سقوط ڈھاکا فکری اور قومی تقاضا
کچھ زخم قوموں کی تاریخ میں ایسے ہوتے ہیں جوہمیشہ احساس دلاتے ہیں کہ تاریخ کبھی بھی ناانصافی اور جبر کو معاف نہیں کرتی۔
مشہور مورخ ابن خلدون نے ''تاریخ'' کی تعریف بیان کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں لکھا ''تاریخ دنیا کے تمام علوم وفنون کا سرچشمہ اور گزرے ہوئے زمانے کا ایسا آئینہ ہے جس میں بزرگانِ سلف کے حالات، انبیائے کرام کی سیرتیں، حکمرانوں اور بادشاہوں کا طرز جہاں بانی و جہاں گیری، اقوام عالم کا طرز تمدن اور معلومات عامہ کو دیکھا جاسکتا ہے''۔
ایک قوم کی اجتماعی زندگی اور مجموعی طرز عمل پر سب سے گہرا اثر اس کی تاریخ کا ہوتا ہے، تاریخ ہی کے ذریعے قوموں کے مدوجزر، عروج وزوال اور ترقی وانحطاط کی راہیں متعین ہوتی ہیں، قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت سے ماضی کی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غلطیوں کا پتہ چلتا ہے اور دلوں میں ندامت وشرمندگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
مطالعہ تاریخ سے ہی قوموں میں حوصلہ، بلندی اور عزائم میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زندہ اور باشعور قوم اپنی تاریخ رقم کرنے، اس کو محفوظ رکھنے اور ممکنہ حد تک اس کی تبلیغ واشاعت کرنے کی پوری سعی و کوشش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جو اپنی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے مٹا رہے ہیں۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے بانی اور قائد محمد علی جناح کی 11 ستمبر 1947 کی تاریخی تقریر ہی تاریخ کے صفحات سے مٹا دی۔
اور یہ بھی کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم پاکستان کے نوجوانوں اور طالب علموں کو نہیں بتاتے کہ مشرقی پاکستان کے مسلمان تقسیم ہند کا ہراول دستہ تھے۔ ہم بڑے فخر سے یہ تو بتاتے ہیں کہ قرارداد پاکستان لاہور میں پیش کی گئی لیکن ہم پاکستانی عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو یہ نہیں بتاتے کہ قرار داد پاکستان پاس ہوتے وقت پنجاب میں پاکستان مخالف یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ خیبرپختونخوا میں اسفند یار ولی کے دادا باچا خان لیڈر تھے، وہ پاکستان کے مخالف تھے۔ ہم یوم پاکستان مناتے وقت یہ نہیں بتاتے کہ قرارداد پاکستان مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔
ہم اپنی نوجوان نسل کو یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان بنانے میں شیر بنگال مولانا فضل الحق اور بنگال کے مسلمانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ حسین شہید سہروردی تقسیم ہند سے پہلے واحد مسلم لیگی وزیراعلیٰ تھے، یہ واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ بنگال نے قیام پاکستان کا ساتھ دیا، ہم نے تحفہ میں انھیں کیا دیا؟ ہم نے بنگال کے رہنماؤں کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا، جو قائداعظم اور پاکستان کے وفادار تھے۔ مشرق و مغرب میں مقبول ترین مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی کی اسمبلی رکنیت نہ صرف منسوخ کی گئی، بلکہ انھیں بھارتی ایجنٹ بھی قرار دیا گیا تھا۔
1946 کے انتخابات میں جو لوگ یوپی، دہلی اور دیگر مسلم اقلیتی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے قیام پاکستان کے بعد انھیں مشرقی پاکستان کی سیٹوں پر ایڈجسٹ کیا گیا جب کہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلی میں سکھوں اور ہندوؤں کی خالی نشست پر کسی مہاجر کو ایڈجسٹ نہیں کیا گیا۔ اصولی طور پر مشرقی پاکستان کی خالی سیٹ پر وہاں کے لوگوں کو منتخب کیا جانا چاہیے تھا مگر ہم نے پہلے دن سے مشرقی پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلاف کی پہلی اینٹ قومی زبان کی بنیاد پر رکھی گئی۔
فروری 1952 میں ''لینگویج رائٹ'' کے موقع پر لاوا پھٹ گیا، مشرقی پاکستان میں لسانی فسادات ہوئے، بنگالی زبان کی بات کرنے پر بنگالیوں پر گولی چلائی گئی، جس کے بعد نفرتیں اور پیدا ہوئیں۔ کسی کا ایک بازو کٹ جائے تو وہ اس حادثے کو نہیں بھولتا۔ ہم ایک ایسی بدنصیب قوم ہیں جو سقوط ڈھاکا جیسے سانحے کو بھول گئی، ہم نے اپنی تاریخ سے اپنے بچوں کو دور کیا، ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کیا، ہم نے کتابوں سے مشرقی پاکستان کا ذکر تک نکال دیا۔
آج کی نسل کے بچوں سے مشرقی پاکستان کے بارے میں معلوم کریں تو انھیں معلوم نہیں کہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا، ہم نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے اپنی تاریخ کو مسخ کیا، ہم اپنی تاریخ کو بھول گئے۔ تاریخ سے نہ مظالم کو مٹایا جاسکتا اور نہ ہی تاریخ کو بدلا جاسکتا ہے۔ قوموں کے بحیثیت مجموعی اہداف و مقاصد کے تعین میں سب سے بڑا عمل دخل اس کی تاریخ کا ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم کا اپنی تاریخ سے بڑا گہرا تعلق اور رشتہ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ 16 دسمبر کا دن جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کے لیے انتہائی اہم بھی ہے اور اپنے اندر متضاد معنی اور جذبات بھی رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے جہاں یہ ان کی آزادی کا دن ہے ، وہاں پاکستانیوں کے لیے یہ دن تاریخ کے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1971 کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ایک بڑے ہجوم کی موجودگی میں مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل نیازی کے بھارتی فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے بعد ملک کے دونوں حصے ایک دوسرے سے عملی اور قانونی طور پر الگ ہوگئے تھے۔
کچھ زخم قوموں کی تاریخ میں ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ تاریخ کبھی بھی ناانصافی اور جبر کو معاف نہیں کرتی۔ سقوط ڈھاکا ایک ایسا باب اور ایک ایسی تلخ تاریخ ہے جس پر تحقیق اور تفتیش کی جانی چاہیے۔ وطن عزیز دولخت کیوں ہوا؟ بنگلہ دیش کیوں بنا؟ سقوط ڈھاکا کی وجوہات کیا ہیں؟ کون لوگ اس سانحہ کے ذمے دار تھے؟ ان سوالات کو ہم 46 برسوں سے سیاسی مصلحتوں اور جھوٹ کی سیاہی سے چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو دہائیوں تک عوام سے چھپا کر رکھا گیا اور ہم سقوط ڈھاکا کی عجیب و غریب توجیہات پیش کرتے رہے۔
ہماری تاریخ میں شیخ مجیب کو غدار لکھا جاتا ہے مگر ہم نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی کوشش کی، شیخ مجیب الرحمن جو مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا بڑا متحرک لیڈر تھا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا تھا، وہ قائداعظم کا خطاب سننے کئی کئی سو میل سائیکل پر سفر کر کے آتا تھا، پھر ایسا اچانک کیا ہوا کہ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش شخص اچانک پاکستان سے متنفر ہوگیا۔ ایک پاکستانی، غدار بن گیا۔
سرکاری طور پر آج بھی حمودالرحمان رپورٹ کی سفارشات صیغہ راز ہیں مگر جو حصے غیر سرکاری طور پر منظر عام پر آئے ہیں اس سے بہت سے راز کھل کر سامنے آچکے ہیں، لہٰذا سقوط ڈھاکا کے المناک سانحے کا علمی، فکری اور قومی تقاضا ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے۔ سزا اور جزا کے عمل سے آگے بڑھ کر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ایسی تمام غلطیوں پر بند باندھا جائے جس کے عمل سے اس طرح کے سانحات پیش آتے ہیں۔