سندھ کا منفی رویہ
کرپشن کی سب سے زیادہ شکایات سندھ میں ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ سے تعلق رکھنے والے دو اہم رہنماؤں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک ہی روز بیانات دیے ہیں کہ سندھ کے ساتھ اداروں اور عدلیہ کا رویہ دیگر صوبوں سے مختلف ہے اور اس سلسلے میں سندھ کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ سید خورشید شاہ نے اس سلسلے میں شرجیل میمن کے ساتھ نیب کے دہرے کردار پر تنقید کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی مثال بھی دی۔
شرجیل میمن پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ اسمبلی کے رکن اور سابق صوبائی وزیر ہیں، جن کے خلاف نیب عدالت میں محکمہ اطلاعات میں اربوں روپے کی کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے، جس میں شرجیل میمن بحیثیت سابق وزیر اطلاعات ملزم ہیں تو ان کے ساتھ محکمہ اطلاعات کے سابق افسران اور اشتہاری ایجنسیوں کے ذمے دار بھی ملوث ہیں۔
میاں نواز شریف پر اقامہ میں نااہلی کے بعد اب جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر تین مقدمات زیر سماعت ہیں۔ وہ برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور قومی رہنما ہیں جن کا کسی بھی صورت شرجیل میمن سے موازنہ درست نہیں ہے۔ شرجیل میمن اپنی وزارت میں ملک سے باہر گئے اور برسوں بعد واپس آئے اور آنے سے قبل انھوں نے کئی بار سندھ ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری منظور اور بعد میں توسیع کرائی، مگر وقت پر نہیں آئے، جس پر انھیں سندھ میں مزید توسیع نہیں ملی تو بعد میں وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت لے کر کراچی آئے، جہاں چند ماہ بعد شرجیل میمن و دیگر ملزمان کی ضمانتوں میں مزید توسیع نہ ہوئی تو گرفتاری کے بعد انھیں جیل بھیج دیا گیا، جو سندھ حکومت کے ماتحت ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین پیپلز پارٹی کے رہنما طویل گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے، جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات ہیں، وہ عدالت کی اجازت پر بیرون ملک گئے اور جلد آکر دوبارہ بیرون ملک دوبارہ چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی کوشش سے کرنسی اسمگلنگ کیس میں گرفتار ماڈل ایان علی ضمانت پر بیرون ملک گئیں اور واپس نہیں آئیں۔ عدالتیں اگر سندھ اور پیپلز پارٹی سے امتیازی سلوک کرتیں تو ایان کے ضامن اسحاق ڈار کے ضامن کی طرح عدالتوں میں پیش ہوکر جواب دے رہے ہوتے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان ایک بار حاضری پر نہ آئے تو ان کے قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور عدالت سے ان کی ضمانت منسوخی کی نوبت نہیں آئی، اس لیے نیب پر سندھ و پنجاب کے رہنماؤں کے مقدمات میں امتیاز برتنے کا الزام بھی بے بنیاد اور سیاسی پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں اور احتساب عدالتیں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔
سندھ کی صورتحال پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ متعدد بار سخت ریمارکس دے چکی ہیں اور حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں ریمارکس دیے کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے، لگتا ہے کہ ہمیں کراچی میں آکر 6 ماہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر تمام معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
اس سے قبل مضر صحت پانی کی فراہمی پر سپریم کورٹ نے کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ کو بھی طلب کیا جس طلبی کا وزیراعلیٰ نے برا مناتے ہوئے کہا کہ سندھ ہی نہیں پنجاب میں بھی پینے کے پانی کی بہت شکایات ہیں اور سپریم کورٹ صرف سندھ کو دیکھ رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ پانی کا مسئلہ پورے ملک ہی میں ہے جس کے سدباب کے لیے سندھ سے سپریم کورٹ نے ابتدا کی ہے اس میں امتیاز کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور ہمارا مقصد صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں مضر صحت پانی کے استعمال سے ملک کے عوام کو بچانا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سندھ میں گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو مسائل کا سامنا ہے اور متعدد اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہیں جس میں ایک اہم منصوبہ لیاری ایکسپریس وے بھی ہے جو برسوں کی تاخیر کے بعد بھی مکمل نہیں ہو رہا اور اس کی تعمیری لاگت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ وزیراعلیٰ اس کی جلد تکمیل کا ٹائم فریم دیں، اگر یہ اہم منصوبہ جلد مکمل نہ ہوا تو اس کا کیس مزید کارروائی کے لیے نیب کو بھیج دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اکثر شکایت کرتے رہے ہیں کہ سندھ کے ساتھ عدلیہ امتیاز برتتی ہے۔ لاڑکانہ کے وزیراعظم کو بحال نہیں کیا جاتا لاہور کے وزیراعظم کو بحال کردیا جاتا ہے۔ سندھ کے وزیراعظم کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور پنجاب کے وزیراعظم سے معاہدہ کرکے حکومت بیرون ملک بھیج دیتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وفاقی اداروں پر سندھ کے ساتھ امتیاز برتنے کا الزام لگایا ہے اور پیپلز پارٹی صرف ان حکومتی اقدامات اور عدالتی فیصلوں کو درست سمجھتی ہے جن کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہوا ہو۔ پیپلز پارٹی کی سابق چیئرمین بے نظیر بھٹو بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چمک کا فیصلہ قرار دیا کرتی تھیں اور پیپلز پارٹی کے حق میں ہونے والے فیصلوں کو حق کی فتح قرار دیا کرتی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کے زیادہ فیصلے پنجاب میں ہوئے جہاں سے انھیں تمام مقدمات میں رہائی ملی اور اب پنجاب کی احتساب عدالتوں سے سابق وزیراعظم کو ریلیف نہ ملنے کی شکایات ہیں، جب کہ عدالتیں سندھ و پنجاب کو نہیں حقائق پر فیصلے دیتی ہیں اور ان کی نظر میں صوبوں کو نہیں دیکھا جاتا مگر پیپلز پارٹی عدالتی فیصلوں کو صوبائی رنگ دیتی آئی ہے۔
سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف جتنے سخت ریمارکس اور فیصلے آئے اتنے سخت ریمارکس یا فیصلے کبھی وفاق یا پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں کے خلاف نہیں آئے۔ کرپشن کی سب سے زیادہ شکایات سندھ میں ہیں، اگر سندھ میں واقعی گڈ گورننس ہوتی تو سندھ حکومت کو گزشتہ 9 سال میں عدالتوں سے ناپسندیدہ فیصلے نہ ملتے اور نہ سندھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اداروں اور عدلیہ سے شکایات ہوتیں۔
شرجیل میمن پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ اسمبلی کے رکن اور سابق صوبائی وزیر ہیں، جن کے خلاف نیب عدالت میں محکمہ اطلاعات میں اربوں روپے کی کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے، جس میں شرجیل میمن بحیثیت سابق وزیر اطلاعات ملزم ہیں تو ان کے ساتھ محکمہ اطلاعات کے سابق افسران اور اشتہاری ایجنسیوں کے ذمے دار بھی ملوث ہیں۔
میاں نواز شریف پر اقامہ میں نااہلی کے بعد اب جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر تین مقدمات زیر سماعت ہیں۔ وہ برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور قومی رہنما ہیں جن کا کسی بھی صورت شرجیل میمن سے موازنہ درست نہیں ہے۔ شرجیل میمن اپنی وزارت میں ملک سے باہر گئے اور برسوں بعد واپس آئے اور آنے سے قبل انھوں نے کئی بار سندھ ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری منظور اور بعد میں توسیع کرائی، مگر وقت پر نہیں آئے، جس پر انھیں سندھ میں مزید توسیع نہیں ملی تو بعد میں وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت لے کر کراچی آئے، جہاں چند ماہ بعد شرجیل میمن و دیگر ملزمان کی ضمانتوں میں مزید توسیع نہ ہوئی تو گرفتاری کے بعد انھیں جیل بھیج دیا گیا، جو سندھ حکومت کے ماتحت ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین پیپلز پارٹی کے رہنما طویل گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے، جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات ہیں، وہ عدالت کی اجازت پر بیرون ملک گئے اور جلد آکر دوبارہ بیرون ملک دوبارہ چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی کوشش سے کرنسی اسمگلنگ کیس میں گرفتار ماڈل ایان علی ضمانت پر بیرون ملک گئیں اور واپس نہیں آئیں۔ عدالتیں اگر سندھ اور پیپلز پارٹی سے امتیازی سلوک کرتیں تو ایان کے ضامن اسحاق ڈار کے ضامن کی طرح عدالتوں میں پیش ہوکر جواب دے رہے ہوتے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان ایک بار حاضری پر نہ آئے تو ان کے قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور عدالت سے ان کی ضمانت منسوخی کی نوبت نہیں آئی، اس لیے نیب پر سندھ و پنجاب کے رہنماؤں کے مقدمات میں امتیاز برتنے کا الزام بھی بے بنیاد اور سیاسی پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں اور احتساب عدالتیں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔
سندھ کی صورتحال پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ متعدد بار سخت ریمارکس دے چکی ہیں اور حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں ریمارکس دیے کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے، لگتا ہے کہ ہمیں کراچی میں آکر 6 ماہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر تمام معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
اس سے قبل مضر صحت پانی کی فراہمی پر سپریم کورٹ نے کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ کو بھی طلب کیا جس طلبی کا وزیراعلیٰ نے برا مناتے ہوئے کہا کہ سندھ ہی نہیں پنجاب میں بھی پینے کے پانی کی بہت شکایات ہیں اور سپریم کورٹ صرف سندھ کو دیکھ رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ پانی کا مسئلہ پورے ملک ہی میں ہے جس کے سدباب کے لیے سندھ سے سپریم کورٹ نے ابتدا کی ہے اس میں امتیاز کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور ہمارا مقصد صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں مضر صحت پانی کے استعمال سے ملک کے عوام کو بچانا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سندھ میں گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو مسائل کا سامنا ہے اور متعدد اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہیں جس میں ایک اہم منصوبہ لیاری ایکسپریس وے بھی ہے جو برسوں کی تاخیر کے بعد بھی مکمل نہیں ہو رہا اور اس کی تعمیری لاگت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ وزیراعلیٰ اس کی جلد تکمیل کا ٹائم فریم دیں، اگر یہ اہم منصوبہ جلد مکمل نہ ہوا تو اس کا کیس مزید کارروائی کے لیے نیب کو بھیج دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اکثر شکایت کرتے رہے ہیں کہ سندھ کے ساتھ عدلیہ امتیاز برتتی ہے۔ لاڑکانہ کے وزیراعظم کو بحال نہیں کیا جاتا لاہور کے وزیراعظم کو بحال کردیا جاتا ہے۔ سندھ کے وزیراعظم کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور پنجاب کے وزیراعظم سے معاہدہ کرکے حکومت بیرون ملک بھیج دیتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وفاقی اداروں پر سندھ کے ساتھ امتیاز برتنے کا الزام لگایا ہے اور پیپلز پارٹی صرف ان حکومتی اقدامات اور عدالتی فیصلوں کو درست سمجھتی ہے جن کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہوا ہو۔ پیپلز پارٹی کی سابق چیئرمین بے نظیر بھٹو بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چمک کا فیصلہ قرار دیا کرتی تھیں اور پیپلز پارٹی کے حق میں ہونے والے فیصلوں کو حق کی فتح قرار دیا کرتی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کے زیادہ فیصلے پنجاب میں ہوئے جہاں سے انھیں تمام مقدمات میں رہائی ملی اور اب پنجاب کی احتساب عدالتوں سے سابق وزیراعظم کو ریلیف نہ ملنے کی شکایات ہیں، جب کہ عدالتیں سندھ و پنجاب کو نہیں حقائق پر فیصلے دیتی ہیں اور ان کی نظر میں صوبوں کو نہیں دیکھا جاتا مگر پیپلز پارٹی عدالتی فیصلوں کو صوبائی رنگ دیتی آئی ہے۔
سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف جتنے سخت ریمارکس اور فیصلے آئے اتنے سخت ریمارکس یا فیصلے کبھی وفاق یا پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں کے خلاف نہیں آئے۔ کرپشن کی سب سے زیادہ شکایات سندھ میں ہیں، اگر سندھ میں واقعی گڈ گورننس ہوتی تو سندھ حکومت کو گزشتہ 9 سال میں عدالتوں سے ناپسندیدہ فیصلے نہ ملتے اور نہ سندھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اداروں اور عدلیہ سے شکایات ہوتیں۔