ذہنی دھند کے شکار لوگ
اپنے ملکی ڈرائیوروں کا بغور معائنہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگا کہ وہ سب کے سب شدید ذہنی دھند کا شکار ہیں۔
ہمیشہ خیال رکھیے کہ دھند میں سفر اختیار نہ کریں، کیونکہ یہ ایک خطرناک عمل ہے اور ذہنی دھند تو بہت ہی زیادہ خطرناک ہے، اس کے ساتھ سفر کرنا تو اپنے آپ کو مکمل خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم اپنے ملکی ڈرائیوروں کا بغور معائنہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگا کہ وہ سب کے سب شدید ذہنی دھند کا شکار ہیں، اس لیے اس وقت ہم سب کے سب مکمل خطرے میں ہیں، ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ ا س کے ساتھ آیندہ کیا ہونے والا ہے اور یہ بھی کہ ڈرائیور بھی اپنے اگلے لمحے سے ناواقف ہیں۔ اس لیے آئیں سب سے پہلے تو ہم سب اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں اور کسی بھی انہونی حادثے کے لیے تیار رہیں، چونکہ ابھی وقت ہے ہمارے پاس، اس لیے آئیں اپنے ڈرائیوروں کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں۔
ہم سب اس سے تو واقف ہی ہیں کہ دھند کیسے پیدا ہوتی ہے، آئیں یہ پتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذہنی دھند پیدا ہونے کے کیا اسباب ہیں۔ جب کسی انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ ناگزیر ہے اور اس جیسا کوئی دوسرا سمجھدار ہی نہیں، اور وہ جو چاہے جیسا چاہے کرے، اسے روکنے اور ٹوکنے والاکوئی نہیں، اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت حاصل ہے، تو پھر وہ شدید ذہنی دھند کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی سوچ صرف اپنی ذات کی حد تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔
کیونکہ اس دھند کی وجہ سے وہ اپنے علاوہ اور کچھ سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ پھر لالچ، خودغرضی اور بے حسی اس کی سوچ کو دبوچ لیتی ہیں، اس لیے اسے اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ذہن میں رہے اس ذہنی دھند کا شکار ملک میں صرف حکمران ہی نہیں ہیں بلکہ ہمارے بیوروکریٹس، مذہبی رہنما، ملا، جاگیردار، سرمایہ دار، سب کے سب اس کی ہی لپیٹ میں ہیں۔ اس ذہنی دھند کی وجہ سے سارا ملک انتشار کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ ایک دو اداروں کو چھوڑ کر باقی ہر ادارے میں خاک اڑتی پھر رہی ہے، ہر جگہ مکمل افراتفری اور نفسانفسی نے قبضہ کرلیا ہے۔
جے ایس ناکس نے کہا تھا ''امریکا کا عظیم صحرا آیڈاہو نیو میکسیکو یا ایریزونا میں واقع نہیں، یہ تو ہر متوسط امریکی کے ہیٹ کے نیچے ہے، عظیم امریکی صحرا کوئی حقیقی صحرا ہونے کے بجائے ذہنی صحرا ہے''۔ اگر یہ ہی بات ہمارے لیے بھی کہی جائے تو آپ بتائیں کیا غلط ہوگا؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلا کر اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ کیا انھوں نے خطے اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر یں رکھی ہیں؟ کیا وہ ہر متوقع یا غیر متوقع صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا انھیں یہ بھی علم ہے کہ ملک ناگزیر ہوتے ہیں، شخصیات نہیں۔ کیا ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں؟ کیا وہ دوراندیش اور انتہائی سمجھ دار ہیں؟ کیا ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ کیا وہ اپنے فرائض سے واقف ہیں؟ کیا وہ انھیں خوش اسلوبی سے پورا کررہے ہیں؟
اگر ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے آپ سے کہا جائے تو یقیناً آپ کے پاس مکمل خاموشی کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں ہوگا۔ ہم سب کی بقا اسی میں ہے کہ ان کی ذہنی دھند کو مٹانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔اگر آپ کبھی واشنگٹن میں کانگریس کی لائبریری میں جائیں تو آپ کو چھت پر انگریزی شاعر پوپ کے پانچ الفاظ منقوش نظر آئیں گے ''ترتیب کائنات کا پہلا اصول ہے'' اس لیے ملک کو چلانے کے لیے پہلا اصول ترتیب ہی ہوتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چارلس ایونز ہیواز کے الفاظ میں ''زیادہ کام کرنے سے اتنے لوگ نہیں مرتے، جتنے انتشار، پراگندگی، پریشانی اور بے ترتیبی سے مرتے ہیں''۔
ہاں اپنی پراگندہ قوتوں اور خیالوں کی وجہ سے کیونکہ انھیں کام کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے دو صلاحیتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے، اول: سوچنے کی صلاحیت، دوئم: کاموں کو ان کی اہمیت کی ترتیب سے کرنے کی صلاحیت۔ عظیم ماہر نفسیات ولیم جیمز لکھتا ہے ''جو کچھ ہم ہیں اور جو کچھ ہمیں ہونا چاہیے، اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم صرف نیم بیدار ہیں۔ ہم اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے بہت تھوڑے حصے کو استعمال کررہے ہیں، میں صاف الفاظ میں یہ کہوں گا کہ افراد اپنی حدود سے بہت دور رہتے ہیں، وہ مختلف قسم کی قوتوں کے مالک ہیں، جنھیں استعمال کرنے میں وہ ناکام رہتے ہیں''۔
یہ ہی بات ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان پر بھی لاگو ہوتی ہے جو شدید ذہنی دھند کے مالک ہیں، وہ سب کے سب نیم بیدار ہیں، ہر چیز سے لاتعلق، لاعلم، انسانیت سے کوسوں دور، اپنے آپ میں مگن، وہ گوشت پوشت کے ڈھیر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اب ہمارے پاس سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اس ذہنی دھند کے خاتمے کا آغاز کیسے ہوگا اور کون کرے گا۔ اس معاملے میں تو ہم خود ذہنی دھند کا شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیں عظیم شاعر رابرٹ سروس کی ایک نظم کا مندرجہ ذیل اقتباس یاد رکھنا چاہیے ''جب آپ جنگل میں راستہ بھول چکے ہوں اور ایک بچے کی طرح خوفزدہ ہوں، جب آپ کو ہر طرف موت نظر آتی ہو تو ایسی حالت میں پستول نکال کر مرنے مارنے پر تیار نہ ہوجائیں۔
جہاں تک ممکن ہو زندگی کے مصائب کا مقابلہ کریں، اگر زندگی نے آپ سے اچھا سلوک نہیں کیا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ جوان ہیں، آپ کی رگوں میں خون موجیں مار رہا ہے، ہمت اور استقلال سے کام لیں۔ شکست کا رونا رو کر مر جانا بڑا آسان کام ہے، مگر ناکامی اور ناامیدی کا مقابلہ دل سے کرنا انسان کا شعار ہے، مرنا آسان ہے مگر مر مر کر جینا مشکل ہے، لیکن زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا''۔ یاد رکھیں نپولین، والنگٹن، لی، گرانٹ، فوچ، ہر بڑے فوجی جرنیل نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ جو فوج جیتنے کا تہیہ کرچکی ہے، جس فوج کو اپنی قابلیت پر ناز ہے۔
اسے فتح کے لیے کوئی اور چیز درکار نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اپنی جنگی کشتی کو چارلٹن کی بندرگاہ میں نہ لے جانے سے متعلق ایڈمرل ڈوپاں نے نصف درجن کے قریب دلائل دیے تھے، ایڈمرل فاراگٹ اس کی باتیں بغور سننے کے بعد کہنے لگا ''ایک وجہ تو آپ نے بیان ہی نہیں کی'' ''وہ کون سی ہے؟'' ایڈمرل ڈوپاں نے سوال کیا، اس نے جواب دیا ''آپ کو خود پر یقین نہ تھا کہ آپ ایسا کرسکیں گے''۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال اب ضرور کرنا چاہیے کہ کیا حادثہ ہی ہمارا نصیب ہے، یا پھر ترقی، آزادی، خوشحالی اور مسرتیں ہمارا بھی مقدر ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ پلٹ کر یہ سوال کریں گے ''کیسے؟'' تو یاد رکھیں اس کا جواب ہر بڑے فوجی جرنیل پہلے ہی دے چکے ہیں۔
ہم سب اس سے تو واقف ہی ہیں کہ دھند کیسے پیدا ہوتی ہے، آئیں یہ پتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذہنی دھند پیدا ہونے کے کیا اسباب ہیں۔ جب کسی انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ ناگزیر ہے اور اس جیسا کوئی دوسرا سمجھدار ہی نہیں، اور وہ جو چاہے جیسا چاہے کرے، اسے روکنے اور ٹوکنے والاکوئی نہیں، اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت حاصل ہے، تو پھر وہ شدید ذہنی دھند کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی سوچ صرف اپنی ذات کی حد تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔
کیونکہ اس دھند کی وجہ سے وہ اپنے علاوہ اور کچھ سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ پھر لالچ، خودغرضی اور بے حسی اس کی سوچ کو دبوچ لیتی ہیں، اس لیے اسے اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ذہن میں رہے اس ذہنی دھند کا شکار ملک میں صرف حکمران ہی نہیں ہیں بلکہ ہمارے بیوروکریٹس، مذہبی رہنما، ملا، جاگیردار، سرمایہ دار، سب کے سب اس کی ہی لپیٹ میں ہیں۔ اس ذہنی دھند کی وجہ سے سارا ملک انتشار کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ ایک دو اداروں کو چھوڑ کر باقی ہر ادارے میں خاک اڑتی پھر رہی ہے، ہر جگہ مکمل افراتفری اور نفسانفسی نے قبضہ کرلیا ہے۔
جے ایس ناکس نے کہا تھا ''امریکا کا عظیم صحرا آیڈاہو نیو میکسیکو یا ایریزونا میں واقع نہیں، یہ تو ہر متوسط امریکی کے ہیٹ کے نیچے ہے، عظیم امریکی صحرا کوئی حقیقی صحرا ہونے کے بجائے ذہنی صحرا ہے''۔ اگر یہ ہی بات ہمارے لیے بھی کہی جائے تو آپ بتائیں کیا غلط ہوگا؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلا کر اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟ کیا انھوں نے خطے اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر یں رکھی ہیں؟ کیا وہ ہر متوقع یا غیر متوقع صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا انھیں یہ بھی علم ہے کہ ملک ناگزیر ہوتے ہیں، شخصیات نہیں۔ کیا ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں؟ کیا وہ دوراندیش اور انتہائی سمجھ دار ہیں؟ کیا ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ کیا وہ اپنے فرائض سے واقف ہیں؟ کیا وہ انھیں خوش اسلوبی سے پورا کررہے ہیں؟
اگر ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے آپ سے کہا جائے تو یقیناً آپ کے پاس مکمل خاموشی کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں ہوگا۔ ہم سب کی بقا اسی میں ہے کہ ان کی ذہنی دھند کو مٹانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔اگر آپ کبھی واشنگٹن میں کانگریس کی لائبریری میں جائیں تو آپ کو چھت پر انگریزی شاعر پوپ کے پانچ الفاظ منقوش نظر آئیں گے ''ترتیب کائنات کا پہلا اصول ہے'' اس لیے ملک کو چلانے کے لیے پہلا اصول ترتیب ہی ہوتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چارلس ایونز ہیواز کے الفاظ میں ''زیادہ کام کرنے سے اتنے لوگ نہیں مرتے، جتنے انتشار، پراگندگی، پریشانی اور بے ترتیبی سے مرتے ہیں''۔
ہاں اپنی پراگندہ قوتوں اور خیالوں کی وجہ سے کیونکہ انھیں کام کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے دو صلاحیتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے، اول: سوچنے کی صلاحیت، دوئم: کاموں کو ان کی اہمیت کی ترتیب سے کرنے کی صلاحیت۔ عظیم ماہر نفسیات ولیم جیمز لکھتا ہے ''جو کچھ ہم ہیں اور جو کچھ ہمیں ہونا چاہیے، اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم صرف نیم بیدار ہیں۔ ہم اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے بہت تھوڑے حصے کو استعمال کررہے ہیں، میں صاف الفاظ میں یہ کہوں گا کہ افراد اپنی حدود سے بہت دور رہتے ہیں، وہ مختلف قسم کی قوتوں کے مالک ہیں، جنھیں استعمال کرنے میں وہ ناکام رہتے ہیں''۔
یہ ہی بات ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان پر بھی لاگو ہوتی ہے جو شدید ذہنی دھند کے مالک ہیں، وہ سب کے سب نیم بیدار ہیں، ہر چیز سے لاتعلق، لاعلم، انسانیت سے کوسوں دور، اپنے آپ میں مگن، وہ گوشت پوشت کے ڈھیر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اب ہمارے پاس سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اس ذہنی دھند کے خاتمے کا آغاز کیسے ہوگا اور کون کرے گا۔ اس معاملے میں تو ہم خود ذہنی دھند کا شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیں عظیم شاعر رابرٹ سروس کی ایک نظم کا مندرجہ ذیل اقتباس یاد رکھنا چاہیے ''جب آپ جنگل میں راستہ بھول چکے ہوں اور ایک بچے کی طرح خوفزدہ ہوں، جب آپ کو ہر طرف موت نظر آتی ہو تو ایسی حالت میں پستول نکال کر مرنے مارنے پر تیار نہ ہوجائیں۔
جہاں تک ممکن ہو زندگی کے مصائب کا مقابلہ کریں، اگر زندگی نے آپ سے اچھا سلوک نہیں کیا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ جوان ہیں، آپ کی رگوں میں خون موجیں مار رہا ہے، ہمت اور استقلال سے کام لیں۔ شکست کا رونا رو کر مر جانا بڑا آسان کام ہے، مگر ناکامی اور ناامیدی کا مقابلہ دل سے کرنا انسان کا شعار ہے، مرنا آسان ہے مگر مر مر کر جینا مشکل ہے، لیکن زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا''۔ یاد رکھیں نپولین، والنگٹن، لی، گرانٹ، فوچ، ہر بڑے فوجی جرنیل نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ جو فوج جیتنے کا تہیہ کرچکی ہے، جس فوج کو اپنی قابلیت پر ناز ہے۔
اسے فتح کے لیے کوئی اور چیز درکار نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اپنی جنگی کشتی کو چارلٹن کی بندرگاہ میں نہ لے جانے سے متعلق ایڈمرل ڈوپاں نے نصف درجن کے قریب دلائل دیے تھے، ایڈمرل فاراگٹ اس کی باتیں بغور سننے کے بعد کہنے لگا ''ایک وجہ تو آپ نے بیان ہی نہیں کی'' ''وہ کون سی ہے؟'' ایڈمرل ڈوپاں نے سوال کیا، اس نے جواب دیا ''آپ کو خود پر یقین نہ تھا کہ آپ ایسا کرسکیں گے''۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال اب ضرور کرنا چاہیے کہ کیا حادثہ ہی ہمارا نصیب ہے، یا پھر ترقی، آزادی، خوشحالی اور مسرتیں ہمارا بھی مقدر ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ پلٹ کر یہ سوال کریں گے ''کیسے؟'' تو یاد رکھیں اس کا جواب ہر بڑے فوجی جرنیل پہلے ہی دے چکے ہیں۔