بادشاہ سے فقیر بن جانا
رات 8 بجے تک بجلی کے پول کے نیچے کھڑے رہ کر سبزی فروخت ہوتی ہے
دنیا کا کوئی مسلمان یہ نہیں کہے گا میری رسی دراز ہے۔ یہ ضرور کہتے ہیں اﷲ کی رسی دراز ہے، یہ جب کھینچی جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ذلیل و رسوا کردیتا ہے، جنھیں غربت کہیں نظر نہ آئی، اپنے کالے دھن کو جمع کرنے، کرپشن کا عمل، لوٹ مار خوب آزادی سے کرتے رہیں، اس لیے کہ اس دنیا کے مالک ہیں۔ رسی کو ڈھیل اس لیے دی گئی تھی تاکہ جتنا کچھ کرسکتے ہیں کرلیں۔ آپ اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور جب رسی کھینچی گئی تو اس میں چند لمحات سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ وہ چند لمحات ان کے لیے برسوں، مہینوں سے صرف سیکنڈ لگیں گے۔
جھوٹ، فریب، دھوکا دہی ،ظلم، کرپشن، ٹیکسوں کی رقومات، اپنی جیب میں بھریں وہ بھی اﷲ کی ڈھیلی رسی کے سہارے تھا۔ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو وہ اسی وقت ان پر کسی معصوم پرندے کا نوکیلا معمولی پتھر، بڑا پتھر بنا دیتا۔ ایسا پہلے ہوچکا ہے اور رسیاں تو بہت بڑے مغرور لوگوں کی کھینچی گئی ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن اب تو کسی مثال کی ضرورت نہیں۔ سامنے جو کچھ عوام دیکھ رہے ہیں حقیقت پر مبنی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑے بڑے مجرم سامنے آرہے ہیں اور کل یہ رسی کے جکڑے ہوئے پھندے موجود ہیں۔ شرم سے نگاہیں بھی نہیں جھک رہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا آخری وقت بھی موجود رہتا ہے۔ یہ خوش نصیب ہیں، رب تبارک و تعالیٰ نے موقع سے یہ ڈھیلی رسی ان کو دے دی، ابھی تو آہستہ آہستہ کھنچ رہی ہے، لیکن جب جلال میں سیکنڈ دکھائے گی تو شاید یہ کسی بھی علاقے میں نظر نہ آئیں اور بے تحاشا نصیب تو درکنار اس کو دیکھ بھی نہ سکیں۔
سیکڑوں لوگوں کو ظلم و بربریت، کالا دھن، عوام کی رقومات لوٹنے پر ایسے کھینچا گیا جو نظر تک نہ آئے۔ وہ تمام زر و جواہرات، جائیدادیں بھی غائب ہوگئیں، افسوس پھر بھی تو بداعمال لوگوں نے نہ سمجھا، وہی کچھ کرتے رہے جس کو ان کو سونے کے سکے نظر آئے۔ وہ وقت بھی آیا جب یہ تمام سونے کے سکے سمندر میں ایسے غرق ہوئے جو آج تک کسی کو نہ ملے۔ یہ ہے اﷲ کی رسی جو کو سمجھ کر انجان بن جاتے ہیں۔ اگر آج بھی رب تعالیٰ خداوند کریم کے حضور میں معافی مانگیں، ایسی معافی کہ دوبارہ ایسا کام نہ کیا جائے جس کے لیے پوری نسلیں نہ صرف بدنام بلکہ مٹ ہی جائیں۔
ایک بہت پرانی بات ہے، میں نے ایک سبزی فروش ٹھیلے والے کے بارے میں سنا، مغلیہ دور کے آخری ایام میں اس کے عزیز و اقارب مقام رکھتے تھے، وہ عزیز و اقارب رہے، نہ مغلیہ دور، اور نہ ہی وہ دولت جس پر ان کا پورا خاندان عیش کرتا تھا۔ بتاتے ہیں ہمارے عزیز و اقارب ہوشیار تھے۔ 1849ء میں ہندوستان کے بڑے شہروں سے کوچ کرکے مغرب کی سمت اپنے دوسرے ناموں سے کم سے کم کام کیا، دولت ساری ختم ہوگئی، بلکہ اب تو یہ مغل کہلاتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں اور کہنے والے سے کہہ دیتے ہیں بھائی صاحب میں رمیز الدین سبزی فروش ہوں، میں مغل نہیں، اگر مغل ہوتا تو میں اس طرح ٹھیلے پر پاؤ، نصف کلو اور کلو میں سبزی فروخت نہ کرتا۔ ٹھیلا جس مقام پر کھڑا کرتا ہوں اس جگہ کھڑے رہنے میں دن میں دو دفعہ بھتہ نہ دینا پڑتا۔ پہلا بھتہ صبح گیارہ بجے اور دوسرا بھتہ شام 4 بجے، کیونکہ رات 8 بجے تک بجلی کے پول کے نیچے کھڑے رہ کر سبزی فروخت ہوتی ہے۔
