کیا راہول گاندھی مودی کو گرا سکیں گے

راہول کا سفر بہت طویل اور کٹھن ہے مگر اس میں کامیابی کے لیے انھیں استقامت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔


کلدیپ نئیر December 22, 2017

ISLAMABAD: بھارتی انتخابات کی افراتفری میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے کردار کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ بے شک مقابلہ نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان ہے لیکن اصل مخاصمت کانگریس اور بی جے پی میں ہے جس میں سونیا گاندھی کی لامحالہ بہت اہمیت ہے۔

گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کی جیت کو تمام سیاسی جائزے نوشتہ دیوار بتا رہے تھے جو کہ درست ثابت ہوئے۔ کانگریس نے 80 نشستیں جیتیں جب کہ بی جے پی99 نشستیں لے گئی۔ جیت کے تناسب کے علاوہ اور کوئی قیاس آرائی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ کانگریس کے ووٹوں کی شرح میں بہتری آئی ہے۔ یہ پارٹی جو گزشتہ چند برس سے بے یقینی کا شکار تھی اب اس میں بہتری کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے ووٹوں میں فرق کم رہ گیا ہے اور لگنے لگا ہے کہ راہول وزیراعظم مودی کو سخت مقابلہ دیں گے۔ اس کا کریڈٹ سونیا گاندھی کو جاتا ہے جنہوں نے ایک بار پھر پارٹی میں زندگی کی لہر پیدا کر دی ہے۔

سونیا نے 2004ء میں عام انتخابات میں فتح حاصل کی تھی۔ اس موقع پر میں پارلیمنٹ کے مرکزی ہال کمرے میں موجود تھا۔ اراکین پارلیمنٹ متفقہ طور پر سونیا پر زور دے رہے تھے کہ وہ حکومت بنائیں لیکن وہ ایسا کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔ غالباً ان کے ذہن میں یہ پراپیگنڈا تھا کہ وہ بھارتی نہیں بلکہ اطالوی نژاد ہیں۔ اور انھیں اس بات کا بھی شعور تھا کہ اگر ان کے بیٹے راہول کے بارے میں بھی اطالوی نژاد ہونے کی بات پھیلا دی گئی تو اس کا بہت منفی اثر ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ سونیا نے بطور خاص ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا کیونکہ من موہن کے اپنے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے۔ وہ دو ٹرموں تک یعنی پورے دس سال ملک کے وزیراعظم رہے لیکن اس مدت میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ بھارتی حکومت کی اہم فائلیں پہلے جائزے کے لیے سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر جاتیں جہاں سے رسمی دستخطوں کے لیے وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھیجی جاتیں۔

سنجیا برو نے اس بات کی تصدیق ''حادثاتی وزیراعظم'' کے نام سے شایع کی جانے والی اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ سونیا گاندھی کو اس الزام کا علم تھا جو ان پر عائد کیا جاتا تھا لیکن چونکہ وہ اپنے بیٹے راہول کے لیے یہ نشست گرم رکھنا چاہتی تھی لہذا اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ البتہ من موہن سنگھ اس الزام کو تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ جب ان سے براہ راست یہ سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ''یہ تو وقت ہی بتائے گا''۔

یہ درست ہے کہ آج کانگریس پارٹی پر سونیا کی ساس اندرا گاندھی کی تصویر کی مہر لگتی ہے۔ لیکن پارٹی کو متحد رکھنے والی خود سونیا گاندھی ہیں۔ بصورت دیگر یہ پارٹی کئی شاخوں میں بٹ چکی ہوتی۔ سونیا کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ ان کو پارٹی کے تمام حلقے پارٹی لیڈر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ پارٹی کے اندر سونیا کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ جس آسانی کے ساتھ سونیا نے اپنے بیٹے راہول کو پارٹی کا صدر بنا دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا پارٹی پر کتنا مضبوط کنٹرول ہے۔

راہول کو کانگریس کے ایک خاندانی پارٹی ہونے کا احساس ہے البتہ راہول نے برسرعام کہا ہے کہ کانگریس کی سربراہی کے لیے بہتر شخصیت کا انتخاب غیرجانبدارانہ طور پر ہونا چاہیے۔ راہول کے ساتھ ہی خاندانی سیاست کا اختتام بھی عمل میں آ سکتا ہے۔ کانگریس پارٹی کے لیے آج مشکل یہ ہے کہ وہ خاندانی سیاست کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی۔ لیکن عوام خاندانی سیاست کے حق میں نظر نہیں آتے۔ راہول اگرچہ مخلصانہ طور پر اپنی پارٹی کے انھی اصولوں کی ترویج کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے بزرگوار جواہر لعل نہرو نے متعین کیے تھے۔

