میں کراچی ہوں
مجھ پر حکمرانی کا حق جتانے والے تو بہت ہیں مگر زندگی کی امید دلانے والا کوئی نہیں، ہر کسی کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔
تہذیبوں کے اس سفر میں آج میری شناخت مکمل طور پر گم ہوکر رہ گئی ہے۔ 521 قبل مسیح کے یونانی سیاح اسکائی لیکس ہندوستان کے حالات دیکھنے کی غرض سے گسری بندر سے سندھ پہنچا جس نے پہلی ہی نظر میں مجھے پسند کیا اور میری تعریف میں قصیدے لکھ دیئے۔ پھر 326 قبل مسیح میں سکندرِاعظم اپنے لشکر سمیت مجھ پر وارد ہوا۔ مجھے یاد ہے جب سکندر کے ایک جرنیل نیارکس نے میرا امن، سبزہ اور خوش حالی دیکھی تو کہا یہ میرے آقا سکندر کی جنت ہے۔ مجھ پر قبضہ کرنے کے بعد میں نے کئی یونانیوں کو اپنے سینے میں پناہ دی۔ یونانیوں سے قبل مجھ پر فارس والوں کا بھی ہاتھ رہا۔ برہمن دور میں میرے آس پاس کئی زرعی گاؤں دیہات آباد تھے جہاں مندروں سے ہر وقت گھنٹیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں تک چلا، پھر 711ء میں عربوں نے مجھے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے بعد ایک اور نئی تہذیب کی شروعات ہوئی جہاں ہر وقت اللہ اکبر کی صداؤں سے میں ہر وقت خوش رہنے لگا۔
1723ء میں سیٹھ بوجومل نامی ایک کاروباری شخص گھومتا گھامتا مجھ تک آن پہنچا۔ میری خوش حالی اور امن پسندی کو دیکھ کر اس نے مجھے اور میں نے اسے اپنا لیا۔ اس شخص نے یہاں کاروبار شروع کیا، میری موجودہ ترقی کی اصل وجہ یہ ہی شخص تھا۔ یہ میرا محسن تھا کیوں کہ اس نے میرے بچوں کو روٹی کا ذریعہ دیا۔ کبھی میں چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں میں بٹا ہوا تھا لیکن آج میں میگا سٹی بن چکا ہوں۔ میرا شمار دنیا کے سات بڑے شہروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آج میں بہت دکھی ہوں۔ سوچتا ہوں وہ دور بہت اچھا تھا جب میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا، لیکن آج میرے بچے بٹے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنانے اور ترقی دینے کے نام پر آگ اور خون میں نہلایا گیا، مجھے ماں کا درجہ دینے والے ہی میرے قاتل نکلے۔ مجھے میرے بچوں نے ہی بربادی کے اس دہانے پر پہنچا دیا جہاں آج ہر طرف نفرت، افراتفری، لسانی گروہ بندی، قتل وغارت گری کا راج ہے۔ اتنا درد اور اتنی تکلیف تو مجھے اس وقت بھی نہیں ہوئی جب ارغون، مغل اور ترخانوں نے مجھے اپنے گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا تھا؛ میری تہذیب، میرے امن اور خوش حالی کو نیست ونابود کیا تھا۔
مجھے ماں کہنے والے، مجھے پاکستان کا ''معاشی مرکز'' کہنے والے آج میرے دعویدار تو ہیں مگر میرے حقوق اور فرائض کی جب بات آتی ہے تو سب پیچھے ہوجاتے ہیں۔ میں آج زندہ لاش بن چکا ہوں، مجھ پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرکے میرے حسن کو جہاں داغ دار کیا جارہا ہے وہیں میری آنے والی نسلوں کےلیے تباہی و بربادی کا سامان بھی پیدا کیا جارہا ہے۔ سبزہ اور ندیاں کبھی میرا حسن اور پہچان ہوا کرتے تھے، آج وہ سب ختم کردیئے گئے۔ ترقی کے باوجود میرے قیمتی اثاثے سمندر کو اپنی غلاظت سے بھرا جا رہا ہے، مجھ سے کمانے والے ہی مجھے گندا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
آج میں سیاسی جماعتوں کےلیے صرف ایک ووٹ بینک کی حیثیت اختیار کرگیا ہوں، مجھ پر ہر شہر اور ہر گاؤں کے لوگ بستے ہیں، میں ان کےلیے روزی روٹی کا ذریعہ ہوں مگر پھر بھی مجھے یہ لوگ نازیبا الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ میں نے قائداعظمؒ کا خواب دیکھا تھا لیکن آج جس مقام پر میں کھڑا ہوں وہ اس کی تعبیر نہیں۔ آج مجھ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ غیرقانونی تعمیرات، چائنہ کٹنگ اور بلڈر مافیا نے میرا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
