زیر لب آخری حصہ
یہ صفیہ اختر کا آخری خط تھا۔ اٹھارہ دن بعد 17 جنوری کو وہ ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔
7 اگست کو صفیہ اسپتال سے گھر آگئیں۔ کوئی ایک ڈاکٹر عبدالحمید تھے، انھیں دکھایا۔ انھوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور یہ لکھنو سے بھوپال واپس آگئیں۔ اختر کو لکھا۔ ''اپنے موجودہ حالات میں ملازمت کی جانب سے تغافل کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش نہیں۔ علاج وہاں بھوپال میں جاری رکھوں گی، البتہ کالج جوائن کرنا ضروری ہے۔ وقت برا ہے۔ یہ روٹی کا ٹھکانا نہیں کھونا چاہیے۔''
10 ستمبر 1951 کے خط میں اختر کو لکھتی ہیں ''کل پرانے کاغذات کی دیکھ بھال میں وہ خط نظر سے گزرے جو شادی کے پہلے سال میں نے تمہیں لکھے ہوں گے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ میں نے ہی لکھے تھے۔ کیسے کیسے رنگین شکوے اور کیسی کیسی دلچسپ توقعات۔ آج ہم دونوں دوستی کا دعویٰ کرسکتے ہیں جس کی ابتدا 44ء کے رومانس سے ہوئی تھی، لیکن اختر! تم بعض وقت اس پکی دوستی کو بھی لحظہ بھر میں شکست آشنا کردیتے ہو۔''
صفیہ ہفتے میں دو تین خط ضرور لکھتی تھیں لیکن اختر کی طرف سے جواب ایسی پابندی سے نہیں آتے تھے۔ صفیہ کے خط کبھی اخترم، کبھی مرے اختر، کبھی اختر میری عزیزجاں، کبھی میرے اپنے اختر سے شروع ہوتے اور تمہاری اپنی صفیہ اور تمہاری صفو پر ختم ہوتے۔ صفیہ کے ہر دوسرے تیسرے خط میں کبھی یہ ہوتا ''مجھے چند سطریں لکھ کر پریشانی سے نجات دو۔'' کبھی یہ ''تمہاری خاموشی سے نہ جانے کیا کیا وہم آنے لگتے ہیں'' کبھی یہ ''آج کی ڈاک سے بھی تمہارا کوئی خط نہیں آیا'' اور کبھی یہ ''تمہارے خط کا ہنوز انتظار ہے۔''
اکتوبر کے آخری ہفتے میں صفیہ لکھنو چلی گئیں۔ اختر چاہتے تھے کہ وہ بمبئی آئیں۔ صفیہ نے اس کے جواب میں اختر کو لکھا۔ ''تم میری حالت کو سمجھ نہیں سکتے۔ مجھے اٹھ کر بیٹھنے اور بیٹھ کر اٹھنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ میرا عزم اور حوصلہ ہے کہ میں سارا جنجال گھسیٹ رہی ہوں۔'' صفیہ نے اختر کو لکھا کہ وہ کچھ دن کے لیے لکھنو آجائیں۔ جب یہ نہ ہوا تو صفیہ نومبر کے شروع میں بھوپال واپس آگئیں اور اختر کو لکھا کہ وہ پندرہ دن کے لیے بھوپال آکر ان سے مل جائیں۔ اختر نومبر کے دوسرے ہفتے میں بھوپال آئے۔ صفیہ ان کے بمبئی واپس جانے کے بعد اپنے 6 دسمبر 51ء کے خط میں لکھتی ہیں ''گھر پھر ایک بار سونا ہوگیا اور میری زندگی پھر سراپا ویران ہوگئی۔''
1952 صفیہ اختر کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اس سال کا پہلا خط 9 جنوری کا اور دوسرا 14 کا ہے۔ صفیہ لکھتی ہیں ''تمہارے کئی خط اکٹھے ملے۔ تمہارے جگر کی تکلیف سے اب تو سنجیدہ قسم کی فکر پیدا ہے۔ کیا ہوناہے آخر؟ تم شروع میں پرہیز نہیں کرتے اور بعد میں علاج سے تغافل برتتے ہو۔ انقلاب پسندی موت سے رغبت نہیں دلاتی، زندگی کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔''
فروری میں اختر بھوپال آئے۔ صفیہ کو شکایت رہی کہ انھوں نے زیادہ وقت بھوپال کے دوستوں میں گزارا۔ انھیں محسوس ہی نہ ہوا کہ اختر آئے ہیں۔ 20 مارچ کے خط میں لکھتی ہیں ''تم مجھے کیونکر ملو گے؟ میری زندگی کا یہ روکھا پھیکا پن کیسے ختم ہوگا۔ تم زندہ دل اور خوش رہو۔ اس سے میری زندگی بڑھتی ہے۔ کوئی بات نہیں۔ آؤ اب صوفیائے کرام کی طرح عشق حقیقی کی منزل طے کرنے کی کوشش کر ڈالی جائے۔ دوری کا احساس شاید یوں ہی مٹ سکے، دوست!'' 28 مارچ کو صفیہ کے اختر کے نام خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت بہتری کی طرف مائل ہے۔
