’’آنے والا‘‘ جو آنے والا ہے
سورج سردیوں میں آہستہ آہستہ بہت دور بھی چلا جاتا ہے بلکہ بہت دور اور کمزور بھی ہو جاتا ہے
ہم سیاست کی بات نہیں کر رہے ہیں اس میں تو آنے والے آتے بھی رہتے ہیں اور جاتے بھی رہتے ہیں پھر آنے کے لیے یہ ایک اور '' آنے والے '' کا ذکر ہے جس کی پیش گوئی تقریباً تمام مذاہب میں کی گئی ہے۔ عیسائیوں کے ہاں یسوع مسیح دوبارہ اتریں گے، مسلمان بھی مہدی اور یسوع دونوں کے منتظر ہیں یہودی تو پرانے زمانے سے اس آنے والے کا راستہ دیکھ رہے ہیں، ہند میں اس آنے والے کا نام ''کلکی اوتار '' ہے جو وشنو بھگوان کا دسواں اوتار ہے، اس سے پہلے وشنو بھگوان نو اوتار لے چکے ہیں۔ '' کلکی اوتار '' سفید لباس میں سفید گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا میں کفر اور دھرم کی تاریکی دور کرکے ویدوں کی اصلی تعلیم کو رائج کرے گا۔
دوسرے مذاھب میں بھی آنے والا کفر کو مٹا کر اصلی دین نافذ کرے گا۔ آنے والے کا نام ، نشانیاں ممالک اور زمانے الگ الگ بتائے جاتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا کفر کے اندھیروں سے بھر جائے گی تو وہ آنے والا آکر کفر کے اندھیروں کو مٹائے گا اور دین کی سچی تعلیم اور شکل نافذ کرے گا۔ اس میں پھر کچھ مباحث ایسی ہیں کہ بعض مذاھب کے نزدیک وہ آنے والا آچکا ہے خاص طور پر مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ سفید لباس اور سفید براق والا کوئی نہیں بلکہ جناب محمد رسول اللہﷺ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آنے والے کا عقیدہ موجود ہے بلکہ یسوع مسیح اور مہدی آخر زمان کو مختلف روایات کے ذریعے بہت زیادہ بیان بھی کر چکے ہیں۔ شہزادہ سدھارتھ یعنی گوتم بدھ ہندؤوں کے ہاں وشنوکے نویں اوتار ہیں لیکن اس کے باوجود ہندو اور بدھ والے آنے والے کے منتظر ہیں بدھوں کے نزدیک آنے والا بھی بدھ ہی ہوگا ۔
لیکن مذاہب اور اس کے مباحث کو چھیڑے بغیر اس آنے والے کا تصور ان مذاھب سے بھی بہت پہلے جن کا ذکر موجود ہے موجود تھا مثلاً قدیم ایران میں آنے والے کا نام '' متھرا ''ہے جو اصل میں سورج دیوتا ہے۔ قدیم مصر میں بھی '' را'' کے دوبارہ آنے کا تصور موجود تھا اور عراق میں اس کے کئی نام اور روپ تھے مردوک ، تموز ، ایشور وغیرہ اور یہ تصور حقیقت میں سورج سے وابستہ ہے ۔ جب وہ ڈوب جاتا ہے تو تاریکی چھا جاتی ہے اور رات کا اندھیرا اس کے دوبارہ طلوع سے دور ہوجاتا ہے۔ دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ سورج سردیوں میں آہستہ آہستہ بہت دور بھی چلا جاتا ہے بلکہ بہت دور اور کمزور بھی ہو جاتا ہے، قدیم عقائد میں وہ جان لیوا مرض میں مبتلا ہو جاتا تھا ۔
جس کے بارے میں ایک عراقی اسطورہ یہ ہے کہ سورج کا ایک روپ گڈریئے '' تموز '' کے روپ میں جب بہت بیمار بلکہ قریب المرگ ہو گیا تو اس کی محبوبہ '' َعشتار '' جو بہار سبزے اور بار آوری کی دیوی ہے اس کا ''علاج '' لانے کے لیے پاتال چلی جاتی ہے، وہ اس سفر میں چار مہینے لگاتی ہے اس کی غیر موجودگی میں سبزہ جل جاتا ہے، سب کچھ سوکھ جاتا ہے اور دنیا ویران اور بنجر ہو جاتی ہے لیکن چار مہینے کے بعد جب وہ لوٹ آتی ہے تو اس کے ساتھ نہ صرف اس کا محبوب سورج (تموز ) صحت مند ہو جاتا ہے اور دنیا میں پھر سے سبزہ روئیدگی اور بہار آجاتی ہے۔ یہ اسطورہ بھی تقریباً سارے قدیم مذاھب میں ذرا تبدیلی کے ساتھ موجود ہے ۔ عشتار قدیم ایشیائے کوچک میں '' سبل '' تھی، شام وغیرہ میں عشتر یا عشرت تھی، مصر میں آئیس یا است تھی، یونان میں البتہ یہ دو دیوؤں میں تقسیم ہو کر اور زیادہ با معنی ہو جاتی ہے۔
''دمی تر '' وہاں فصلوں کی دیوی بلکہ فصل ہی ہے اس کی بیٹی پر سینفونی بیج کی دیوی ہے جسے پاتال کی تاریک دنیا کا دیوتا ہیڈیز یا ہسبڈیز اغوا کرکے لے جاتا ہے، ماں اس کے پیچھے دیوانی ہو کر چار مہینے پریشان پھرتی ہے ،آخر پتہ لگا لیتی ہے کہ اس کی بیٹی کو پاتال کا سیاہ دیوتا ھیڈیز لے گیا۔ اس پر زیوس ''سورج '' یعنی بڑے دیوتا کی عدالت میں مقدمہ دائر ہوتا ہے جس میں اس کے بھائی ہیڈیز اور یو سیڈون کے علاوہ اس کی تین بہنیں افرو دیتی، دمی ترا اور ہبرا بھی ہوتی ہیں، یہ سب آپس میں بہن بھائی بھی ہیں۔ دیوتاؤں کی اس عدالت میں فیصلہ ہوتا ہے کہ اگر پرسیفونی نے پاتال میں کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو ماں کے پاس رہے گی لیکن ہیڈیز اسے پاتال میں انار کے دانے کھلا چکا ہے اس لیے آخر ی فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ چار مہینے وہ پاتال میں ہیڈیز کے پاس رہے گی اور آٹھ مہینے اپنی ماں کے ساتھ دنیا میں گزارے گی۔
اصل میں یہ کوئی ماورائی کہانی نہیں ہے بلکہ عراقی کہانی کی طرح ایک ''موسمی'' استعارہ ہے، دمی تر فصل ہے آٹھ مہینے میں بیج پک جاتا ہے پھر وہ زمین پر گر کر مٹی میں یعنی پاتال چلا جاتا ہے اور چار مہینے کے بعد دوبارہ اگ کر نکل آتا ہے۔ بیٹی ''ماں '' کے پاس پہنچ جاتی ہے، بظاہر فضول نظر آنے والی ساری قدیم اساطیر میں یہ جو دیوی دیوتا ہیں یہ موسمی اور زمینی حقائق کے استعارے ہوتے ہیں جو بڑی ہنر مندی سے لمشیلاتی کرداروں میں ڈالے گئے ہیں، چنانچہ سورج کا ڈوبنا پھر تاریکی چھا جانا دوسری صبح طلوع ہو کر پھر روشنی لانا اور سردیوں میں اس کا بیمار اور کمزور ہونا، بہار کی دیوی کے پاتال چلے جانے پر سبزے کا غائب ہونا اور لوٹ آنے پر بہار کی آمد سارے استعارے میں موسمی تبدیلیوں کے ہیں۔
ایران اور افغانستان میں '' نوروز '' کو اگرچہ آج کل جمشید ''یاما'' سے منسوب کیا جاتا ہے اور مزار شریف میں '' میلہ گل سرخ '' کہلاتا ہے لیکن یہ اس قدیم عراقی دیوی کی پاتال سے واپسی اور بہار کی ابتدا ہے جو ان کے کیلنڈر میں سنال کے پہلے مہینے ''حمل '' کا پہلا دن ہوتا ہے لیکن عیسائی کیلنڈر میں 21مارچ کا دن ہوتا ہے جو بہار کی ابتد ہوتی ہے، حال میں پوپ بینڈیکٹ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح کی پیدائش کی یہ تاریخ یعنی 25دسمبر غلط ہے۔اصل میں پرانے مذاھب بظاہر تو مٹ گئے ہیں لیکن ان کے نظریات عقائد نئے مذاھب میں بھی چل رہے ہیں۔
اکثر '' امیدیں '' واہمہ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی انسان اس سے اپنی ڈھارس بندھوا لیتا ہے یہ'' آنے والے '' کا نظریہ بھی پرانے زمانوں سے انسان کا بہت بڑا سہارا رہا ہے چونکہ ہر انسان اپنے زمانے میں ناخوش رہتا ہے اور اسے ہر جگہ برائی دیکھنے کو ملتی ہے یعنی اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے اس لیے ایک آنے والے اور تاریکی کو دور کرنے والے کا تصور اسے حوصلہ دیتا ہے اور امید کرتا ہے کہ گمراہی تاریکی برائی اور بدی کی یہ تاریکی عارضی ہے۔ وہ '' آنے والے '' کی راہ دیکھتا ہے اور اس کے لیے دعائیں مانگتا رہتا ہے ۔