نئی حلقہ بندیوں کے لیے 24 ویں آئینی ترمیم کا بل منظور
تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد بل کی منظوری کا معاملہ قابل ستائش ہے
سینیٹ نے مردم شماری کے بعد نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے 24 ویں آئینی ترمیم کا بل 2017ء دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا۔ منگل کو ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے دستور (ترمیمی) بل 2017 ایوان میں پیش کیا اور قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔
بل کی حمایت میں 84 ووٹ جب کہ مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔ ملک میں 18 سال بعد مردم شماری کے انعقاد کے بعد کئی اطراف سے انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے تھے، ایسے وقت جب کہ الیکشن 2018 نہایت قریب ہیں تمام تر ابہام کا خاتمہ ازحد ضروری ہے، الیکشن کمیشن یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج اور حلقہ بندیوں کی تفصیلات نہ ملنے کی صورت میں مقررہ وقت تک انتخابات کا انعقاد دشوار ہوسکتا ہے ایسے میں مذکورہ بل کا تعلق انتخابات کے بروقت انعقاد سے تھا، امید کی جانی چاہیے کہ اب آگے کے مرحلے بھی سرعت اور بحسن خوبی مکمل کیے جائیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے تاکہ کسی بھی جانب سے تحفظات اور ابہام پیدا کرکے عوام کو ذہنی خلفشار میں مبتلا نہ کیا جاسکے۔
ماضی میں متنازعہ حلقہ بندیاں اور غیر شفاف انتخابات کے مضمرات قوم مختلف بحرانوں کی صورت میں بھگت چکی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے پارلیمنٹرینز کی اکثریت متفق ہے۔ بل کی منظوری پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے بہت ضروری تھی۔ بل کے تحت آیندہ انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کی 272 عام نشستیں ہوں گی جب کہ خواتین کی 60 مخصوص نشستیں ہوں گی، قومی اسمبلی کی کل نشستیں 332 ہوں گی۔ بلوچستان کی کل نشستیں 20 ہوں گی، جن میں خواتین کی 4 اور عام نشستیں 16 ہوں گی۔ پنجاب کی عام نشستیں 141 اور خواتین کی33 نشستیں ہوں گی اور پنجاب کی کل نشستیں 174 ہوں گی۔ سندھ کی کل نشستیں 75 ہوں گی جن میں سے 61 عام نشستیں اور 14 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ فاٹا کی 12، اسلام آباد کی 3 نشستیں ہوں گی۔ بل کے تحت قومی اسمبلی کی عمومی نشستیں 272 اور خواتین کی نشستیں 60 اور فاٹا کی 12نشستیں برقرار رہیں گی۔
بلوچستان کے لیے 3، خیبرپختونخوا 5 اور اسلام آباد کے لیے ایک نشست کا اضافہ ہوگا جب کہ پنجاب کے لیے 2 نشستیں کم ہوں گی اور سندھ کے لیے نشستیں برقرار رہیں گی۔ اس سے پیشتر سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی لیڈرز کی جانب سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے تحفظات پیش کیے جارہے تھے لیکن علم ہوا ہے کہ وزیراعظم نے تمام پارلیمانی لیڈرز کو بلایا تھا، پارٹیوں کے مردم شماری کے حوالے سے جو تحفظات تھے اس حوالے سے 5 فیصد بلاکس کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کوئی بات چھپائی نہیں گئی۔
تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد بل کی منظوری کا معاملہ قابل ستائش ہے۔ ملک میں جمہوری دور اپنے استحکام کی جانب گامزن ہے، گزشتہ دور حکومت کی طرح یہ دورانیہ بھی اپنی مدت پوری کرتا دکھائی دے رہا ہے، اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ عام انتخابات کا طے شدہ اعلان کے مطابق بروقت انعقاد ممکن ہوپائے گا۔ لازم ہوگا کہ پارلیمانی ادارے ضروری آئینی و قانونی ذمے داریوں کو بہ احسن طریقے سے نمٹائیں اور الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے انعقاد میں حائل ابہام کا خاتمہ کرے۔
بل کی حمایت میں 84 ووٹ جب کہ مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔ ملک میں 18 سال بعد مردم شماری کے انعقاد کے بعد کئی اطراف سے انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے تھے، ایسے وقت جب کہ الیکشن 2018 نہایت قریب ہیں تمام تر ابہام کا خاتمہ ازحد ضروری ہے، الیکشن کمیشن یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج اور حلقہ بندیوں کی تفصیلات نہ ملنے کی صورت میں مقررہ وقت تک انتخابات کا انعقاد دشوار ہوسکتا ہے ایسے میں مذکورہ بل کا تعلق انتخابات کے بروقت انعقاد سے تھا، امید کی جانی چاہیے کہ اب آگے کے مرحلے بھی سرعت اور بحسن خوبی مکمل کیے جائیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے تاکہ کسی بھی جانب سے تحفظات اور ابہام پیدا کرکے عوام کو ذہنی خلفشار میں مبتلا نہ کیا جاسکے۔
ماضی میں متنازعہ حلقہ بندیاں اور غیر شفاف انتخابات کے مضمرات قوم مختلف بحرانوں کی صورت میں بھگت چکی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے پارلیمنٹرینز کی اکثریت متفق ہے۔ بل کی منظوری پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے بہت ضروری تھی۔ بل کے تحت آیندہ انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کی 272 عام نشستیں ہوں گی جب کہ خواتین کی 60 مخصوص نشستیں ہوں گی، قومی اسمبلی کی کل نشستیں 332 ہوں گی۔ بلوچستان کی کل نشستیں 20 ہوں گی، جن میں خواتین کی 4 اور عام نشستیں 16 ہوں گی۔ پنجاب کی عام نشستیں 141 اور خواتین کی33 نشستیں ہوں گی اور پنجاب کی کل نشستیں 174 ہوں گی۔ سندھ کی کل نشستیں 75 ہوں گی جن میں سے 61 عام نشستیں اور 14 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ فاٹا کی 12، اسلام آباد کی 3 نشستیں ہوں گی۔ بل کے تحت قومی اسمبلی کی عمومی نشستیں 272 اور خواتین کی نشستیں 60 اور فاٹا کی 12نشستیں برقرار رہیں گی۔
بلوچستان کے لیے 3، خیبرپختونخوا 5 اور اسلام آباد کے لیے ایک نشست کا اضافہ ہوگا جب کہ پنجاب کے لیے 2 نشستیں کم ہوں گی اور سندھ کے لیے نشستیں برقرار رہیں گی۔ اس سے پیشتر سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی لیڈرز کی جانب سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے تحفظات پیش کیے جارہے تھے لیکن علم ہوا ہے کہ وزیراعظم نے تمام پارلیمانی لیڈرز کو بلایا تھا، پارٹیوں کے مردم شماری کے حوالے سے جو تحفظات تھے اس حوالے سے 5 فیصد بلاکس کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کوئی بات چھپائی نہیں گئی۔
تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد بل کی منظوری کا معاملہ قابل ستائش ہے۔ ملک میں جمہوری دور اپنے استحکام کی جانب گامزن ہے، گزشتہ دور حکومت کی طرح یہ دورانیہ بھی اپنی مدت پوری کرتا دکھائی دے رہا ہے، اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ عام انتخابات کا طے شدہ اعلان کے مطابق بروقت انعقاد ممکن ہوپائے گا۔ لازم ہوگا کہ پارلیمانی ادارے ضروری آئینی و قانونی ذمے داریوں کو بہ احسن طریقے سے نمٹائیں اور الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے انعقاد میں حائل ابہام کا خاتمہ کرے۔