1843ء میں جب انگریزوں نے مجھ پر قبضہ کیا تھا تو مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی۔ سوچا تھا اب یہ لوگ ترقی کے نام پر مجھ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑیں گے، لیکن یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ انگریزوں نے مجھے اپنا سمجھ کر مجھ پر انتہائی خوبصورت عمارتیں، سڑکیں، نالے اور ریلوے اسٹیشن بناکر میرے حسن کو چار چاند لگا دیئے۔ میری نسلوں کو بہتر زندگی گزارنے کےلیے ایک بھرپور نظام فراہم کیا۔ پھر جب تقسیم کا وقت آیا اور انگریز مجھے چھوڑ کر جانے لگے تو میں اور بھی خوش ہوگیا کہ اب میرے اپنے مجھے سنبھال لیں گے، اب وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ مجھے خوب صورت ترین بنا دیں گے، میرا بھی اب دنیا میں نام ہوگا، یہ مجھے پھر میری کھوئی ہوئی پہچان لوٹائیں گے۔
مگر یہ کیا کہ میرے بچوں نے تو مجھے برباد ہی کردیا۔ 90ء کی دہائی تک مجھ میں پھر بھی جینے کی کچھ امنگ باقی تھی، مگر اب میری جینے کی امنگ ختم ہوچکی ہے، میں اب زندہ لاش بن چکا ہوں۔ اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کررہا ہے اور کون کیا نہیں کررہا۔ کوئی مجھ پر پان، گٹکا کھا کر تھوکتا ہے توکوئی جہاں دل چاہے کچرا پھینک دیتا ہے؛ گندگی اور غلاظت سے میرا وجود مٹ چکا ہے۔ دنیا جہان کی برائیاں لا کر مجھ میں سمو دی گئی ہیں۔
آج مجھ پر حکمرانی کا حق جتانے والے تو بہت ہیں مگر مجھے پھر سے زندگی کی امید دینے والا کوئی نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے چکر میں گم ہے۔ میرا اب کسی کو خیال نہیں۔ میرا ایک سوال ہے، ان سب سے جو مجھ پر بسیرا کرتے ہیں: آخر میرا قصور کیا تھا جو مجھے اس حال تک پہنچایا گیا؟ میں نے تو سب کا بھلا چاہا، پھر کیوں میرے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا اور مجھے دنیا بھر میں بدنام کیا گیا؟ کیا اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ مجھے ماں کہنے والے آج کہاں ہیں؟ کیا میری ممتا میں کوئی کسر رہ گئی تھی جو مجھے اس طرح دھتکار دیا گیا؟
سچ پوچھو تو میں آج بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے زندگی چاہیے۔ آج میں اپنا حق مانگتا ہوں، مجھے میرا حق چاہیے۔ یاد رکھو! میں ہی تمہارا کل ہوں اور میں ہی تمہاری نسلوں کا محافظ بھی۔ اگر میں نہ رہا تو پھر کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اب بھی وقت ہے مجھے سنبھال لو، مجھے میرا حق دے دو، مجھے میری زندگی لوٹا دو۔کیونکہ میں کراچی ہوں، اگر تم نے مجھے سنبھالنے میں دیر کی تو پھر تمہارے پاس پشیمانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
1723ء میں سیٹھ بوجومل نامی ایک کاروباری شخص گھومتا گھامتا مجھ تک آن پہنچا۔ میری خوش حالی اور امن پسندی کو دیکھ کر اس نے مجھے اور میں نے اسے اپنا لیا۔ اس شخص نے یہاں کاروبار شروع کیا، میری موجودہ ترقی کی اصل وجہ یہ ہی شخص تھا۔ یہ میرا محسن تھا کیوں کہ اس نے میرے بچوں کو روٹی کا ذریعہ دیا۔ کبھی میں چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں میں بٹا ہوا تھا لیکن آج میں میگا سٹی بن چکا ہوں۔ میرا شمار دنیا کے سات بڑے شہروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آج میں بہت دکھی ہوں۔ سوچتا ہوں وہ دور بہت اچھا تھا جب میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا، لیکن آج میرے بچے بٹے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنانے اور ترقی دینے کے نام پر آگ اور خون میں نہلایا گیا، مجھے ماں کا درجہ دینے والے ہی میرے قاتل نکلے۔ مجھے میرے بچوں نے ہی بربادی کے اس دہانے پر پہنچا دیا جہاں آج ہر طرف نفرت، افراتفری، لسانی گروہ بندی، قتل وغارت گری کا راج ہے۔ اتنا درد اور اتنی تکلیف تو مجھے اس وقت بھی نہیں ہوئی جب ارغون، مغل اور ترخانوں نے مجھے اپنے گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا تھا؛ میری تہذیب، میرے امن اور خوش حالی کو نیست ونابود کیا تھا۔
