قومی افق پر مایوسیوں کے سائے
اپوزیشن کی ساری جماعتیں حکمراں پارٹی مسلم لیگ (ن) کو اپنی آئینی و دستوری مدت پوری نہ کرنے دینے پر تلی ہوئی ہیں۔
ملک کے سیاسی، معاشی و اقتصادی حالات گزشتہ چھ ماہ میں جس طرح خراب اور دگرگوں ہوئے ہیں وہ سابقہ 9 سال میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت سارا ملک غیر یقینی اور مایوسی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں اگلے چند ماہ میں وطن عزیز میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے گی بھی یا نہیں۔ نگراں سیٹ اپ کون بنائے گا۔ 2013ء کے انتخابات کے وقت بھی قومی افق پر ایسی بدگمانی اور ناامیدی نہیں چھائی ہوئی تھی جتنی کہ آج چھائی ہوئی ہے۔
اس وقت انتقال اقتدار ایک پرامن اور پرسکون ماحول میں مروجہ قوانین کے مطابق احسن طریقے سے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل ہو رہا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے باہم مشوروں سے آئین اور دستور میں دیے گئے اصولوں کے مطابق ایک نگراں سیٹ اپ بنایا گیا، جس کے تحت پرامن الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور یوں اقتدار پیپلز پارٹی کے صدر کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کے حوالے کردیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو کرپشن کے تمام الزامات اور ناقص کارکردگی کے باوجود پانچ سال پورے کرنے دیے گئے اور آداب جمہوریت کا پورا خیال رکھتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میاں نواز شریف نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھایا۔ لیکن آج صورتحال بالکل ایسی نہیں ہے۔
اپوزیشن کی ساری جماعتیں حکمراں پارٹی مسلم لیگ (ن) کو اپنی آئینی و دستوری مدت پوری نہ کرنے دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ میاں نواز شریف کو قبل ازوقت معزول کر کے بھی ان کے ارمانوں کی تسلی اور تشفی نہیں ہوئی اور وہ اب ہر حال میں شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو بھی قبل ازوقت گھر بھیج دینا چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے اسلام آبادکے جلسے میں اپنے ان ارادوں کا برملا اظہار بھی کردیا ہے کہ وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ نئے انتخابات کروانے کے لیے نگراں سیٹ اپ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنایا جائے، ہم اسے اس سے پہلے ہی فارغ کردیں گے۔
کچھ ایسی ہی خواہشیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بھی ہیں اور وہ بھی مسلسل جلد انتخابات کی رٹ رلگائے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے نے ان کے اندر خود کو اس ملک کا وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کی خواہشوں اور حسرتوں کو اور بھی جلا بخش دی ہے اور وہ اب بلاتاخیر نئے انتخابات کے اپنے مطالبے کو لے کر اور بھی سرگرم ہوجائیں گے۔ ان کے اس مطالبے کی مکمل حمایت اور تائید کرنے والے شیخ رشید آج کل بڑے زور وشور کے ساتھ خان صاحب کو اس ملک کا وزیراعظم بنانے کا عہد اور عزم کیے ہوئے ہیں۔ نوازشریف کو نیچا دکھانے اور انھیں مکمل شکست و ریخت سے دوچار کردینے کی اپنی دس سالہ حسرتوں کی تسکین کے لیے وہ کم از کم ایک بار عمران خان کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر وزیراعظم ہاؤس ضرور پہنچانا چاہتے ہیں، اور جس کے لیے وہ یہ دعویٰ بھی کر بیٹھے ہیں کہ اگر میں یہ کام نہ کرسکوں تو میرا نام بدل دینا۔
اس ساری کشمکش اور سیاسی چپقلش میں یہ ملک کتنا تباہ و برباد ہورہا ہے اس کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ معاشی و اقتصادی حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ بجٹ خسارہ بے قابو ہوچکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جس کی کامیابی کے ہم ابھی تھوڑے دن پہلے شادیانے بجارہے تھے اچانک زوال پذیر ہونے لگی ہے۔ ڈالر کا ریٹ بھی حکمرانوں کی گرفت سے باہر نکلے جارہا ہے۔ ملک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں اور انتہاپسند گروپس سر اٹھانے لگے ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے اپنے مطالبے منوانے کے لیے سڑکیں، شاہراہیں اور چوک بند کردیتا ہے، ملک میں دھرنوں کا رواج پڑ چکا ہے۔ حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ جن اداروں کے ذریعے حکومت اپنی رٹ قائم کیا کرتی ہے، وہی ادارے جب حکم کی تعمیل کے بجائے یہ کہیں کہ ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے تو بھلا اب پیچھے کیا باقی رہ جاتا ہے؟ صرف انارکی اور طوائف الملوکی۔