اس لیے دوسرا بھتہ بھی دینا ضروری ہے۔ میں نے اس سبزی فروش کی بات سن کر بہت بڑا سبق لیا، بلکہ پہلے تو اپنے بچوں کو بتایاکہ کہیں بھی ہو یا کسی بھی بڑے مقام پر پہنچو تو غرور، تکبر، رشوت، حرام خوری مت کرنا۔ ایسا کرنے والوں کے لیے ایک وقت ایسا آجاتا ہے جو اپنی طاقت کے زور پر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ صرف نماز ادا کرلینے سے گناہ معاف نہیں ہوتے، اس کے ساتھ اور بھی عبادات ہیں جن سے واقف ہیں۔ یہ کہہ دینا پانچوں وقت کے نمازی ہیں اور داڑھی رکھی ہوئی ہے، لیکن یہ شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس شخص کی زندگی میں کس قدر برے اعمال ہوں گے۔ ایک حضرت کو جانتا ہوں۔ ان کا ایک ہوٹل بھی ہے اور آٹو رکشہ کرائے پر دیتا ہے، کم از کم دس بارہ مکانات ہیں جو کرایہ پر دیے گئے ہیں۔
اگر عام آدمی ملے گا تو اس کو انتہائی درجے کا برگزیدہ بندہ نظر آئے گا کہ اس کے بارے میں بڑی سی بڑی قسم کھائے گا جب کہ وہ سود پر پیسہ دیتا ہے۔ رکشے کرایہ پر دیے ہیں۔ اگر پہلی قسط بھی نہ ادا ہوسکے تو بدمعاشوں کو بھیج کر رکشہ چھین لیتا ہے، اور وہی چھینا ہوا رکشہ کسی دوسرے کو اس سے زیادہ قسطوں پر دے دیتا ہے، جب کہ اس نے پہلے متعدد قسطیں وصول کیں لیکن صرف ایک قسط پر تمام اقساط ہضم کرلی گئیں۔ جو مکان کرایہ پر ہیں، اگر کسی ماہ کی پانچ تاریخ تک کرایہ نہ ملے تو چھ تاریخ کو باہر سے تالا لگادیا جاتا ہے، بے چارہ کرایہ دار اور اس کا سامان بند، کیونکہ شب کی تاریکی میں تالا لگا تھا معلوم نہ ہوسکا۔ کسی طرح سے اڑوس پڑوس سے کھڑکیاں کھول کر باتیں ہوئیں، شام تک اس کی رقم ادا ہونے کے ساتھ دس فیصد جرمانہ بھی دینا پڑا۔ نہ جانے کتنے برے کام کرتا ہے، سفید داڑھی ہے اور فخر سے کہتا ہے میں نے سات حج کیے ہیں، تمام لوگ حاجی صاحب کہتے ہیں۔
یہ باتیں کسی دوسرے ملک کی نہیں، ہمارے ملک کی ہیں۔ کیا سمجھتے ہیں یہ اکیلا آدمی ہے، بلکہ اس قسم کے بیشتر لوگوں نے آزادانہ طور پر یہ دھندے اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دنیا میں کوئی کچھ نہیں کرسکتا ہے، اس لیے کہ وہ اس قدر بااثر و طاقتور ہیں کہ نہ جانے کتنے قتل کیے ہوں گے۔ جو پولیس تھانہ کا اسٹاف ہے اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کے ہوٹل میں کھانا تمام پولیس والوں کے لیے فری اور ایس ایچ او کو ماہانہ ایک لاکھ کا بھتہ ہے جو کہ اب شاید ڈبل ہوگیا ہے۔ بچپن میں پہلے ایسی باتیں کبھی مدتوں میں سنائی دیتی تھیں لیکن اب تو یہ تقریباً عام ہوتی جارہی ہیں۔
جو شخص جہاں ہے اس میں بداعمالی، چوری، بھتہ خوری کے سنہری کارناموں کی شہرت ہے، تو وہ مزید کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن وہی بات رب تبارک و تعالیٰ نے اس کو بھی چین و سکون سے نہیں بیٹھنے دیا ہے، مسکراہٹ تو اپنی جگہ لیکن وہ اس خوف میں رہتا ہے کہ کہیں ایسا کوئی موقع نہ جائے کہ وہ بادشاہ سے فقیر بن جائے۔ میں نے بادشاہ بنتے دیکھے اور فقیر بنتے بھی دیکھے اور ایسے نیک، سعادت مند، ایماندار، دیانت دار لوگوں کو بچپن سے دیکھا، وہ بوڑھے ہوگئے، ان کی اولاد بھی بوڑھی ہیں، لیکن انھوں نے کچے مکانات کا سہارا لیا ہوا ہے، وجہ ساری مال و زر۔ جب کسی کے پاس اتنا زر نہ ہوگا تو وہ کروڑوں کا مکان کیسے خریدے گا۔
اب تو کچی آبادی کا مکان بھی 50 ساٹھ لاکھ سے کم میں نہیں، وہ بھی دو یا تین کمروں سے زیادہ نہ ہوگا۔دادا نے لیا تھا، اس کے دو حصے کیے، آدھے حصے میں دو، اور آدھے میں جب بیٹے بوڑھے ہوئے اور ان کی اولاد بڑھی تو ان کو ڈبل ٹرپل منزل کر ڈالا اور چوتھی نسل بھی ابھی تک اسی مکان میں گزارا کررہی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن میں ایک فیصد بھی جھوٹ نہیں۔ اگر ان کے دادا چاہتے تو اس وقت سبزی منڈی میں بڑی بڑی دکانیں ہول سیل پر لے سکتے تھے اور اب کروڑوں کے مکانات کے مالک ہوتے، لیکن قناعت پسندی میں وقت گزارا، آپس کے اتفاق میں ایک ہی مکان میں ہیں، جس میں اس وقت نیچے سے اوپر تک چھوٹے چھوٹے سولہ کمرے بنے ہیں، جن میں اگر کوئی مہمان آئے تو اس کو بھی سلاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اﷲ سے خوف کھاتے ہیں اور سوچتے سمجھتے اپنی اولاد کو تربیت دیتے ہیں کہ کہیں بے ایمانی، برا کام نہیں کرنا، ورنہ اﷲ میاں ناراض ہوجائیں گے۔