مجھے ماں کہنے والے، مجھے پاکستان کا ''معاشی مرکز'' کہنے والے آج میرے دعویدار تو ہیں مگر میرے حقوق اور فرائض کی جب بات آتی ہے تو سب پیچھے ہوجاتے ہیں۔ میں آج زندہ لاش بن چکا ہوں، مجھ پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرکے میرے حسن کو جہاں داغ دار کیا جارہا ہے وہیں میری آنے والی نسلوں کےلیے تباہی و بربادی کا سامان بھی پیدا کیا جارہا ہے۔ سبزہ اور ندیاں کبھی میرا حسن اور پہچان ہوا کرتے تھے، آج وہ سب ختم کردیئے گئے۔ ترقی کے باوجود میرے قیمتی اثاثے سمندر کو اپنی غلاظت سے بھرا جا رہا ہے، مجھ سے کمانے والے ہی مجھے گندا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
آج میں سیاسی جماعتوں کےلیے صرف ایک ووٹ بینک کی حیثیت اختیار کرگیا ہوں، مجھ پر ہر شہر اور ہر گاؤں کے لوگ بستے ہیں، میں ان کےلیے روزی روٹی کا ذریعہ ہوں مگر پھر بھی مجھے یہ لوگ نازیبا الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ میں نے قائداعظمؒ کا خواب دیکھا تھا لیکن آج جس مقام پر میں کھڑا ہوں وہ اس کی تعبیر نہیں۔ آج مجھ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ غیرقانونی تعمیرات، چائنہ کٹنگ اور بلڈر مافیا نے میرا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
1843ء میں جب انگریزوں نے مجھ پر قبضہ کیا تھا تو مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی۔ سوچا تھا اب یہ لوگ ترقی کے نام پر مجھ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑیں گے، لیکن یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ انگریزوں نے مجھے اپنا سمجھ کر مجھ پر انتہائی خوبصورت عمارتیں، سڑکیں، نالے اور ریلوے اسٹیشن بناکر میرے حسن کو چار چاند لگا دیئے۔ میری نسلوں کو بہتر زندگی گزارنے کےلیے ایک بھرپور نظام فراہم کیا۔ پھر جب تقسیم کا وقت آیا اور انگریز مجھے چھوڑ کر جانے لگے تو میں اور بھی خوش ہوگیا کہ اب میرے اپنے مجھے سنبھال لیں گے، اب وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ مجھے خوب صورت ترین بنا دیں گے، میرا بھی اب دنیا میں نام ہوگا، یہ مجھے پھر میری کھوئی ہوئی پہچان لوٹائیں گے۔
مگر یہ کیا کہ میرے بچوں نے تو مجھے برباد ہی کردیا۔ 90ء کی دہائی تک مجھ میں پھر بھی جینے کی کچھ امنگ باقی تھی، مگر اب میری جینے کی امنگ ختم ہوچکی ہے، میں اب زندہ لاش بن چکا ہوں۔ اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کررہا ہے اور کون کیا نہیں کررہا۔ کوئی مجھ پر پان، گٹکا کھا کر تھوکتا ہے توکوئی جہاں دل چاہے کچرا پھینک دیتا ہے؛ گندگی اور غلاظت سے میرا وجود مٹ چکا ہے۔ دنیا جہان کی برائیاں لا کر مجھ میں سمو دی گئی ہیں۔
آج مجھ پر حکمرانی کا حق جتانے والے تو بہت ہیں مگر مجھے پھر سے زندگی کی امید دینے والا کوئی نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے چکر میں گم ہے۔ میرا اب کسی کو خیال نہیں۔ میرا ایک سوال ہے، ان سب سے جو مجھ پر بسیرا کرتے ہیں: آخر میرا قصور کیا تھا جو مجھے اس حال تک پہنچایا گیا؟ میں نے تو سب کا بھلا چاہا، پھر کیوں میرے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا اور مجھے دنیا بھر میں بدنام کیا گیا؟ کیا اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ مجھے ماں کہنے والے آج کہاں ہیں؟ کیا میری ممتا میں کوئی کسر رہ گئی تھی جو مجھے اس طرح دھتکار دیا گیا؟
سچ پوچھو تو میں آج بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے زندگی چاہیے۔ آج میں اپنا حق مانگتا ہوں، مجھے میرا حق چاہیے۔ یاد رکھو! میں ہی تمہارا کل ہوں اور میں ہی تمہاری نسلوں کا محافظ بھی۔ اگر میں نہ رہا تو پھر کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اب بھی وقت ہے مجھے سنبھال لو، مجھے میرا حق دے دو، مجھے میری زندگی لوٹا دو۔کیونکہ میں کراچی ہوں، اگر تم نے مجھے سنبھالنے میں دیر کی تو پھر تمہارے پاس پشیمانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