مہاجرت کا یخ بستہ موسم
18 دسمبر کو مہاجرین کا عالمی دن منایاجاتا ہے اوردسمبر میں سرد موسم کے ہاتھوں مہاجرت کا عذاب کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں سائنسی ترقی کی سب سے خوف ناک ایجاد کیمرا ہے، جس کی آنکھ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے ہر گوشے سے تصاویر آن کی آن میں سفر کرتی ہوئی ہم تک پہنچ جاتی ہیں۔ میرے سامنے بھی ایک ایسی ہی تصویر ہے جو بنا کسی کیپشن کے سارے الم رو رہی ہے۔ افریقا سے پناہ کی تلاش میں سمندر کا سفر کرنے والے مہاجرین کی ڈوبی ہوئی کشتی اور اس سے بچ جانے والی ایک سیاہ فام ماں اور اس کی گود میں سردی سے کانپتا ہوا معصوم بچہ۔ دونوں کے چہرے بے بسی اور ٹھنڈ سے سفید پڑچکے ہیں۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جانے کون سا نوحہ رو رہے ہیں۔
ان کے پاس تو رونے کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر باقی دنیا کے پاس ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ موسم سرما کے ٹھنڈے جھونکے ہمارے لیے خوش گوار ہیں، ہونے بھی چاہئیں، کیونکہ ہمارے پاس موسم کی سختی سے نمٹنے کے مکمل اسباب موجود ہیں، ہمارے بچے گرم کمروں میں محفوظ ہیں، لیکن کیا ہم نے کمبل لپیٹ کر خشک میووں سے لطف اندوز ہوتے سمے، ان مہاجرین کے دکھوں کا بھی سوچا، جو بے وطن، بے آسرا، بے گھر کھلے آسمان تلے سردیوں کے دن اور راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ موسم سرما ہمارے لیے خواہ کتنے ہی رومانوی معنی کیوں نہ رکھتا ہو، سچ تو یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
18 دسمبر کو مہاجرین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دسمبر ہی وہ مہینہ ہے جب سرد موسم کے ہاتھوں مہاجرت کا عذاب کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کا آج کون سا کونا ایسا ہے جہاں مہاجرین ریاستوں کا ظرف آزمانے کو موجود نہیں! یونان کا موریا مہاجر کیمپ، فرانس کا کیمپ ڈی لا لائینر، یوگنڈا کا بڈی بڈی مہاجر کیمپ، شام، عراق، ترکی، لبنان، عمان اور مصر میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپ، کینیا کا کاکوما اور ایفو مہاجر کیمپ، عمان کا زاتاری، جنوبی سوڈان کا ایدا مہاجر کیمپ، تنزانیہ کا کاکٹومبا ریفیوجی کیمپ اور ان کے علاوہ زمین کے سینے پر موجود لاتعداد کیمپوں میں مہاجرین کا الم سرد موسم نے ان کی برداشت سے زیادہ تلخ کردیا ہے۔
سب سے زیادہ قابل رحم حالات یونان کے موریا مہاجر کیمپ کے ہیں۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ ان کو یہاں پناہ کے لیے لایا گیا ہے، مگر خدا جانتا ہے کہ مدد کے نام پر ان سے کیوں ایسا سلوک کیا جارہا ہے؟ موسم سرما کی لہو جماتی ہوائیں ان کی روحوں کو چھلنی کر رہی ہیں۔ اوپر سے ہونے والی بارشیں زخموں پر مزید نمک پاشی بھی کر رہی ہیں۔ مناسب لباس اور رہائش سے محروم کرکے مہاجرین اور ان کے معصوم بچوں کو گویا نیزوں پر رقص کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
گزشتہ برس موسم سرما میں پانچ ہزار مہاجرین سرد ہواؤں کا گرم نوالہ بن کر جاں بحق ہوئے، اور اب بھی ان کا حال کچھ مختلف نہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان کیمپوں میں بیت الخلا اور نہانے کی جگہوں کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث مہاجرین سخت ٹھنڈے موسم میں کھلی جگہیں استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کچرے اور گندگی کے ڈھیر، استعمال شدہ ٹوائلٹ پیپرز، پیشاب سے بھری ہوئی بوتلیں، گندے ڈائپر اور جابجا پھیلا انسانی فضلہ پہلے ہی ان مہاجرین کی صحت اور زندگیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جس سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا وقت کا ضیاع جان کر ریاستیں چین کی بنسی بجا رہی ہیں۔
اب سرد ہوائیں اور موسلا دھار بارشیں ان مہاجرین کے لیے کیمپوں کی زندگی کو مزید خوفناک بنارہی ہیں۔ شیرخوار بچے نمونیہ اور دیگر امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں مگر عالمی سطح پر ان کے لیے امداد کا کوئی انتظام نہیں۔ بین الاقوامی امدادی کمیٹی کے علاقائی وکیل ایشلے لویت کے مطابق موسم سرما کی شدت کے اعتبار سے یہ مہاجر کیمپ رہائش کے لیے قطعی موزوں نہیں ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی کا یہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔
بنگلادیش کی طرف ہجرت کرکے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی طرف دیکھیں تو ان پر بیتا الم دلوں میں یاسیت کا ڈیرا ڈال لیتا ہے۔ بنگلادیشی ڈاکٹروں نے وارننگ جاری کی ہے کہ اگر سرد موسم سے نہیں بچایا گیا تو روہنگیا بچوں کی بڑی تعداد نمونیے سے جاں بحق ہوجائے گی۔ اسپتالوں کے ٹھنڈے ٹھار فرش ہی بیمار مہاجرین کا بستر ہیں۔ تن کو ڈھانپتے مکمل لباس سے محرومی روہنگیا بچوں کا مقدر ہے۔
ٹھنڈے موسم کا شکار ان بچوں کو اب شاید کسی معالج کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ اجل ان کے تمام امراض کی دوا ثابت ہورہی ہے۔ بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ کیمپوں میں ایک کمبل کو مل بانٹ کر استعمال کرنے پر مہاجرین مجبور ہیں۔ ناکافی سامان پر ہونے والے جھگڑے یہاں روز کا معمول ہیں۔ شام ہوتے ہی روہنگیا بچے آس پاس پھیلے چاول کے کھیتوں سے جھاڑجھنکار جمع کرنے نکل جاتے ہیں، جن سے آگ جلا کر مہاجرین کیمپوں کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیمپوں میں آگ جلانا انسانی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
کیمپوں کی تعمیر میں پلاسٹک اور لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا ذرا سی بے احتیاطی سے نقصان اندازے سے کہیں زیادہ ہوگا، لیکن اس کا تدارک کرے گا کون؟ کیا وہ لوگ جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمروں سے باہر نکل کے دنیا کا مکروہ چہرہ دیکھنے کو ہی تیار نہیں۔ اسی طرح شامی مہاجرین کے لیے بھی سرد موسم مسائل کی شدت میں بھیانک اضافہ کرچکا ہے۔ تقریباً 6.5 ملین لوگ شام کے اندر ہی بے گھر ہیں اور پانچ ملین سے زائد شام کی حدود سے پرے مہاجر کیمپوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے بحالی مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق شام، عراق، ترکی، مصر، لبنان اور عمان میں موجود چار ملین مہاجرین موسم سرما کی امداد کے منتظر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرد موسم سے سب سے زیادہ مشرق وسطی کے مہاجرین ہی متاثر ہورہے ہیں۔ گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ماحولیاتی درجۂ حرارت جیسے جیسے گرتا ہے مہاجرین کے لیے مشکلات کا گراف اتنا ہی تیزی سے اوپر جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سیاست کے اسرارورموز کو سمجھنے والا شخص اس حقیقت کو باآسانی تسلیم کرسکتا ہے کہ ان دونوں عوامل کو روکنا ہی بس سے باہر ہے۔ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں جارہی۔ یوں لگتا ہے کہ کئی نسلیں کیمپوں میں ہی پیدا ہوکر دفن ہوجائیں گی۔
فرانس کے شہر کیلائس کو مہاجرین کے وجود سے پاک کرنے کے لیے گزشتہ سال تمام کیمپوں کا صفایا کردیا گیا، اس کے باوجود بے گھر مہاجرین کیمپوں کے بِنا ہی شہر کی ''زینت'' بڑھا رہے ہیں۔ یہاں مہاجرین جنگل میں راتیں بسر کرتے ہیں۔ پولیس آئے دن ان کو پکڑ کر لے جاتی ہے اور ان کا برائے نام سامان بھی ضبط کرلیتی ہے، مگر ان مہاجرین کے پاس جینے کا کوئی متبادل راستہ ہی نہیں ہے۔ دیگر خطوں کی طرح سرد موسم اور بارشیں ان کے لیے سوہان روح بھی ہیں اور قاتل بھی۔ مہاجرین کی بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے۔ ساتھ ہی عراق، اریٹیریا، صومالیہ اور سوڈان کے باشندے بھی یہاں موجود ہیں۔
انتظامیہ ان مہاجرین کو سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیے بے چین ہے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ یہ مہاجرین اس امید پر ٹھنڈے موسم کے سامنے صف آرا ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے بحالی مہاجرین ان پر جلد نظر ڈالے گا اور ان کو برطانیہ میں جگہ فراہم کردی جائے گی۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ برطانیہ میں اس سے بھی کڑا وقت ان کا منتظر ہے۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا دل اور دامن باہر والوں کے لیے نہایت تنگ پڑچکا ہے۔ لیکن صرف برطانیہ کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے دنیا کے تمام ملکوں کا مہاجرین کی طرف سے مجموعی رویہ کم و بیش اتنا ہی سفاکانہ ہے۔ اس سفاکی کے باعث نہ جانے مزید کتنی دل میں پیوست ہوتی تصاویر ہم تک پہنچنا ابھی باقی ہیں۔
