد اپنے بچوں سے پیسے لیتا نہیں دیتا ہے۔ قائد نے رقم کی تھیلی پیار سے واپس کردی ۔
قائدؒ گورنر جنرل بننے کے بعد بھی اسلامیہ کالج تشریف لائے اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''مجھے اس بات کی بے پناہ خوشی اور فخر ہے کہ اس کالج کے طلباء نے پاکستان کی تحریک میں بڑی محنت کی اور آزادی کے حصول کے لیے اپنا حصّہ ڈالا، اب جب کہ ہم نے اپنا ھدف حاصل کرلیا ہے اور آپ ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ اب آپ اپنے اندر ڈسپلن اور اعلیٰ کردار پیدا کریں، میں آپکو انتباہ کرتا ہوں کہ آپ کبھی غلط معلومات پر مبنی یا جذبات سے کھیلنے والے نعروں کے فریب میں نہ آئیںصوبائی یا علاقائی تعصبات کو قریب نہ آنے دیں، ہمیں اپنے علاقے، اپنے شہر اور اپنے گاؤں سے بھی محبّت ہوتی ہے مگر ملک کی محبت سب سے اہم ہے، باقی تمام محبتّیں اسمیں ضم ہوجانی چاہئیں" عالمِ اسلام کے لیے پاکستان کے کردار کے بارے میں کہا:
"Remember! we are building up a state which is going to play its full part in the destinies of the whole Islamic world"
پھر فر مایا "آپ نے یونیورسٹی کا مطالبہ کیا ہے ''میں خود چاہتا ہوں کہ پشاور میں ایک ایسی درسگاہ بنے جہاں سے ہمارے علم اور کلچر کی شعاعیں مڈل ایسٹ اور سینٹرل ایشیا تک پہنچیں۔ آپکو یونیورسٹی بہت جلد مل جائے گی''
قائدؒ نے یونیورسٹی بنانے کا وعدہ پورا کردیا۔ یونیورسٹی منظور ہوگئی مگر قائدؒ اس کے افتتاح کے لیے نہ آسکے، وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے اس کا افتتاح کیا۔
با نیٔ پاکستان نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی جائیداد کے تین حصّے کیے۔ ایک سندھ مدرسۃالاسلام کودیا، دوسرا علی گڑھ یونیورسٹی کو اور تیسر ا اسلامیہ کالج پشاور کو دے دیا گیا، اسلامیہ کالج کے حصّے میں اُسوقت ایک کروڑ گیارہ لاکھ روپے آئے جس سے جناح کالج برائے خواتین، قائداعظم کالج آف کامرس اینڈ بزنس ، فاطمہ جناح گرلز ہوسٹل اور جناح ریزیڈنشل کالونی کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ یہ تمام ادارے اسوقت پشاور یونیورسٹی کا حصّہ ہیں۔ یاد رہے کہ قائدؒ نے خود اس ایثار کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔
راقم وائس چانسلر صاحب کے ہمراہ اُسی خیبر یونین ہا ل کے دروازے پر پہنچا اور شیروانیوں میں ملبوس طلباء نے ریسیو کیا تو پوری تاریخ ذھن میں گھوم گئی اور ذہن کئی دہائیاں پیچھے لَوٹ گیا، اسی سحر میں گرفتار راقم کو خطاب کا آغاز ان جملوں سے کرنا پڑا''وہ درسگاہ جہاں مفکّرِ پاکستان نے قیام کیا ہو اور جہاں بانیٔ پاکستان تین بار آچکے ہوں اس کا ذرّہ ذرّہ میرے لیے مقدّس ہے ۔ میں یہاں لیکچر دینے کے لیے نہیں یہاںحاضری کے لیے اور اس عظیم درسگاہ کی زیارت کے لیے آیا ہوں''۔
اس کے قیام سے لے کر کافی عرصے تک اسلامیہ کالج کے پرنسپل آکسفورڈ یا کیمرج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور قابلیّت میں بے مثال ہواکرتے تھے، موجودہ سربراہ پروفیسر حبیب احمد صاحب بھی انھی روایات کے پاسبان ہیں۔ بلاشبہ جسے علی گڑھ یونیورسٹی دیکھنے کا شوق ہو وہ جاکر اسلامیہ کالج پشاور دیکھ لے۔
راقم جس ادارے میں بھی گیا ملک کے ذہین ترین طلباء و طالبات نے ایک بات ضرور کی کہ ''حکومت سے پوچھیں کہ اس نے ہمارے قومی شاعر کا مقام اور مرتبہ کم کرنیکی کوشش کیوں کی ہے''۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف صاحب ہر جگہ کچھ سوال پوچھ رہے ہیں جن میں بلاشبہ بڑا وزن ہے مگر اس ملک کے نوجوان اور خود مسلم لیگ کے ووٹر دوسوال اُن سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ مفکّرِ پاکستان کی چھٹی کس کے کہنے پر بند کی گئی اور ختمِ نبوّت کا طے شدہ اِشو کس کی تجویز پر یا کس کے دباؤ پر چھیڑا گیا؟۔
اربابِ اقتدار کو اس تاریخی حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان (جسکے وہ حکمران ہیں) دو قومی نظریئے پر قائم ہوا ، جسکا تصوّر اقبالؒ نے دیا اور قائدؒ نے اسی نظرئیے کا پرچم اُٹھا کر پاکستان کی تحریک چلائی۔ اقبالؒ اسلامی نظریۂ حیات اور مسلم تہذیب کی سب سے موثّر اور پرشکوہ علامت ہے ،اقبالؒ اسلامی نشاۃ ثانیہ کا سب سے پاور فُل استعارہ ہے۔ اقبالؒ ، محمد علی جناحؒ اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں ، دونوں میںسے کسی ایک کے بغیر پاکستان نامکمّل ہوگا اور قوم بے سمت ہوجائے گی۔ ویسے بھی اقبالؒ کے بغیر ہمارے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے ذھنی افلاس، احساسِ کمتری اور پست درجے کی سیاست بازی!!
بابائے قوم نے فوجی افسروں کو سیاست سے الگ رہنے کا حکم دیا اور پھر اپنی 11اگست کی تقریر میں اہلِ پاکستان کو کرپشن اور اقرباپروری سے پرھیز کرنے کی سختی سے تاکید کی تھی۔ چند روز بعد آنے والی قائدؒ کی سالگرہ پر سیاسی اور عسکری قیادت روایتی بیان جاری کرنے کے بجائے اگر مزارِ قائد پر حاضر ہوکرسچّے دل سے عہد کرے کہ کوئی پارٹی کسی بددیانت اور مشکوک کردار کے شخص کو الیکشن میں ٹکٹ نہیں دیگی اور فوج براہِ راست یا بلواسطہ سیاست میں دخل اندازی نہیں کریگی تو ملک سیاسی اور معاشی استحکام سے ہمکنار ہوگا اور اس ارضِ پاک پر خوشحالی کی فصلِ گل اُترنا شروع ہوجائے گی۔