پیپلز پارٹی یوتھ ونگ کا جلسہ
طلبا کی تمام تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی۔
امید تو یہ تھی کہ یہ جلسہ ماضی کی پارٹی کا ایک عکس ہوگا، مگر گزشتہ اتوار کو جو تقاریر کی گئیں ایسا لگا کہ مجموعی طور پر یہ بلاول بھٹو کا تعارفی جلسہ ہے۔ بلاول بھٹو کو لوگ بچہ کہتے ہیں، اس پر ایک مقرر مولا بخش چانڈیو نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بچہ کہا گیا تھا۔
جہاں تک میری یادداشت ہے 1968ء سے این ایس ایف بھٹو کے لیے جان و دل سے فدا رہی ہے مگر بھٹو کو بچہ کا لفظ کسی مخالف نے بھی ادا نہ کیا، کیونکہ لفظ بچپنا تو ان کے قریب سے بھی کبھی نہ گزرا تھا، ہاں جذباتیت ان پر دوران گفتگو غالب آجاتی تھی، مگر ان کی گفتگو میں ندرت خیال اور عوامی امنگوں کے گیت پوشیدہ ہوتے تھے، جو لوگوں کو ان کے قریب کھینچ لاتے تھے۔ لوگوں کے مسائل اور مستقبل کے خواب ان کی تقریر میں رقص کرتے تھے، مگر اس جلسہ گاہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے منشور کی جھلک بھی نہ دکھائی گئی اور اب سوشلزم کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔
ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتے تھے اسلام ہمارا دین ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ جاگیرداری سماج کی بات تو بڑی دور کی ہے، کون کرے گا زرعی اصلاحات، جس سے پاکستان میں اناج کی پیداوار دگنا ہوجائے گی اور نہ نئے خطوط پر نئی نسل کو لگانے والا کوئی ہے۔ نواز شریف سے تو زرعی اصلاحات کی نہ کوئی توقع ہے اور نہ مستقبل میں کوئی امید ہے۔ زراعت پر غور و فکر کرنے والے لوگوں کو پارٹی میں آنے بھی نہیں دیا جاتا، جمہوریت کا شعور نہیں، بس شور مچا رکھا ہے۔
مقررین میں بھٹو دور کے مجاہدین نہیں۔ یہ تو بیگم نصرت بھٹو تھیں جن کو وڈیروں نے گمراہ کردیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو وکیلوں کے مباحثے سے باہر آنے کو ہیں لہٰذا کوئی مظاہرہ نہ کیا جائے، سو ایسا ہی ہوا۔ مگر بھٹو کو شہید کردیا گیا اور جمہوریت ڈی ریل ہوگئی اور آج تک عوام زبردست مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو خیرباد کردیا گیا۔ وہ منشور کیا ہوگیا جو پیپلز پارٹی نے اول اول ترتیب دیا تھا۔ جنرل ضیا نے تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھادیا تھا مگر وہ ان کے نظریے کو تو پھانسی نہ چڑھا سکا۔ ان کے نظریے اور نعروں کو کس نے ختم کیا؟ کوئی آمر نہ ختم کرسکا۔
دختر بھٹو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد تو بھٹو کی وہ آواز بھی جاتی رہی جو مزدوروں، طلبا اور کسانوں کی امید تھی۔ البتہ ایک بات جو اس جلسے میں اہمیت کی حامل ہے وہ نفیسہ شاہ کی گفتگو ہے۔ ایک عرصے کے بعد یہ آواز پی پی کے پلیٹ فارم سے آئی ہے کہ طلبا یونینوں کی بحالی کی امید نے ان لوگوں کو یہ امید دلائی ہے کہ نئی روشنی پھیلنے کو ہے، کیونکہ ضیا الحق نے جمہوریت کے جو نمایندے چھوڑے انھوں نے تو ملک کو گردن تک ادھار کے بوجھ میں ڈبو دیا ہے۔ اب اگر مزید قرض لیا گیا تو ملک ڈوبنے لگے گا۔ آخر قرض کی معیشت پر اتنا ناز کیوں کر؟
