اسلام میں مساوات اور اخوت کا عالمگیر تصور
اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے ضمیر اور عبادت کی آزادی کا ضامن ہے۔
ارشاد ربانی ہے کہ:
''اے لوگو! ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں ہم نے قومیں اور برادریاں بنادیا تاکہ تمہاری ایک پہچان بن جائے۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ مکرم و محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔''
''تمام انسان ایک کنبہ اور برادری تھے۔''
آپؐ کا فرمان ہے کہ: ''اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ'' اور ''ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے''۔
جدید تہذیب کی بدولت جو نئے الفاظ ہم تک پہنچے ہیں ان میں حریت، مساوات، اخوت، روشن خیالی وغیرہ جیسے الفاظ اپنے اندر خاص جذب اور کشش رکھتے ہیں۔ عالمی اتحاد، یگانگت، ہم آہنگی، عالمی بھائی چارہ اور مساوات آج دنیا کی سیاسی اور اقتصادی کشمکش کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
خاتم النبین، سیدالمرسلین، رحمت اللعالمینؐ نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی پوری حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ عفو و درگزر، رحمت و رافت اور مثالی مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ انسانیت کے محسن اعظم، ہادی عالم، رحمت مجسم، حضرت محمدؐ نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اور عملی اقدامات تاریخ انسانی کے اس تاریک دور میں روا فرمائے کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھے اور مذہبی آزادی و رواداری کے مفہوم و تصور سے انسانی ذہن خالی تھا۔
اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے ضمیر اور عبادت کی آزادی کا ضامن ہے۔ سورہ البقرہ جبر یا سختی نہ کرنے کا وہی رواداری کا اصول بیان کر رہی ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ رواداری وہ نظریہ تھا جس کے باعث مسلمان ملکوں میں اسلامی سیاسی ابتلا کے باوجود غیر مسلم ملتیں اپنی انفرادی زندگی اور تمدن و تہذیب کو برقرار رکھ سکیں۔
عیسائی کلیسا سے ناقوس کی آواز متصلہ مسجد کی اذان کے ساتھ بلند ہوتی تھی۔ ہسپانیہ میں تقریباً آٹھ صدی تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن انھوں نے کبھی دباؤ یا جبر سے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہ کی۔ ان کی اس حکمت عملی ہی کا نتیجہ تھا کہ جب مسلمانوں کی فوجی طاقت کمزور ہوئی تو غیر مسلم اکثریت نے ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور ان کی عطا کردہ ثقافتی اور مذہبی آزادی کا بالکل پاس نہ کیا۔ وہ تمدن و تہذیب جو مسلمانوں نے وہاں پیدا کیا اور جس کی ضیا پاشیوں سے تمام یورپ بعد میں منور ہوا۔ اس متعصبانہ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا ہوگیا۔
ترکوں نے مشرقی یورپ پر چار صدی تک حکومت کی اور مختلف عیسائی فرقوں اور گروہوں کو مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی دیے رکھی۔ ایک عثمانی سلطان نے تمام غیر مسلم رعایا کو جبراً مسلم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن علما نے قرآنی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی، انھوں نے اصول کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے اقلیت میں رہنے کو ترجیح دی۔