اس خط میں کچھ ادب اور تنقید کی باتیں ہیں، اپنے مطالعے اور لکھنے لکھانے کا ذکر ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ شاعر سے زیادہ اچھے افسانہ نگار ہیں اور اگر وہ افسانہ نگاری پر زیادہ زور دیں تو پاکستان کے کرشن چندر بن سکتے ہیں۔اپریل کے آخر میں صفیہ لکھنو جانے سے پہلے ایک خط میں جاں نثار اختر کو لکھتی ہیں ''تم جانتے ہو لکھنو میرا میکا ہے۔ وہاں پہنچ کر میری نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہاں جب تم مجھے بہت دن تک خط نہیں لکھتے تو لوگ تمہارے شاعرانہ تغافل کو کیا سمجھیں۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ میرے شوہر کو میری فکر نہیں، اس لیے مجھے تم ضرور خط لکھتے رہنا۔''
لکھنو میں ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ ایک خط میں لکھتی ہیں ''دوائیں پی رہی ہوں، گھر کی سہولتیں میسر ہونے سے تکلیفوں میں سکون بھی ہے۔ ویسے ذہنی افکار تو انسان کو ہر طرح پست کر ہی دیتے ہیں۔'' 21 مئی کو لکھتی ہیں ''اچھے اختر! تمہارے خط ملتے رہے۔ اتنے دنوں ڈاکٹر کا علاج چلاتے رہنے کے بعد آج ابا کے ساتھ جاکر ایک حکیم کو دکھایا ہے۔ اب کل سے ان کی دوا شروع کروں گی۔'' 2 جون کا ایک خط الہامی سا معلوم ہوتا ہے۔
جاں نثار اختر کی شاعری کا مجموعہ زیر ترتیب تھا اس کا ذکر ہے۔ لکھتی ہیں ''تم نے اپنی رومانی نظموں کے پس منظر کے بارے میں مجھے لکھنے کا موقع دیا ہے۔ اس نوازش اور کرم کا لطف کچھ مجھ ہی کو محسوس ہوسکتا ہے دوست! لیکن اس قسم کی چیز تو شاعر کے گزر جانے کے بعد زیادہ دلچسپ اور دلکش بنتی ہے اور یہ طے ہے کہ مجھے تم سے پہلے مرنا ہے، لہٰذا اس کی نوبت نہ آسکے گی۔ بہرحال تمہاری رومانی شاعری یا رومانی زندگی کے لیے میری طرف سے یہ مصرعہ ہی کافی ہے۔ ''تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر''
جون گزرا، جولائی کا مہینہ بھی گزر گیا۔ صفیہ اختر کی بیماری بڑھتی رہی۔ وہ کوشش کرتی تھیں کہ جاں نثار اختر کو اپنی اصل کیفیت سے آگاہ نہ کریں کہ وہ پریشان ہوں۔ ان کے اختر کے نام خطوط مختصر ہوتے گئے۔ اگست میں ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کا علاج شروع کیا۔ لکھتی ہیں ''اس کی گولیوں پر گزر ہے۔ لیٹے لیٹے یہ خط لکھ رہی ہوں۔ بس یوں ہی سستی اور کیا''۔ بیماری نے بستر پر ڈال دیا تھا۔
ستمبر میں خلیق ابراہیم حکیم سعید کو لے کر آئے اور ان کا علاج شروع ہوا۔ 6 تاریخ کے خط سے ان کی جسمانی اور دلی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ لکھتی ہیں ''جس انداز سے تم بعض لمحے مجھے پیار کرتے ہو، وہ مجھے سہما دینے کے لیے کافی ہوتا ہے، ساتھی! میرے جسم میں تمہارے لیے کون سی ایسی انوکھی لذت رکھی ہے جس کے تم شیدائی بن سکو۔ اور آج تو میں ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ البتہ میرا پیار، میری وفا اور میری قدر شناسی اگر تم کو کچھ ذہنی تشفی دے سکتی ہے تو یقین رکھو اس سے تم میرے مرتے دم تک محروم نہ رہوگے۔ میں دوبارہ زندہ ہوکر تمہاری خدمت اور آرام کا ذریعہ بننا چاہتی ہوں۔ آؤ میرے سینے سے لگ جاؤ۔''
20 اکتوبر کو اپنے خط میں لکھتی ہیں ''آج پانچ ہفتے ہوگئے ہیں، ایک لمحے کے لیے میرا بخار نہیں اترا۔'' 3 نومبر کو لکھتی ہیں ''اختر عزیز! تم نے بمبئی بلایا ہے لیکن میری حالت سفر کی نہیں۔ تم آسکو تو آجاؤ۔ میں چارپائی سے لگ گئی ہوں۔'' 27 نومبر کو لکھتی ہیں ''اختر! تم ایک بار خود کو مجھے دکھا جاؤ۔'' 23 دسمبر کو لکھتی ہیں ''دسمبر کا مہینہ تمہارے انتظار ہی میں بیت گیا۔ دو دن بعد ہماری شادی کی نویں سالگرہ ہونے والی ہے۔ اختر! مجھے تمہارے پیار کا تحفہ درکار ہے۔ کیا تم میری آشا پوری نہیں کروگے؟''
29 دسمبر 1952 کو لکھتی ہیں ''اختر! آؤ۔۔۔مجھے مرنے نہ دو۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔ البتہ میں تھک گئی ہوں ساتھی! آؤ میں تمہارے زانو پر سر رکھ کر ایک طویل نیند لے لوں، پھر تمہارا ساتھ دینے کے لیے ضرور اٹھ کھڑی ہوں گی۔ میرے بے شمار پیار تم پر نچھاور ہیں۔''
یہ صفیہ اختر کا آخری خط تھا۔ اٹھارہ دن بعد 17 جنوری کو وہ ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔ جاں نثار اختر کے پاس کہنے کو اب اس کے سوا کیا تھا:
تجھ کو روؤں تو کیا روؤں کہ ان آنکھوں میں
اشک پتھر کی طرح جم سے گئے ہیں میرے