سونیا کی بیٹی پریانکا کو زیادہ بہتر عوامی پذیرائی حاصل ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پریانکا میں عوام کو ان کی دادی اندرا گاندھی کی جھلک نظر آتی ہے جو کہ اب بھی عوام کے خیالوں میں بستی ہیں۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن مجودہ دور میں کانگریس پارٹی اپنی اہمیت کھو چکی ہے جس کو دوبارہ اجاگر کرنے کے لیے پارٹی کو بہت زیادہ محنت کرنی ہو گی اور عوام کو یہ باور کرانا ہو گا کہ پارٹی متبادل قیادت مہیا کر سکتی ہے۔ وزیراعظم مودی نے اگرچہ کرنسی کے بڑے نوٹ منسوخ کر دیے پھر بھی وہ لوگوں کے لیے قابل قبول ہیں۔

عوام سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی بھلائی کی خاطر کیا گیا حالانکہ انھیں بڑی دقت بھی برداشت کرنی پڑی۔ لیکن اگر کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے نکالنا ہے تو اسے بہت طویل اور بہت سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرازم میں اب اتنی کشش نہیں رہی جتنی کہ نہرو کے زمانے میں تھی۔ اب تو لوگ خود بھی ہندوتوا سے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ آج پورے ملک میں ایک نرم ہندوتوا جاری ہے۔

بی جے پی بھارت کی تعمیر و ترقی کے دعوے کو پروان چڑھا رہا ہے لیکن ایک جمہوری اور سیکولر معاشرے میں اس کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ کانگریس کو اس مسئلہ کا سامنا ہے۔ اس کا نتیجہ 2019ء کے عام انتخابات میں سامنے آئے گا جب ملک کو نئی سمت دینے کا مقصد پورا ہو سکے گا لیکن کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کانگریس نے کوئی انتخاب نہیں جیتا۔ گجرات میں بی جے پی پھر اقتدار میں واپس آ گئی ہے۔ اس امر سے سیکولر سیاسی قوتوں کو تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے۔

بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے اس کے مقابلے میں کانگریس اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے جو کہ اسے ایک زمانے میں حاصل تھی۔ انتخابات کے دوران راہول گاندھی نے پورے ملک کے دورے کیے اور عوامی اجتماعات کا سامنا کیا۔ سونیا گاندھی ان کے ساتھ نہیں تھیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے راہول کو کانگریس کا نمایندہ تسلیم کر لیا ہے۔ راہول کے اندر بھی اعتماد بڑھ گیا ہے اور انھوں نے آتے ہی عوام سے خطاب شروع کر دیا۔ سونیا گاندھی کو اپنے آپ کو مبارکباد دینی چاہیے کیونکہ جب سے انھوں نے بیٹے کو پارٹی صدارت کی گدی پر بٹھایا ہے عوام کی طرف سے اسے قبول کر لیا گیا ہے۔

یہ درست ہے کہ خاندانی سیاست کا تاثر یہاں موجود ہے مگر اسے آمرانہ فیصلہ تصور نہیں کیا گیا۔ راہول نے پارٹی کیڈر کے ساتھ کام کیا ہے۔ انھوں نے ملک میں کئی مقامات کا دورہ کیا اور کئی جگہ وہ عام لوگوں کے ہمراہ زمین پر بھی بیٹھے جس سے ان کی عوامی سوچ کا پتہ چلتا ہے انھوں نے لوگوں کے ساتھ پارٹی کو درپیش چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

واضح رہے کانگریس پارٹی کے قیام کوکم از کم ڈیڑھ سو سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ راہول نے قدیمی اقدار کی بحالی کا حوالہ بھی دیا۔ اب اگر انھوں نے انھی خطوط پر پارٹی کو چلانے کی کوشش کی تو ان کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ راہول کا سفر بہت طویل اور کٹھن ہے مگر اس میں کامیابی کے لیے انھیں استقامت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں