سندھ میں تاریخی مقامات کی مرمت افسران کیلیے کاروبار بن گیا

ہر بجٹ میں کروڑوں روپے تاریخی مقامات کی مرمت پرخرچ کیے جاتے ہیں لیکن حالت دو تین برسوں تک بہترنہیں رہتی، ذرائع


عبدالرزاق ابڑو December 20, 2017
حال میں 25 مقامات کی مرمت کیلیے 20 کروڑ مالیت کے پھر ٹھیکے دیے گئے، اپنائے گئے طریقہ کا ر نے شکوک شبہات پیدا کر دیے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

سندھ میں واقع تاریخی مقامات وآثار قدیمہ کی مرمت بھی محکمہ اینٹی کوئٹیز و آثار قدیمہ کے افسران کیلیے آسان اور منافع بخش کاروبار بن گیا ہے، ہر بجٹ میں کروڑوں روپے ان تاریخی مقامات کی مرمت پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ان کی حالت کبھی بھی آئندہ دو تین برسوں تک بہتر نہیں رہتی اور پھر ان ہی جگہوں کی مرمت درکار ہوتی ہے۔

حال میں تقریباً 25 مقامات کی مرمت کیلیے پھر ٹھیکے دیے گئے ہیں جن کی مالیت 20 کروڑ روپے ہے، عام طور پر برائے نام اور غیرمعیاری مرمتی کام کے ذریعے پیسے ہڑپ کیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ٹھیکے الاٹ کرنے کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار نے ہی شکوک شبہات پیدا کردیے ہیں، مرمتی کام کے ٹینڈر ایک دفتر سے جاری کیا گیا جبکہ ڈاکیومنٹ ملنے کا ایڈریس دوسرا بتایا گیا جس کا مقصد ٹینڈر کاغذات حاصل کرنے والے کنٹریکٹرز کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا تاکہ مذکورہ ٹھیکے من پسند ٹھیکے داروں کو دیے جاسکیں۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ ٹھیکے من پسند ٹھیکے داروں کو دیے گئے جن کی پاکستان انجینیئرنگ کونسل میں رجسٹریشن بھی مذکورہ ٹھیکے الاٹ کرنے کے بعد کرائی گئی،ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ کنٹریکٹس دیتے وقت ٹھیکے داروں کے تجربہ کار ہونے یا ہونے کو بھی ملحوض خاطر نہیں رکھاگیا۔

مذکورہ ٹھیکے داروں کو آرکیالوجیکل سائٹس پرکام کرنے کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں ہے، جن تاریخی مقامات کی مرمت کے لیے ٹھیکے دیے گئے ان میں گھوٹکی میں واقع مومل جی ماڑی، بدھسٹ اسٹوپا (کاہو جو دڑو) میرپور خاص، بدھسٹ اسٹوپا بے نظیرآباد، آثار برہمن آباد سانگھڑ،لاکھین جودڑوسکھر،شادی پلی عمرکوٹ، مقبرہ میاں یارمحمدکلھوڑو دادو،تجاربلڈنگ لاڑکانہ، چٹوری قبرستان میرپورخاص، مقبرہ میر شہداد، بھودیسر مندر تھرپارکر، سونڈا قبرستان ٹھٹہ، قلعہ کلن کوٹ مکلی،نواب امیر خان مسجد ٹھٹہ، عمرکوٹ میں واقع اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش، چاہین جو دڑو نوابشاہ،قادربخش جا قبا خیرپورمیرس اور دیگرشامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق جن تاریخی جگہوں وآثار قدیمہ کے ٹھیکے دیے گئے ہیں ان جگہوں پر مذکورہ ٹھیکے داروں کے اسٹاف کے بجائے محکمہ آرکیالوجی کے ملازمین کام کر رہے ہیں۔ جنھیں ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی منظور کناسرو کی ہدایت پرتعینات کیا گیا ہے،اس اقدام سے بھی ٹھیکے داروں کی میرٹ سے ہٹ کرسلیکشن سے متعلق شکوک وشبہات کو تقویت ملتی ہے

ٹھیکے داروں کی آڈٹ رپورٹس بھی محض انھیں ٹھیکہ الاٹ کرنے کے مقصد سے تیار کرائی گئیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ 20 کروڑ روپے کے کام کو تقسیم کرکے ٹھیکے دیے گئے تاکہ قومی احتساب بیوروکورپورٹ ارسال کرنے سے بچا جاسکے جبکہ سندھ پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی کے قوائد وضوابط کے تحت بھی ایک ہی کام کے ٹھیکے تقسیم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

20 کروڑ روپے مالیت کے کام کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرنا،ٹینڈر جاری کرنے اورٹینڈرکاغذات حاصل کرنے کے لیے الگ دفاترکا استعمال،ٹھیکے غیر تجربہ کارٹھیکے داروں کوالاٹ کرنا اورمتعلقہ جگہوں پرٹھیکے داروں کے بجائے محکمہ آرکیالوجی کے اسٹاف کاکام کرناان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ آثار قدیمہ وتاریخی جگہوں کی مرمت وبحالی کی آڑ میں ایک مرتبہ پھرایک بڑی رقم ہتھیانے کا بندوبست کیاگیا ہے،اس سلسلے میں جب ڈی جی آرکیالوجی منظور کناسرو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں ہے، مذکورہ ٹھیکے میرٹ پر دیے گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں