دسویں اردو کانفرنس
عالمی اردو کانفرنس کا اس سال دسویں بار 21 دسمبر سے آرٹس کونسل کراچی کے آڈیٹوریم میں آغاز ہوچکا ہے۔
گزشتہ دس برسوں سے مسلسل منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس کا اس سال دسویں بار 21 دسمبر سے آرٹس کونسل کراچی کے آڈیٹوریم میں آغاز ہوچکا ہے۔ پروگرام سے متعلق کتابچے میں ان پانچ دنوں میں لگ بھگ تیس اجلاس علاوہ مشاعرہ اور اختتامی اجلاس کے منعقد ہوں گے۔
پہلا افتتاحی اجلاس ساڑھے تین بجے رکھا گیا باقی چار دن ساڑھے دس بجے سے دن صبح سے اجلاسوں کا آغاز رکھا گیا ہے، پہلے دن افتتاحی اجلاس کے علاوہ دو اور پروگرامز ایک اجلاس عہد مشتاق احمد یوسفی، ہمارا اعزاز جب کہ دوسرا قوالی کا بھی شامل ہے۔ دوسرے دن پہلا اجلاس ساڑھے دس بجے صبح حمد و نعت، تخلیقی و فکری تناظر کے عنوان کے تحت ہے، اس اجلاس میں چار مقالے پیش ہوں گے۔ اس اجلاس کے علاوہ مزید سات اجلاس اسی روز منعقد ہوں گے یعنی ایک دن میں آٹھ اجلاس جن کا اختتام ساڑھے نو بجے عشائیہ پر ہوگا۔
تیسرے دن بھی آٹھ ہی اجلاس ہیں جن میں آخری پروگرام مشاعرہ ہوگا چوتھے دن بھی آٹھ ہی اجلاس رکھے گئے جب کہ آخری روز اختتامی اجلاس کے علاوہ پانچ اجلاس ہوں گے۔ البتہ اس بار یہ ضرور ہوا کہ جن اجلاسوں میں مقررین کی تعداد زیادہ ہے اس کا دورانیہ بھی بڑھادیا گیا ہے جب کہ گزشتہ برس ایک ایک گھنٹے کے تمام اجلاس اور مقالہ نگاروں یا مقررین کی تعداد زیادہ تھی۔ لہٰذا ہر کسی سے مختصر بات کرنے کی درخواست کی جاتی، مقالہ نگار اپنے موضوع پر بھرپور مقالے تیار کرکے لائے تھے مگر انھیں اپنے خیالات کا مکمل طور پر اظہار کرنے سے گریز کرنا پڑتا۔
گزشتہ برس ہم نے اپنے اظہاریے میں تجویز پیش کی تھی کہ یا تو ایک دن میں اجلاس کم رکھے جائیں یا پھر مقررین کی تعداد کم رکھی جائے تاکہ سب اپنی بات مکمل کرسکیں۔ اس سال اول تو کانفرنس ہی پانچ روزہ ہے کچھ اجلاسوں جن میں مقالات پڑھنے والے زیادہ ہیں ان کا دورانیہ بھی بڑھایا گیا ہے جو اچھی روایت ہے کیونکہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ آپ دنیا بھر سے دانشوروں کو جمع کریں اور کھل کر بات کرنے کا موقعہ نہ دیں، اس مثبت تبدیلی سے امید ہے کہ یہ کانفرنس زیادہ مفید اور دلچسپ ثابت ہوگی۔
اس بار ہم آیندہ سال کے لیے ایک تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اس توقع کے ساتھ کہ آرٹس کونسل کے ارباب اختیار اس پر غور فرمائیں گے کیونکہ تجاویز پیش کرنے میں کچھ خرچ تو ہوتا نہیں، معقول اور قابل عمل ہو تو حرج کیا ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ البتہ کچھ اور عناصر یا وجوہات بھی اچھے کام کے کبھی کبھی آڑے آجاتے ہیں۔ بہرحال ہم تو خلوص نیت سے اپنی تجویز پیش کر رہے ہیں اب اس پر عمل کرنا نہ کرنا متعلقہ افراد پر منحصر ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ دنیا بھر سے نامور دانشور تو اپنے خیالات اور مقالات پیش کرتے ہی ہیں جس سے اردو کی وسعت و مقبولیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ملک کے بھی نامور ادیب و شاعر اور صحافی حضرات اس کانفرنس میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں، مگر کچھ ایسے باصلاحیت افراد بھی ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں جو تعلقات عامہ کے گُر سے ناآشنا ہونے یا اور کسی وجہ (مجبوری) کے باعث اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اچھے افسانہ نگار، شاعر، ادیب یا اچھی نظامت کی صلاحیت ہونے کے باوجود گمنام اور گوشہ نشین رہتے ہیں۔ لہٰذا ایک کھلا اجلاس (چاہے آدھے گھنٹے کا ہی ہو) کسی بھی معقول عنوان کے تحت رکھا جائے جس کے بارے میں کوئی تفصیل کسی کو معلوم نہ ہو بس اچانک ہی اعلان کیا جائے جس میں جو صلاحیت ہے وہ آکر اسٹیج پر اس کا مظاہرہ کرے اس طرح ایسے کئی افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے (سوائے تعلقات بنانے کی صلاحیت کے) وہ اپنے ہنر کا پہلے کسی فورم پر اظہار نہ کرسکے ہوں آگے بڑھ کر آئیں اور اپنی صلاحیت یا ہنر کا اظہار کریں (فی البدیہہ اداکاری، تقریر، مصوری، نظامت ، گلوکاری وغیرہ) اس طرح وہ گمنام اور گوشہ نشین بلا کسی سفارش اور پشت پناہی کے آکر مختصر افسانہ، کہانی، اشعار یا گت اس کھلے اجلاس میں پیش کریں تو نئے باصلاحیت افراد بلا تلاش و جستجو کے سامنے آئیں گے۔
اس طرح ہر شعبہ فنون لطیفہ میں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا تو علم و ادب اور فن سے دلچسپی رکھنے والے ان سے واقف اور لطف اندوز بھی ہوں گے۔ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان افراد کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے کسی نامور ادیب یا صحافی کو ان کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کی دعوت دی جائے۔ اس ''تلاش نو'' اجلاس کی بڑی پذیرائی ہونے کا خاصہ امکان ہے۔ یوں بھی شہر میں جانے کتنے لوگوں کے ذہن میں اس کانفرنس کو مزید دلچسپ ہی نہیں مفید بھی بنانے کی ہزاروں تجاویز ہوں گی۔
بہرحال امید ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی یہ کانفرنس کامیاب ہوگی اور علم و ادب، فنون لطیفہ کے شائقین اس سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوں گے شہر کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کو بھی یہ کانفرنس مہمیز کرتی ہے۔
پہلا افتتاحی اجلاس ساڑھے تین بجے رکھا گیا باقی چار دن ساڑھے دس بجے سے دن صبح سے اجلاسوں کا آغاز رکھا گیا ہے، پہلے دن افتتاحی اجلاس کے علاوہ دو اور پروگرامز ایک اجلاس عہد مشتاق احمد یوسفی، ہمارا اعزاز جب کہ دوسرا قوالی کا بھی شامل ہے۔ دوسرے دن پہلا اجلاس ساڑھے دس بجے صبح حمد و نعت، تخلیقی و فکری تناظر کے عنوان کے تحت ہے، اس اجلاس میں چار مقالے پیش ہوں گے۔ اس اجلاس کے علاوہ مزید سات اجلاس اسی روز منعقد ہوں گے یعنی ایک دن میں آٹھ اجلاس جن کا اختتام ساڑھے نو بجے عشائیہ پر ہوگا۔
تیسرے دن بھی آٹھ ہی اجلاس ہیں جن میں آخری پروگرام مشاعرہ ہوگا چوتھے دن بھی آٹھ ہی اجلاس رکھے گئے جب کہ آخری روز اختتامی اجلاس کے علاوہ پانچ اجلاس ہوں گے۔ البتہ اس بار یہ ضرور ہوا کہ جن اجلاسوں میں مقررین کی تعداد زیادہ ہے اس کا دورانیہ بھی بڑھادیا گیا ہے جب کہ گزشتہ برس ایک ایک گھنٹے کے تمام اجلاس اور مقالہ نگاروں یا مقررین کی تعداد زیادہ تھی۔ لہٰذا ہر کسی سے مختصر بات کرنے کی درخواست کی جاتی، مقالہ نگار اپنے موضوع پر بھرپور مقالے تیار کرکے لائے تھے مگر انھیں اپنے خیالات کا مکمل طور پر اظہار کرنے سے گریز کرنا پڑتا۔