ہمارے لیے یہ ساری صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ چھ ماہ پہلے تک ہم ان حالات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ اچانک چند ماہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ وہ قوم جو سی پیک کے حوالے سے ایک مستحکم معیشت کے خواب دیکھ رہی تھی، آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نکل رہی تھی، ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنارہی تھی، لوڈ شیڈنگ سے نجات کی راہیں تلاش کررہی تھی، اسے ایک بار پھر عدم استحکام اور بے یقینی کے دلدل میں پھینک دیا گیا ہے۔ آج مسلم لیگ حکومت کی کوششوں سے بجلی اور توانائی کے شعبوں میں خاطر خواہ کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور لوڈشیڈنگ میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
ایل این جی کی درآمد کے باعث اس برس سردیوں میں گیس کی وہ قلت بھی نہیں دیکھی جارہی جو ہر سال پنجاب کے لوگوں کا مقدر ہوا کرتی تھی۔ سی این جی اسٹیشنوں کے باہر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی ماضی کاحصہ بن چکی ہیں۔ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ، کراچی اور بلوچستان میں امن و امان قائم کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھے۔ ان سے پہلے کی حکومتوں سے یہ کام کیوں نہ ہو پائے۔ وہ صرف حالات کی ستم ظریفی کا رونا روتی رہیں۔ بلدیاتی الیکشن اور سارے ملک میں اٹھارہ سال بعد مردم شماری کا انعقاد بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت نے یہ دونوں کام اپنے اس چار سالہ دور میں کر دکھائے۔ چھ ماہ پہلے تک اس ملک میں سب کچھ اچھا اور نارمل چل رہا تھا۔ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ لوگ اس ملک کے روشن مستقبل کے حوالے سے مطمئن اور پرامید تھے۔
لیکن افسوس کہ یہ ساری کامیابیاں خود حکمرانوں کے اپنے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث بن گئیں۔ 2018ء میں اس کی متوقع کامیابی کے امکانات نے ان قوتوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، جو نہیں چاہتیں کہ یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اس قدر مقبول و معروف ہوجائے کہ پھر اسے قابو کرنا بعد ازاں مشکل ہوجائے۔ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والوں کو شاید اتنی جلدی تھی کہ وہ انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے 2018ء کے الیکشن تک انتظار نہیں کرسکتے تھے۔ جب پاناما کیس میں وہ کچھ نہ کرسکے تو دبئی کے اقامہ کو بنیاد بناکر انھیں قبل ازوقت گھر بھیج دیا گیا۔
جس حدیبیہ کیس کے مردے میں جان ڈال کر وہ اپنے اس فیصلے کو قانونی جواز بخشنا چاہتے تھے آج عدالت عظمیٰ کے دوسرے ججوں کے ہاتھوں اس مردے کی دوبارہ تدفین بھی ہوچکی۔ لگتا ہے انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہماری ان حرکتوں سے اس ملک اور قوم کی کس قدر بربادی اور تباہی ہورہی ہے۔ ہم دانستہ و غیر دانستہ طور پر ان غیر ملکی سازشوں کے آلہ کار بنتے جارہے ہیں جو اس ملک میں عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنے کی خواہاں ہوا کرتی ہیں۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے دشمنوں کو ہمارا ترقی کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ سی پیک کے بھی اتنے ہی بڑے دشمن ہیں جتنے وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے۔ وہ قطعاً نہیں چاہتے کہ ہم مفلسی اور دریوزہ گری سے نکل کر خودمختار اور خوشحال قوم کی مانند سر اٹھا کر جئیں۔ وہ ہمارا سی پیک کا منصوبہ تہس نہس کردینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں حالات اس قدر خراب اور ابتر کردیے جائیں کہ اس منصوبے کو سرمایہ فراہم کرنے والا ملک چین از خود اس منصوبے سے دستبردار ہوجائے اور وہ اس قوم سے کہے کہ بھائی ہمیں بخش دو، ہم سے غلطی ہوگئی۔ ہم نے اس قوم کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا اشتیاق ہی نہیں۔ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اتنے بے بس اور لاچار ہوں اور انارکی پھیلانے والے مکمل بے خوف اور آزاد ہوں تو وہاں بھلا کون سا ملک سرمایہ کاری کرے گا؟