برعظیم پاک و ہند میں یہی صورتحال تھی، کسی سیاسی یا تبلیغی کوشش کے بغیر ہندو عوام برہمنوں کی ذات پات کی تقسیم میں شدید عملی مضرات سے تنگ آکر مسلمان ہوتے رہے اور یہ عمل اس وقت بھی جاری رہا جب مسلمانوں کا سیاسی غلبہ ختم ہوگیا۔ حتیٰ کہ پنجاب میں سکھوں کے تاریک ترین دور حکومت میں بھی جب شاہی مسجد رنجیت سنگھ کے اصطبل میں تبدیل کی جاچکی تھی، اسلام کی فتوحات بدستور جاری رہیں، اسی طرح جس طرح آج افریقہ میں عیسائیت مشنری تنظیم اور کثیر دول تکے علی الرغم مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، اس کا باعث صرف اسلام کی سادہ تعلیم، غیر عقلی عقائد کا فقدان اور انسانی مساوات کے تصورات ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی اسلام اس وقت پھیلا جب وہاں ہالینڈ کے عیسائی حکمران اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے سیاسی قوت اور سرمایہ صرف کرنے میں دریغ نہیں کر رہے تھے۔
یہودی جو قبل مسیح اور بعد میں خود عیسائی سلطنتوں اور علاقوں میں ہمیشہ ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے رہے، ان کو اسلام کے بعد چین و آرام کی زندگی میسر آسکی۔ کسی شہر میں یہودی باڑہ نہ تھا۔ مغربی عیسائی سلطنتیں ان پر ظلم کرتیں تو وہ پناہ لینے اسلامی ملکوں میں جا پہنچتے، جہاں ان کے لیے دوسرے باشندوں کی طرح ترقی کے تمام مواقع کھلے تھے۔ کسی اسلامی ملک میں یہودیوں کے خلاف نہ کبھی جذبہ عناد پیدا ہوا اور نہ ان پر حملے ہوئے۔ لیکن بدقسمتی سے جدید دور میں ان مراعات اور رواداری کے بدلے میں جو سلوک بین الاقوامی جارحانہ صہیونیت نے کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اسلام میں چھوت چھات کے لیے کوئی جگہ نہیں بلکہ اس کے قانون میں عیسائی، یہودی، سکھ، ہندو اور دوسرے سارے انسانوں کا جھوٹا پاک ہے۔
جب کبھی آپؐ سے عیسائیوں کو ملنے کا اتفاق ہوتا تھا آپؐ ان سے اجنبی طور پر نہیں بلکہ دوستانہ اور برادرانہ طریقے سے ملتے تھے اور ان کی انتہائی عزت کرتے تھے۔ ایک موقع پر جب آپؐ کے پاس نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپؐ نے خاص اپنی مسجد میں انھیں ٹھہرایا اور انھیں وہیں عبادت کرلینے کی بھی اجازت دی۔
اسلام نے تمام امت مسلمہ کو جسد واحد اور ایک برادری قرار دیا ہے۔ اخوت و اجتماعیت کا یہ رنگ اسلامی عبادات کا مظہر ہے۔ حج کا عظیم الشان اجتماع ملت اسلامیہ کی شان و شوکت کا آئینہ دار ہوتا ہے جب دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان رنگ و نسل ، قوم و وطن کے امتیازات سے بلند و بالا ہوکر مساوات اور عالمی اتحاد کا عملی مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔
بدھ مت مساوات کا درس دیتا ہے اور اس کی اکثر تعلیمات انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے مشابہ ہیں اس لیے اکثر لوگ مہاتما بدھ کو نبی یا اوتار مانتے تھے۔
اسلام آفاقیت اور عالمگیریت قائم کرتا ہے۔ وہ نسلی امتیاز مٹا کر کالے اور گورے، حبشی و رومی، یورپی و غیر یورپی کو ایک اسٹیج پر کھڑا کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے کہ:''لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیے۔''
عالمی اتحاد و اخوت، ہم آہنگی اور یگانگت اس وقت پھلی پھولی جب آپؐ نے مہاجرین و انصار کا آپس میں بھائی چارہ کرایا اور وہ بھائیوں کی طرح آپس میں مل کر زندگی گزارنے لگے، اس بارے میں اسلام کا نقطہ نظر عالمگیر ہے اور اسلام ایک عالمگیر اسلامی اخوت قائم کرنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی تم کو سلام کرے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو، یا وہی الفاظ دہرا دو۔ عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر فرعون مجھ کو کہے کہ بارک اللہ فیک تو میں جواب میں کہوں گا ''وفیک''۔
سرور کائناتؐ کے پیغام کی یہ خصوصیت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر پیام امن و آزادی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس پیغام کو نہ صرف مسلمانوں تک پہنچایا جائے بلکہ جو مسلمان نہیں ہیں ان کو بھی اس پیغام کی دعوت دی جائے۔ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سب سے اچھا اور موثر طریقہ وہی ہے جو اللہ کے آخری پیغمبر ؐ نے اختیار فرمایا تھا۔