حکومت اور آزاد میڈیا
حکومت میڈیا کی تنقید کا خیر مقدم کرنے پر تو مجبور ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ تعمیری تنقید کا مطالبہ بھی کرتی ہے
نفسا نفسی کے اس دور میں مہنگائی نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ اب تو بازار جا کر قیمتیں پوچھ کر طبیعت صاف ہو جاتی ہے، میرے جیسے پرانے وقتوں کے لوگوں کے لیے آج کل کی قیمتیں ناقابل یقین ہیں اور میں ان کے ساتھ ذہنی مطابقت نہیں کر پاتا ہوں بلکہ اکثراوقات مجھے جب کسی چیز کی قیمت بتائی جائے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے بے وقوف بنایا جا رہا ہے، بھلا اتنی زیادہ قیمت بھی کسی چیز کی ہو سکتی ہے یعنی میرے لیے یہ تصور ہی محال ہے کہ روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت میری گئے وقتوں کی ایک ماہ کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
ہوشربا مہنگائی نے عوام کو پڑھنے لکھنے سے بھی دور کر دیا، اس بات کا اندازہ مجھے ان برقی مراسلوں سے ہوتا ہے جو کہ ہر وقت میرے موبائل فون کی گھنٹی کی صورت میں آتے ہیں، کبھی کوئی پیغام آجاتا ہے کبھی کوئی ای میل موصول ہو جاتی ہے جس میں زیادہ تعداد ان قارئین کی ہے جو صبح سویرے اخبار انٹرنیٹ پر پڑھ لیتے ہیں اور پھر اس میں شایع مواد کے بارے میں اپنے اچھے برے خیالات کا اظہار اپنے پیغامات کی صورت میں کرتے ہیں۔ صبح سویرے اخبار خریدنا یا ہاکر کا انتظارکرنا یہ روایت اب معدوم ہوتی جا رہی ، مہنگائی نے روز مرہ اشیا کی گرانی کے ساتھ اخبار کے قارئین کو بھی متاثر کیا ہے اور اب زیادہ تر قارئین اخبار انٹرنیٹ پر ہی پڑھ لیتے ہیں اور اخبارخریدنے یا ہاکر کے انتظار کی کوفت سے بچ جاتے ہیں ۔
سرکار کی خبریں تو اب ٹی وی پر ہی دیکھ لی جاتی ہیں اور ان پر تبصرے بھی شام ہوتے ہی شروع ہو جاتے ہیں جو کہ رات گئے تک جاری رہتے ہیں لیکن ہمارے جیسے اخباری مزدور اپنی روزی روٹی کا بندو بست کالم نگاری کے ذریعے پورا کر رہے ہیں۔ میرے کئی دوست اس بات پر اکثر احتجاج کرتے ہیں کہ کیا ہم روزانہ اخبار اس لیے خریدتے ہیں کہ آپ جیسے کالم نویس جو اپنے قارئین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے حکمرانوں کے ساتھ کیے گئے دوروں کے سفر کی روداد پڑھیں دوسرے لفظوں میں شامل باجہ ہوں۔یہ رواج بہت عام تھا کہ حکمران اپنے غیر ملکی دوروں میں کالم نویسوں کی ایک معقول تعدادکو ساتھ لے کر جاتے تھے تاکہ ان کا غیر ملکی دورہ کامیاب رہے اور ان کے دورے کی روداد نمک مرچ لگا کر قارئین تک پہنچ جائے۔
یہ رواج جاری رہا حکمران خوش رہے کہ ان کی کارگزاریوں کی داستانیں عوام تک پہنچ رہی ہیں جب کہ قارئین اپنے پلے سے اخبار خرید کر ان تحریروں کو پڑھتے رہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخباروں میں کالم بہت کم چھپتے تھے اور اخبار کا زیادہ زور خبروں پر ہوتا تھا جو ایک اخبار کا اصل مقصد ہے، ایک فکاہیہ یا طنز و مزاح سے بھر پور کالم ہوتا تھا اور باقی سب مضمون ہوتے تھے ۔ ہمارے زمانے میں چند لکھنے والے شروع دن سے ہی کالم نویس تھے لیکن اس کھیپ میں اصل اضافہ بھٹو صاحب کے دور میں ہوا ۔خود میں نے بھی اگرچہ یحیٰ خان کے دور میں خبر نگاری کے ساتھ کالم نویسی شروع کی لیکن بھٹوصاحب کے زبردست سیاسی اور متنارعہ دور میں کالم نویسی میں بہت مزہ آیا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شروع شروع میں بھٹو حکومت میں قوت برداشت بھی تھی البتہ ان دنوں ایک جنرل نیازی والے پستول والے ذکر پر وہ بہت ناراض ہوئے ۔
میڈیا اور حکومت کے درمیان آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے حکومت اپنے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے تا کہ میڈیا تابعدار رہے جب کہ آزاد اخبار نویس ان ہتھکنڈوں میں سے بھی اپنی راہ تلاش کر لیتا ہے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں ذرایع ابلاغ پر ہمیشہ مشکل وقت طاری رہتا ہے کیونکہ یہاں پر جمہوریت کمزور ہوتی ہے یا نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود اخبار نویس اس کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ میڈیا اور حکومت کے مفادات متضاد ہوتے ہیں اس لیے ان کے درمیان مصالحت اور مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں ایک فوجی آمر نے الیکڑانک میڈیا کی داغ بیل ڈالی جس نے اس کو بہت پریشان بھی کیا لیکن وہ اس کو برداشت کرتا رہا اور آنے والی جمہوری حکومتوں کو اس آزاد میڈیا کے حوالے کر گیا جس کو جمہوری حکومتیں بھگت رہی ہیں۔
آزاد ذرایع ابلاغ کا پہلا مقصد عوام دشمن حکومتی پالیسیوں پر گرفت ہے حکومت کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرنا اور عوام کے اندر ان اقدامات کے خلاف جذبات پیدا کرنا تا کہ ان غلط پالیسیوں کو روکا جا سکے، میڈیا کا یہ اولین فرض ہے اور یہ فرض کسی بھی حکومت کو قبول نہیں ہوتا، ہر حکومت میڈیا کی تنقید کا خیر مقدم کرنے پر تو مجبور ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ تعمیری تنقید کا مطالبہ بھی کرتی ہے اور میڈیا کا ہر رکن تعمیری تنقید کا مطلب خوب سمجھتا ہے ۔
میڈیا اور حکومت کے درمیان جنگ جاری رہی ہے جاری ہے اور جاری رہے گی، ان دونوں کے درمیان کبھی صلح نہیں ہو سکتی۔ آج تو زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے میڈیا میں ایسی خبریں بھی پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہ کسی حکومت کے لیے ایک دھماکے سے کم نہیں اور یہ خبری دھماکے روز ہو رہے ہیں لیکن موجودہ زمانے میں حکومت نے ان دھماکوں کو جانبداری قرار دینا شروع کر دیا ہے اور اپنے شامل باجوں سے ان دھماکا خیز خبروں کی ایسی تیسی کرائی جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میڈیا آزاد ہے اور اپنی آزادی کا بھر پور استعمال بھی کر رہا ہے۔ حکومت بھی اپنا کام کر رہی ہے ایک کشمکش ہے جو کہ میڈیا اور حکومت میں جاری ہے اور یہ کشمکش ہمیشہ جاری ہی رہتی ہے۔