اس وقت انتقال اقتدار ایک پرامن اور پرسکون ماحول میں مروجہ قوانین کے مطابق احسن طریقے سے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل ہو رہا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے باہم مشوروں سے آئین اور دستور میں دیے گئے اصولوں کے مطابق ایک نگراں سیٹ اپ بنایا گیا، جس کے تحت پرامن الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور یوں اقتدار پیپلز پارٹی کے صدر کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کے حوالے کردیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو کرپشن کے تمام الزامات اور ناقص کارکردگی کے باوجود پانچ سال پورے کرنے دیے گئے اور آداب جمہوریت کا پورا خیال رکھتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میاں نواز شریف نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھایا۔ لیکن آج صورتحال بالکل ایسی نہیں ہے۔
اپوزیشن کی ساری جماعتیں حکمراں پارٹی مسلم لیگ (ن) کو اپنی آئینی و دستوری مدت پوری نہ کرنے دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ میاں نواز شریف کو قبل ازوقت معزول کر کے بھی ان کے ارمانوں کی تسلی اور تشفی نہیں ہوئی اور وہ اب ہر حال میں شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو بھی قبل ازوقت گھر بھیج دینا چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے اسلام آبادکے جلسے میں اپنے ان ارادوں کا برملا اظہار بھی کردیا ہے کہ وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ نئے انتخابات کروانے کے لیے نگراں سیٹ اپ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنایا جائے، ہم اسے اس سے پہلے ہی فارغ کردیں گے۔
کچھ ایسی ہی خواہشیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بھی ہیں اور وہ بھی مسلسل جلد انتخابات کی رٹ رلگائے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے نے ان کے اندر خود کو اس ملک کا وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کی خواہشوں اور حسرتوں کو اور بھی جلا بخش دی ہے اور وہ اب بلاتاخیر نئے انتخابات کے اپنے مطالبے کو لے کر اور بھی سرگرم ہوجائیں گے۔ ان کے اس مطالبے کی مکمل حمایت اور تائید کرنے والے شیخ رشید آج کل بڑے زور وشور کے ساتھ خان صاحب کو اس ملک کا وزیراعظم بنانے کا عہد اور عزم کیے ہوئے ہیں۔ نوازشریف کو نیچا دکھانے اور انھیں مکمل شکست و ریخت سے دوچار کردینے کی اپنی دس سالہ حسرتوں کی تسکین کے لیے وہ کم از کم ایک بار عمران خان کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر وزیراعظم ہاؤس ضرور پہنچانا چاہتے ہیں، اور جس کے لیے وہ یہ دعویٰ بھی کر بیٹھے ہیں کہ اگر میں یہ کام نہ کرسکوں تو میرا نام بدل دینا۔
اس ساری کشمکش اور سیاسی چپقلش میں یہ ملک کتنا تباہ و برباد ہورہا ہے اس کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ معاشی و اقتصادی حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ بجٹ خسارہ بے قابو ہوچکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جس کی کامیابی کے ہم ابھی تھوڑے دن پہلے شادیانے بجارہے تھے اچانک زوال پذیر ہونے لگی ہے۔ ڈالر کا ریٹ بھی حکمرانوں کی گرفت سے باہر نکلے جارہا ہے۔ ملک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں اور انتہاپسند گروپس سر اٹھانے لگے ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے اپنے مطالبے منوانے کے لیے سڑکیں، شاہراہیں اور چوک بند کردیتا ہے، ملک میں دھرنوں کا رواج پڑ چکا ہے۔ حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ جن اداروں کے ذریعے حکومت اپنی رٹ قائم کیا کرتی ہے، وہی ادارے جب حکم کی تعمیل کے بجائے یہ کہیں کہ ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے تو بھلا اب پیچھے کیا باقی رہ جاتا ہے؟ صرف انارکی اور طوائف الملوکی۔
ہمارے لیے یہ ساری صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ چھ ماہ پہلے تک ہم ان حالات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ اچانک چند ماہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ وہ قوم جو سی پیک کے حوالے سے ایک مستحکم معیشت کے خواب دیکھ رہی تھی، آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نکل رہی تھی، ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنارہی تھی، لوڈ شیڈنگ سے نجات کی راہیں تلاش کررہی تھی، اسے ایک بار پھر عدم استحکام اور بے یقینی کے دلدل میں پھینک دیا گیا ہے۔ آج مسلم لیگ حکومت کی کوششوں سے بجلی اور توانائی کے شعبوں میں خاطر خواہ کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور لوڈشیڈنگ میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
ایل این جی کی درآمد کے باعث اس برس سردیوں میں گیس کی وہ قلت بھی نہیں دیکھی جارہی جو ہر سال پنجاب کے لوگوں کا مقدر ہوا کرتی تھی۔ سی این جی اسٹیشنوں کے باہر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی ماضی کاحصہ بن چکی ہیں۔ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ، کراچی اور بلوچستان میں امن و امان قائم کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھے۔ ان سے پہلے کی حکومتوں سے یہ کام کیوں نہ ہو پائے۔ وہ صرف حالات کی ستم ظریفی کا رونا روتی رہیں۔ بلدیاتی الیکشن اور سارے ملک میں اٹھارہ سال بعد مردم شماری کا انعقاد بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت نے یہ دونوں کام اپنے اس چار سالہ دور میں کر دکھائے۔ چھ ماہ پہلے تک اس ملک میں سب کچھ اچھا اور نارمل چل رہا تھا۔ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ لوگ اس ملک کے روشن مستقبل کے حوالے سے مطمئن اور پرامید تھے۔
لیکن افسوس کہ یہ ساری کامیابیاں خود حکمرانوں کے اپنے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث بن گئیں۔ 2018ء میں اس کی متوقع کامیابی کے امکانات نے ان قوتوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، جو نہیں چاہتیں کہ یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اس قدر مقبول و معروف ہوجائے کہ پھر اسے قابو کرنا بعد ازاں مشکل ہوجائے۔ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والوں کو شاید اتنی جلدی تھی کہ وہ انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے 2018ء کے الیکشن تک انتظار نہیں کرسکتے تھے۔ جب پاناما کیس میں وہ کچھ نہ کرسکے تو دبئی کے اقامہ کو بنیاد بناکر انھیں قبل ازوقت گھر بھیج دیا گیا۔
جس حدیبیہ کیس کے مردے میں جان ڈال کر وہ اپنے اس فیصلے کو قانونی جواز بخشنا چاہتے تھے آج عدالت عظمیٰ کے دوسرے ججوں کے ہاتھوں اس مردے کی دوبارہ تدفین بھی ہوچکی۔ لگتا ہے انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہماری ان حرکتوں سے اس ملک اور قوم کی کس قدر بربادی اور تباہی ہورہی ہے۔ ہم دانستہ و غیر دانستہ طور پر ان غیر ملکی سازشوں کے آلہ کار بنتے جارہے ہیں جو اس ملک میں عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنے کی خواہاں ہوا کرتی ہیں۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے دشمنوں کو ہمارا ترقی کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ سی پیک کے بھی اتنے ہی بڑے دشمن ہیں جتنے وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے۔ وہ قطعاً نہیں چاہتے کہ ہم مفلسی اور دریوزہ گری سے نکل کر خودمختار اور خوشحال قوم کی مانند سر اٹھا کر جئیں۔ وہ ہمارا سی پیک کا منصوبہ تہس نہس کردینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں حالات اس قدر خراب اور ابتر کردیے جائیں کہ اس منصوبے کو سرمایہ فراہم کرنے والا ملک چین از خود اس منصوبے سے دستبردار ہوجائے اور وہ اس قوم سے کہے کہ بھائی ہمیں بخش دو، ہم سے غلطی ہوگئی۔ ہم نے اس قوم کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا اشتیاق ہی نہیں۔ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اتنے بے بس اور لاچار ہوں اور انارکی پھیلانے والے مکمل بے خوف اور آزاد ہوں تو وہاں بھلا کون سا ملک سرمایہ کاری کرے گا؟