گزشتہ برس ہم نے اپنے اظہاریے میں تجویز پیش کی تھی کہ یا تو ایک دن میں اجلاس کم رکھے جائیں یا پھر مقررین کی تعداد کم رکھی جائے تاکہ سب اپنی بات مکمل کرسکیں۔ اس سال اول تو کانفرنس ہی پانچ روزہ ہے کچھ اجلاسوں جن میں مقالات پڑھنے والے زیادہ ہیں ان کا دورانیہ بھی بڑھایا گیا ہے جو اچھی روایت ہے کیونکہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ آپ دنیا بھر سے دانشوروں کو جمع کریں اور کھل کر بات کرنے کا موقعہ نہ دیں، اس مثبت تبدیلی سے امید ہے کہ یہ کانفرنس زیادہ مفید اور دلچسپ ثابت ہوگی۔
اس بار ہم آیندہ سال کے لیے ایک تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اس توقع کے ساتھ کہ آرٹس کونسل کے ارباب اختیار اس پر غور فرمائیں گے کیونکہ تجاویز پیش کرنے میں کچھ خرچ تو ہوتا نہیں، معقول اور قابل عمل ہو تو حرج کیا ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ البتہ کچھ اور عناصر یا وجوہات بھی اچھے کام کے کبھی کبھی آڑے آجاتے ہیں۔ بہرحال ہم تو خلوص نیت سے اپنی تجویز پیش کر رہے ہیں اب اس پر عمل کرنا نہ کرنا متعلقہ افراد پر منحصر ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ دنیا بھر سے نامور دانشور تو اپنے خیالات اور مقالات پیش کرتے ہی ہیں جس سے اردو کی وسعت و مقبولیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ملک کے بھی نامور ادیب و شاعر اور صحافی حضرات اس کانفرنس میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں، مگر کچھ ایسے باصلاحیت افراد بھی ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں جو تعلقات عامہ کے گُر سے ناآشنا ہونے یا اور کسی وجہ (مجبوری) کے باعث اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اچھے افسانہ نگار، شاعر، ادیب یا اچھی نظامت کی صلاحیت ہونے کے باوجود گمنام اور گوشہ نشین رہتے ہیں۔ لہٰذا ایک کھلا اجلاس (چاہے آدھے گھنٹے کا ہی ہو) کسی بھی معقول عنوان کے تحت رکھا جائے جس کے بارے میں کوئی تفصیل کسی کو معلوم نہ ہو بس اچانک ہی اعلان کیا جائے جس میں جو صلاحیت ہے وہ آکر اسٹیج پر اس کا مظاہرہ کرے اس طرح ایسے کئی افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے (سوائے تعلقات بنانے کی صلاحیت کے) وہ اپنے ہنر کا پہلے کسی فورم پر اظہار نہ کرسکے ہوں آگے بڑھ کر آئیں اور اپنی صلاحیت یا ہنر کا اظہار کریں (فی البدیہہ اداکاری، تقریر، مصوری، نظامت ، گلوکاری وغیرہ) اس طرح وہ گمنام اور گوشہ نشین بلا کسی سفارش اور پشت پناہی کے آکر مختصر افسانہ، کہانی، اشعار یا گت اس کھلے اجلاس میں پیش کریں تو نئے باصلاحیت افراد بلا تلاش و جستجو کے سامنے آئیں گے۔
اس طرح ہر شعبہ فنون لطیفہ میں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا تو علم و ادب اور فن سے دلچسپی رکھنے والے ان سے واقف اور لطف اندوز بھی ہوں گے۔ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان افراد کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے کسی نامور ادیب یا صحافی کو ان کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کی دعوت دی جائے۔ اس ''تلاش نو'' اجلاس کی بڑی پذیرائی ہونے کا خاصہ امکان ہے۔ یوں بھی شہر میں جانے کتنے لوگوں کے ذہن میں اس کانفرنس کو مزید دلچسپ ہی نہیں مفید بھی بنانے کی ہزاروں تجاویز ہوں گی۔
بہرحال امید ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی یہ کانفرنس کامیاب ہوگی اور علم و ادب، فنون لطیفہ کے شائقین اس سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوں گے شہر کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کو بھی یہ کانفرنس مہمیز کرتی ہے۔