نیپالی انتخابات میں کمیونسٹوں کی جیت
نیپال میں کمیونسٹوں کی کامیابی پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں خوشیاں تو منا رہی ہیں
نیپال میں 26 نومبر تا 7 دسمبر 2017ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ 88 پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ یہاں نیپالی کانگریس کے علاوہ چند ہی پارٹیاں دائیں بازو کی ہیں، ساری پارٹیاں بائیں بازو کی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) نے 80 نشستیں حاصل کیں، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤئسٹ سینٹر) نے 36 نشستیں، نیپالی کانگریس 23، راشٹریہ جنتا پارٹی نیپال 11، سانگھیاں سماج باد فورم 10، راشٹریہ پرجا تانترا پارٹی 1، راشٹریہ جن مورچہ1، نیپالی مزدور کسان پارٹی 1، نیا شکتی پارٹی نیپال1، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (مارکسسٹ لیننسٹ)، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونائیٹڈ) سمیت اور بھی کئی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا، جنھیں کوئی نشست نہیں ملی۔ مدیشی اور سابق شاہی پارٹیوں نے ہندو کارڈ کا استعمال کیا، مگر وہ شکست سے دوچار ہوئیں۔
بائیں بازو کی کمیونسٹ، ورکرز اور سوشلسٹ پارٹیاں، زمبابوے، کیوبا، ویتنام، منگولیا، سوشلسٹ کوریا، ہندوستان کے دو صوبوں کیرالا اور تریپورہ کے بعد اب نیپال میں کمیونسٹ پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے۔ پہلے کانگریس کی حکومت تھی، جس نے عوام کو کچھ نہیں دیا، اس کے بعد یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ لیننسٹ) کی حکو مت تھی، یہ بھی عوام کے لیے خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا سکی اور اب کمیونسٹ پارٹی (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) اور کمیونسٹ پارٹی (سینٹر ماؤئسٹ) کے اتحاد نے کل 116 نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ کانگریس سمیت دائیں بازو کی جماعتوں نے 47 نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ نشستیں 2 سے 12 تک ہوسکتی ہیں کہ وہ بائیں بازو کی کمیونسٹ اتحاد کی حکومت میں شامل ہوجائیں یا حزب اختلاف میں رہیں۔ متناسب نمایندگی کے ذریعے 110 نشستیں منتخب ہوں گی۔
ان نتائج اور متناسب نمایندگی کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ بائیں بازو کا کمیونسٹ اتحاد نہ صرف اکثریت، بلکہ دگنا سے زیادہ نشستیں لے کر حکومت بنائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ تو ہوگیا، بادشاہ سلامت کو بجلی کا بل بھی ادا کرنا پڑتا ہے مگر فوجی نوکرشاہی کی کیا صورتحال ہے۔ اس سے قبل بھی کئی ملکوں میں ایسا ہوچکا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے باوجود اقتدار پر فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔ جیسا کہ الجزائر اور پاکستان۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کو پہلے کی طرح شاہ زدہ فوج کی تطہیر کی گئی تھی مگر نیشنل کانگریس کی حکومت کے قیام کے بعد اس میں سامراج نواز اور ہندوستان نواز یعنی ہندو ازم کی رجعتی فکر رکھنے والے فوجی بھی اعلی ٰ افسر بنے۔ پھر یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے دوران کچھ بہتری لائی گئی۔
نیپال میں کمیونسٹوں کی کامیابی پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں خوشیاں تو منا رہی ہیں لیکن مودی سرکار اور امریکی سامراج کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کی شہادت کے بعد کھٹمنڈو میں کمیونسٹ پارٹیوں نے بہت بڑا تعزیتی جلسہ کیا تھا، جب سے امریکی سامراج بے چینی کا شکار ہے۔ نیپال کی مزدور کسان پارٹی نے بھی بھکتاپورہ میں افغان صدر ڈاکٹر نجیب اﷲ کی شہادت پر جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے کمیونسٹ اکیلے نہیں ہیں، ہم دنیا بھر کے کمیونسٹ، سامراج کے خلاف لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نیپال میں اقتدار میں آنے کے بعد کیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کی ضبطگی کرتی ہے یا نہیں۔ سپاہیوں کے ووٹ سے فوجی افسروں کو منتخب کروانے کا آئینی فیصلہ کرتی ہے یا نہیں۔ مچھلی کی فارمنگ اور زمینوں کو کسانوں میں تقسیم کس حد تک کرتی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ سے ملک کو کیسے بچاتی ہے۔ یہ ہیں نیپالی عوام کی توقعات۔
نیپال میں جب ماؤ نواز کمیونسٹ پرچندہ کی قیادت میں گوریلا وار کر رہے تھے تو نیپال کے بیشتر مچھلیوں کے تالابوں اور جاگیرداروں کی زمینوں کو عوامی ملکیت بنالیا گیا تھا۔ لیکن بادشاہت کے خاتمے کے بعد جب بورژوا حکومت قائم ہوئی تو ان تالابوں اور زمینوں کو مالکان کے حوالے کردیا گیا تھا، بعد ازاں کچھ زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ اب صورتحال کچھ یوں بن رہی ہے کہ امریکا، برطانیہ، ہندوستان، چین، اسرائیل اور عرب دنیا میں پھر سے کمیونسٹ تحریک ابھرنی شروع ہوگئی ہے۔
امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکا کے سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کے گرد لاکھوں عوامی سمندر کا اکٹھا ہونا، برطانیہ میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیرمی کوربون کا مقبول ہونا، اسرائیل میں کمیونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کے اتحاد کو کیبنٹ (اسمبلی) میں 18 نشستیں ملنا، ہندوستان کے دو صوبوں میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کا قائم ہونا، چین میں سرمایہ داری مخالف نیو کمیونسٹ پارٹی کا قیام، شام میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیاں، سعودی عرب میں خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی کا خاتمہ، سیمینار کرنے کی اجازت دینا اور 35 سال بعد سینما گھروں کو ازسر نو کھلوانا، عالمی حالات میں نمایاں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں نیپال میں اقتدار میں آنے والی کمیونسٹ پارٹی ریاستی جبر کے ذریعے عوام کو کچھ نہ کچھ پہلے کے مقابلے میں فائدہ پہنچائے گی، بشرطیکہ مزدوروں، کسانوں اور پیداواری قوتوں کی جدوجہد جاری رہے۔
ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں ہی مضمر ہے۔ جب زمین عوامی ملکیت میں تبدیل ہوں گی، جائیداد، خاندان، سرحدیں، پہرے دار، عدالتیں، فوج، پولیس اور بورژوا میڈیا کا خاتمہ ہوجائے گا، تب ہی نیپال اور دنیا بھر کے عوام حقیقی معنوں میں جینے لگیں گے۔ اس لیے بھی کہ نیپال کے گرد دو دیوہیکل سرمایہ دار اور سامراجی ممالک چین اور بھارت موجود ہیں۔ یہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام کا کبھی بھی خاتمہ نہیں کرنا چاہیں گے۔ اس لیے نیپالی کمیونسٹ پارٹی اپنے انقلابی پھیلاؤ کو چین اور بھارت تک طول دینا ہوگا، تب جاکر کمیونسٹ سماج کی جانب پیشقدمی اور ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