محض پنجاب کے ایک شہر کو کاسمیٹک چینج (Cosmatic Change) سے اپنی ترقی کو نمایاں کیا اور اس کو ترقی کا نام دیا گیا۔ نواز کی اس نمائش میں پیپلز پارٹی کا تعاون رہا ہے جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ مگر اب بظاہر پیپلز پارٹی نے الگ لائن لی ہے جو نفیسہ شاہ کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی بات جو نواز شریف کو بالکل گوارا نہیں، کیونکہ سینیٹ میں رضا ربانی کی جانب سے آوازیں آتی رہیں، مگر برس ہا برس بیت گئے مگر تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونین بحالی ایک خواب بن کر رہ گئی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ آواز بلند ہوئی تو ایسا لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کہیں تو ان کے دل میں بیٹھے ہیں، جو انھوں نے یہ بات کہی ہے، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی لانچنگ اور الیکشن کمپین طلبا یونین کا کرشمہ تھی۔ جو وہ اپنے خرچ پر رواں دواں تھے۔ ہم نے ہر اسٹیشن پر جو مناظر دیکھے، بھلائے نہ جائیں گے۔
یہ سب طلبا یونینوں کے وجود کا نتیجہ تھا۔ انھی یونینوں کے دو نمایندے معراج محمد خان اور امیر حیدر کاظمی پیپلز پارٹی کے روح رواں رہ چکے تھے، لہٰذا طلبا یونین کی بحالی نوجوانوں کی شریانوں میں نئے خون کی گردش کا اعلان ہوگا اور جس انداز میں نفیسہ شاہ نے جس وسیع تر ڈائیلاگ کا اعلان کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں خاصی سنجیدہ ہیں اور وہ پارٹی کو فعال کرنے میں کوشاں ہیں۔ گو نفیسہ شاہ کی ایک یا دو بار گفتگو سنی ہے، زیادہ نہیں، مگر ان میں نعرے بازی کے پہلو نہیں، تفکر اور مکالمہ کی صفت موجود ہے۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ جو کوششیں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کر رہے ہیں، ان کو قوت عطا ہو۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ 40 سال سے طلبا یونین پر پابندی ہے تو یہ بحال کیوں نہیں ہوتیں؟ آخر اس سے ملک کو کیا فائدے حاصل ہوئے۔ اسمبلی کے ممبران سے پوچھیں تو وہ اس کی غیر منطقی وجوہات بتاتے ہیں۔ جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ اکثر کورم پورا نہیں ہوتا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسمبلی کے ممبران سیاسی شعور سے ناآشنا ہیں، خصوصاً قومی اسمبلی، جب کہ ان کا بنیادی مسئلہ ہی سیاسی امور پر مباحثہ اور ان کا حل ہے۔ دوم یہ بھی مسئلہ ہے درحقیقت تمام پارٹیوں کے سربراہان نہیں چاہتے کہ طلبا یونین بحال ہوں، کیونکہ حقیقی عوامی مسائل پر کہیں مباحثے نہ شروع ہوجائیں۔
آج کل تو میڈیا پر بھی عوامی مسائل نہیں لائے جاتے، بلکہ رسہ کشی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے اور مذہبی جذبات کو ابھار کر تصادم کی انتہائی عبرت ناک صورت حال پیدا کی جا رہی ہے۔ طلبا یونین کی بحالی کے بعد عوامی مسائل طلبا لیڈر اٹھائیں گے، لہٰذا مذہبی لیڈروں کی وہ اہمیت نہ رہے گی جو آج کل ہے۔ کیونکہ فیسوں کے مسائل، داخلے کے مسائل، ٹرانسپورٹ اور ملحقہ معاملات اولیت حاصل کرجائیں گے۔ یہ نہ ہوگا کہ بلاوجہ قیمتیں بڑھائی جائیں، جیساکہ آج کل برس ہا برس سے ہو رہا ہے۔
60 روپے ایک ڈالر پر جنرل مشرف نے حکومت چھوڑی تھی اور اب جمہوریت میں ایک ڈالر ایک سو بارہ روپے کا ہے، مگر ملک ترقی کر رہا ہے، کیونکہ ایک طبقے کو کرپشن کے مواقع کافی حد تک حاصل ہیں اور جو اس بہتی گنگا میں نہیں کود سکتا اس کی زندگی تلخ ہے۔
طلبا ملک کی واحد قوت ہیں جو کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوتے۔ بس ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو نقل بازی کرتا ہے یا رشوت دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے ورنہ اس کو کسی قسم کے غیر انسانی راستوں کو اختیار کرنا نہیں ہوتا۔ کالج یونین خود ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی ہے جس کو اپنے اخراجات کو گوناگوں مسائل پر خرچ کرنے ہوتے ہیں اور خاص طور سے تعلیمی اور اسپورٹس کے مسائل، اسپورٹس کے مقابلے خود ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا ہے اور تعلیمی کرپشن ممکن نہیں۔
گزشتہ 40 برسوں میں تعلیمی اداروں میں کرپشن اس قدر فروغ پائی کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں، لہٰذا نام نہاد تعلیمی اداروں خصوصاً کمرشل ایجوکیشن سے وابستہ ادارے نوٹ چھاپنے کی مشین بن گئے ہیں اور متعلقہ طلبا بھی، جو ایک بہت چھوٹا طبقہ ہے اور وسائل سے مزین ہے، ان کا زیور ہے، جس سے علم برائے فروخت کی دوڑ ہے۔ لہٰذا متوسط طبقہ اس راستے پر چل سکنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کو اس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
طلبا کی تمام تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی اور باہمی نظریات کا جھگڑا ختم کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، باوجود بڑی بے قاعدگی کے پیپلز پارٹی چونکہ بھٹو شہید کا علم بلند کیے ہوئے ہے، ان سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ طلبا یونین کی بحالی پر زور دیں گے۔ شاید پی پی کو یہ علم نہیں کہ طلبا یونین کی بحالی سے پی پی کو کس قدر مضبوط سیاسی مہمیز لگے گی، جس کا عندیہ نفیسہ شاہ نے دیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے پاکستان میں طلبا کو ایک نیا جذبہ ملے گا اور وہ ہمیشہ پی پی کے ممنون رہیں گے۔
جہاں تک میری یادداشت ہے 1968ء سے این ایس ایف بھٹو کے لیے جان و دل سے فدا رہی ہے مگر بھٹو کو بچہ کا لفظ کسی مخالف نے بھی ادا نہ کیا، کیونکہ لفظ بچپنا تو ان کے قریب سے بھی کبھی نہ گزرا تھا، ہاں جذباتیت ان پر دوران گفتگو غالب آجاتی تھی، مگر ان کی گفتگو میں ندرت خیال اور عوامی امنگوں کے گیت پوشیدہ ہوتے تھے، جو لوگوں کو ان کے قریب کھینچ لاتے تھے۔ لوگوں کے مسائل اور مستقبل کے خواب ان کی تقریر میں رقص کرتے تھے، مگر اس جلسہ گاہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے منشور کی جھلک بھی نہ دکھائی گئی اور اب سوشلزم کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔
ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتے تھے اسلام ہمارا دین ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ جاگیرداری سماج کی بات تو بڑی دور کی ہے، کون کرے گا زرعی اصلاحات، جس سے پاکستان میں اناج کی پیداوار دگنا ہوجائے گی اور نہ نئے خطوط پر نئی نسل کو لگانے والا کوئی ہے۔ نواز شریف سے تو زرعی اصلاحات کی نہ کوئی توقع ہے اور نہ مستقبل میں کوئی امید ہے۔ زراعت پر غور و فکر کرنے والے لوگوں کو پارٹی میں آنے بھی نہیں دیا جاتا، جمہوریت کا شعور نہیں، بس شور مچا رکھا ہے۔