ان کے پاس تو رونے کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر باقی دنیا کے پاس ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ موسم سرما کے ٹھنڈے جھونکے ہمارے لیے خوش گوار ہیں، ہونے بھی چاہئیں، کیونکہ ہمارے پاس موسم کی سختی سے نمٹنے کے مکمل اسباب موجود ہیں، ہمارے بچے گرم کمروں میں محفوظ ہیں، لیکن کیا ہم نے کمبل لپیٹ کر خشک میووں سے لطف اندوز ہوتے سمے، ان مہاجرین کے دکھوں کا بھی سوچا، جو بے وطن، بے آسرا، بے گھر کھلے آسمان تلے سردیوں کے دن اور راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ موسم سرما ہمارے لیے خواہ کتنے ہی رومانوی معنی کیوں نہ رکھتا ہو، سچ تو یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
18 دسمبر کو مہاجرین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دسمبر ہی وہ مہینہ ہے جب سرد موسم کے ہاتھوں مہاجرت کا عذاب کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کا آج کون سا کونا ایسا ہے جہاں مہاجرین ریاستوں کا ظرف آزمانے کو موجود نہیں! یونان کا موریا مہاجر کیمپ، فرانس کا کیمپ ڈی لا لائینر، یوگنڈا کا بڈی بڈی مہاجر کیمپ، شام، عراق، ترکی، لبنان، عمان اور مصر میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپ، کینیا کا کاکوما اور ایفو مہاجر کیمپ، عمان کا زاتاری، جنوبی سوڈان کا ایدا مہاجر کیمپ، تنزانیہ کا کاکٹومبا ریفیوجی کیمپ اور ان کے علاوہ زمین کے سینے پر موجود لاتعداد کیمپوں میں مہاجرین کا الم سرد موسم نے ان کی برداشت سے زیادہ تلخ کردیا ہے۔
سب سے زیادہ قابل رحم حالات یونان کے موریا مہاجر کیمپ کے ہیں۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ ان کو یہاں پناہ کے لیے لایا گیا ہے، مگر خدا جانتا ہے کہ مدد کے نام پر ان سے کیوں ایسا سلوک کیا جارہا ہے؟ موسم سرما کی لہو جماتی ہوائیں ان کی روحوں کو چھلنی کر رہی ہیں۔ اوپر سے ہونے والی بارشیں زخموں پر مزید نمک پاشی بھی کر رہی ہیں۔ مناسب لباس اور رہائش سے محروم کرکے مہاجرین اور ان کے معصوم بچوں کو گویا نیزوں پر رقص کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
گزشتہ برس موسم سرما میں پانچ ہزار مہاجرین سرد ہواؤں کا گرم نوالہ بن کر جاں بحق ہوئے، اور اب بھی ان کا حال کچھ مختلف نہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان کیمپوں میں بیت الخلا اور نہانے کی جگہوں کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث مہاجرین سخت ٹھنڈے موسم میں کھلی جگہیں استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کچرے اور گندگی کے ڈھیر، استعمال شدہ ٹوائلٹ پیپرز، پیشاب سے بھری ہوئی بوتلیں، گندے ڈائپر اور جابجا پھیلا انسانی فضلہ پہلے ہی ان مہاجرین کی صحت اور زندگیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جس سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا وقت کا ضیاع جان کر ریاستیں چین کی بنسی بجا رہی ہیں۔
اب سرد ہوائیں اور موسلا دھار بارشیں ان مہاجرین کے لیے کیمپوں کی زندگی کو مزید خوفناک بنارہی ہیں۔ شیرخوار بچے نمونیہ اور دیگر امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں مگر عالمی سطح پر ان کے لیے امداد کا کوئی انتظام نہیں۔ بین الاقوامی امدادی کمیٹی کے علاقائی وکیل ایشلے لویت کے مطابق موسم سرما کی شدت کے اعتبار سے یہ مہاجر کیمپ رہائش کے لیے قطعی موزوں نہیں ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی کا یہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔
بنگلادیش کی طرف ہجرت کرکے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی طرف دیکھیں تو ان پر بیتا الم دلوں میں یاسیت کا ڈیرا ڈال لیتا ہے۔ بنگلادیشی ڈاکٹروں نے وارننگ جاری کی ہے کہ اگر سرد موسم سے نہیں بچایا گیا تو روہنگیا بچوں کی بڑی تعداد نمونیے سے جاں بحق ہوجائے گی۔ اسپتالوں کے ٹھنڈے ٹھار فرش ہی بیمار مہاجرین کا بستر ہیں۔ تن کو ڈھانپتے مکمل لباس سے محرومی روہنگیا بچوں کا مقدر ہے۔
ٹھنڈے موسم کا شکار ان بچوں کو اب شاید کسی معالج کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ اجل ان کے تمام امراض کی دوا ثابت ہورہی ہے۔ بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ کیمپوں میں ایک کمبل کو مل بانٹ کر استعمال کرنے پر مہاجرین مجبور ہیں۔ ناکافی سامان پر ہونے والے جھگڑے یہاں روز کا معمول ہیں۔ شام ہوتے ہی روہنگیا بچے آس پاس پھیلے چاول کے کھیتوں سے جھاڑجھنکار جمع کرنے نکل جاتے ہیں، جن سے آگ جلا کر مہاجرین کیمپوں کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیمپوں میں آگ جلانا انسانی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
کیمپوں کی تعمیر میں پلاسٹک اور لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا ذرا سی بے احتیاطی سے نقصان اندازے سے کہیں زیادہ ہوگا، لیکن اس کا تدارک کرے گا کون؟ کیا وہ لوگ جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمروں سے باہر نکل کے دنیا کا مکروہ چہرہ دیکھنے کو ہی تیار نہیں۔ اسی طرح شامی مہاجرین کے لیے بھی سرد موسم مسائل کی شدت میں بھیانک اضافہ کرچکا ہے۔ تقریباً 6.5 ملین لوگ شام کے اندر ہی بے گھر ہیں اور پانچ ملین سے زائد شام کی حدود سے پرے مہاجر کیمپوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے بحالی مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق شام، عراق، ترکی، مصر، لبنان اور عمان میں موجود چار ملین مہاجرین موسم سرما کی امداد کے منتظر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرد موسم سے سب سے زیادہ مشرق وسطی کے مہاجرین ہی متاثر ہورہے ہیں۔ گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ماحولیاتی درجۂ حرارت جیسے جیسے گرتا ہے مہاجرین کے لیے مشکلات کا گراف اتنا ہی تیزی سے اوپر جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سیاست کے اسرارورموز کو سمجھنے والا شخص اس حقیقت کو باآسانی تسلیم کرسکتا ہے کہ ان دونوں عوامل کو روکنا ہی بس سے باہر ہے۔ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں جارہی۔ یوں لگتا ہے کہ کئی نسلیں کیمپوں میں ہی پیدا ہوکر دفن ہوجائیں گی۔
فرانس کے شہر کیلائس کو مہاجرین کے وجود سے پاک کرنے کے لیے گزشتہ سال تمام کیمپوں کا صفایا کردیا گیا، اس کے باوجود بے گھر مہاجرین کیمپوں کے بِنا ہی شہر کی ''زینت'' بڑھا رہے ہیں۔ یہاں مہاجرین جنگل میں راتیں بسر کرتے ہیں۔ پولیس آئے دن ان کو پکڑ کر لے جاتی ہے اور ان کا برائے نام سامان بھی ضبط کرلیتی ہے، مگر ان مہاجرین کے پاس جینے کا کوئی متبادل راستہ ہی نہیں ہے۔ دیگر خطوں کی طرح سرد موسم اور بارشیں ان کے لیے سوہان روح بھی ہیں اور قاتل بھی۔ مہاجرین کی بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے۔ ساتھ ہی عراق، اریٹیریا، صومالیہ اور سوڈان کے باشندے بھی یہاں موجود ہیں۔
انتظامیہ ان مہاجرین کو سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیے بے چین ہے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ یہ مہاجرین اس امید پر ٹھنڈے موسم کے سامنے صف آرا ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے بحالی مہاجرین ان پر جلد نظر ڈالے گا اور ان کو برطانیہ میں جگہ فراہم کردی جائے گی۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ برطانیہ میں اس سے بھی کڑا وقت ان کا منتظر ہے۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا دل اور دامن باہر والوں کے لیے نہایت تنگ پڑچکا ہے۔ لیکن صرف برطانیہ کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے دنیا کے تمام ملکوں کا مہاجرین کی طرف سے مجموعی رویہ کم و بیش اتنا ہی سفاکانہ ہے۔ اس سفاکی کے باعث نہ جانے مزید کتنی دل میں پیوست ہوتی تصاویر ہم تک پہنچنا ابھی باقی ہیں۔