مقررین میں بھٹو دور کے مجاہدین نہیں۔ یہ تو بیگم نصرت بھٹو تھیں جن کو وڈیروں نے گمراہ کردیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو وکیلوں کے مباحثے سے باہر آنے کو ہیں لہٰذا کوئی مظاہرہ نہ کیا جائے، سو ایسا ہی ہوا۔ مگر بھٹو کو شہید کردیا گیا اور جمہوریت ڈی ریل ہوگئی اور آج تک عوام زبردست مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو خیرباد کردیا گیا۔ وہ منشور کیا ہوگیا جو پیپلز پارٹی نے اول اول ترتیب دیا تھا۔ جنرل ضیا نے تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھادیا تھا مگر وہ ان کے نظریے کو تو پھانسی نہ چڑھا سکا۔ ان کے نظریے اور نعروں کو کس نے ختم کیا؟ کوئی آمر نہ ختم کرسکا۔
دختر بھٹو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد تو بھٹو کی وہ آواز بھی جاتی رہی جو مزدوروں، طلبا اور کسانوں کی امید تھی۔ البتہ ایک بات جو اس جلسے میں اہمیت کی حامل ہے وہ نفیسہ شاہ کی گفتگو ہے۔ ایک عرصے کے بعد یہ آواز پی پی کے پلیٹ فارم سے آئی ہے کہ طلبا یونینوں کی بحالی کی امید نے ان لوگوں کو یہ امید دلائی ہے کہ نئی روشنی پھیلنے کو ہے، کیونکہ ضیا الحق نے جمہوریت کے جو نمایندے چھوڑے انھوں نے تو ملک کو گردن تک ادھار کے بوجھ میں ڈبو دیا ہے۔ اب اگر مزید قرض لیا گیا تو ملک ڈوبنے لگے گا۔ آخر قرض کی معیشت پر اتنا ناز کیوں کر؟
محض پنجاب کے ایک شہر کو کاسمیٹک چینج (Cosmatic Change) سے اپنی ترقی کو نمایاں کیا اور اس کو ترقی کا نام دیا گیا۔ نواز کی اس نمائش میں پیپلز پارٹی کا تعاون رہا ہے جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ مگر اب بظاہر پیپلز پارٹی نے الگ لائن لی ہے جو نفیسہ شاہ کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی بات جو نواز شریف کو بالکل گوارا نہیں، کیونکہ سینیٹ میں رضا ربانی کی جانب سے آوازیں آتی رہیں، مگر برس ہا برس بیت گئے مگر تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونین بحالی ایک خواب بن کر رہ گئی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ آواز بلند ہوئی تو ایسا لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کہیں تو ان کے دل میں بیٹھے ہیں، جو انھوں نے یہ بات کہی ہے، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی لانچنگ اور الیکشن کمپین طلبا یونین کا کرشمہ تھی۔ جو وہ اپنے خرچ پر رواں دواں تھے۔ ہم نے ہر اسٹیشن پر جو مناظر دیکھے، بھلائے نہ جائیں گے۔
یہ سب طلبا یونینوں کے وجود کا نتیجہ تھا۔ انھی یونینوں کے دو نمایندے معراج محمد خان اور امیر حیدر کاظمی پیپلز پارٹی کے روح رواں رہ چکے تھے، لہٰذا طلبا یونین کی بحالی نوجوانوں کی شریانوں میں نئے خون کی گردش کا اعلان ہوگا اور جس انداز میں نفیسہ شاہ نے جس وسیع تر ڈائیلاگ کا اعلان کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں خاصی سنجیدہ ہیں اور وہ پارٹی کو فعال کرنے میں کوشاں ہیں۔ گو نفیسہ شاہ کی ایک یا دو بار گفتگو سنی ہے، زیادہ نہیں، مگر ان میں نعرے بازی کے پہلو نہیں، تفکر اور مکالمہ کی صفت موجود ہے۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ جو کوششیں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کر رہے ہیں، ان کو قوت عطا ہو۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ 40 سال سے طلبا یونین پر پابندی ہے تو یہ بحال کیوں نہیں ہوتیں؟ آخر اس سے ملک کو کیا فائدے حاصل ہوئے۔ اسمبلی کے ممبران سے پوچھیں تو وہ اس کی غیر منطقی وجوہات بتاتے ہیں۔ جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ اکثر کورم پورا نہیں ہوتا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسمبلی کے ممبران سیاسی شعور سے ناآشنا ہیں، خصوصاً قومی اسمبلی، جب کہ ان کا بنیادی مسئلہ ہی سیاسی امور پر مباحثہ اور ان کا حل ہے۔ دوم یہ بھی مسئلہ ہے درحقیقت تمام پارٹیوں کے سربراہان نہیں چاہتے کہ طلبا یونین بحال ہوں، کیونکہ حقیقی عوامی مسائل پر کہیں مباحثے نہ شروع ہوجائیں۔
آج کل تو میڈیا پر بھی عوامی مسائل نہیں لائے جاتے، بلکہ رسہ کشی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے اور مذہبی جذبات کو ابھار کر تصادم کی انتہائی عبرت ناک صورت حال پیدا کی جا رہی ہے۔ طلبا یونین کی بحالی کے بعد عوامی مسائل طلبا لیڈر اٹھائیں گے، لہٰذا مذہبی لیڈروں کی وہ اہمیت نہ رہے گی جو آج کل ہے۔ کیونکہ فیسوں کے مسائل، داخلے کے مسائل، ٹرانسپورٹ اور ملحقہ معاملات اولیت حاصل کرجائیں گے۔ یہ نہ ہوگا کہ بلاوجہ قیمتیں بڑھائی جائیں، جیساکہ آج کل برس ہا برس سے ہو رہا ہے۔
60 روپے ایک ڈالر پر جنرل مشرف نے حکومت چھوڑی تھی اور اب جمہوریت میں ایک ڈالر ایک سو بارہ روپے کا ہے، مگر ملک ترقی کر رہا ہے، کیونکہ ایک طبقے کو کرپشن کے مواقع کافی حد تک حاصل ہیں اور جو اس بہتی گنگا میں نہیں کود سکتا اس کی زندگی تلخ ہے۔
طلبا ملک کی واحد قوت ہیں جو کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوتے۔ بس ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو نقل بازی کرتا ہے یا رشوت دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے ورنہ اس کو کسی قسم کے غیر انسانی راستوں کو اختیار کرنا نہیں ہوتا۔ کالج یونین خود ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی ہے جس کو اپنے اخراجات کو گوناگوں مسائل پر خرچ کرنے ہوتے ہیں اور خاص طور سے تعلیمی اور اسپورٹس کے مسائل، اسپورٹس کے مقابلے خود ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا ہے اور تعلیمی کرپشن ممکن نہیں۔
گزشتہ 40 برسوں میں تعلیمی اداروں میں کرپشن اس قدر فروغ پائی کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں، لہٰذا نام نہاد تعلیمی اداروں خصوصاً کمرشل ایجوکیشن سے وابستہ ادارے نوٹ چھاپنے کی مشین بن گئے ہیں اور متعلقہ طلبا بھی، جو ایک بہت چھوٹا طبقہ ہے اور وسائل سے مزین ہے، ان کا زیور ہے، جس سے علم برائے فروخت کی دوڑ ہے۔ لہٰذا متوسط طبقہ اس راستے پر چل سکنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کو اس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
طلبا کی تمام تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی اور باہمی نظریات کا جھگڑا ختم کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، باوجود بڑی بے قاعدگی کے پیپلز پارٹی چونکہ بھٹو شہید کا علم بلند کیے ہوئے ہے، ان سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ طلبا یونین کی بحالی پر زور دیں گے۔ شاید پی پی کو یہ علم نہیں کہ طلبا یونین کی بحالی سے پی پی کو کس قدر مضبوط سیاسی مہمیز لگے گی، جس کا عندیہ نفیسہ شاہ نے دیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے پاکستان میں طلبا کو ایک نیا جذبہ ملے گا اور وہ ہمیشہ پی پی کے ممنون رہیں گے۔