ادبی احساسات کو جگانے والی 10 ویں عالمی اردو کانفرنس شروع
صوبائی وزیر ثقافت نے کانفرنس کا افتتاح کیا، جب علم اور اقتدار کو الگ کردیا جائے تو حکومتیں خراب ہوجاتی ہیں، احمد شاہ
آرٹس کونسل کے زیر اہتمام دسویں عالمی اْردو کانفرنس کا افتتاح گزشتہ شام ہوگیا تاہم یہ کانفرنس 5روز جاری رہے گی جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ادیب، دانشور، شعرا مختلف موضوعات پر مقالات پیش کریں گے۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ سیاست نے برصغیر کو توڑا تھا اور اْردو نے برصغیر کو جوڑ رکھا ہے، ہم ہر طرح کی شدت پسندی کا مقابلہ ادب و ثقافت سے کرسکتے ہیں، دہشت گردوں اور تنگ نظروں کے خلاف تخلیق کاروں کا بڑا کردار ہے، انھوں نے مزید کہا کہ جس کراچی کے کونے پر زہرہ نگاہ سمیت دیگر شعرا بیٹھے ہوں، لندن میں رضا علی عابدی ہوں، جرمنی میں عارف نقوی ہوں اور دہلی میں شمیم حنفی ہوں تو اْردو کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔
انھوں نے احمد شاہ کو مبارکباد دی کہ انھوں نے10سالوں سے اْردو کا میلہ بہت خوبصورت طریقے سے سجا رکھا ہے اور مختلف علاقوں سے آنے والے شعراکو کراچی میں جمع کرکے محبت کے پیغام کو عام کیا ہے، سندھ کی سرزمین فقرا اور درویشوں کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی ہمیشہ سے محبت و امن رہا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ میں نے کبھی بھی کسی کی برائی یاد نہیں رکھی ہمیشہ دوسروں کی اچھائیوں کو یاد رکھا ہے اپنے ملک اور شہر کو میں نے ہمیشہ محمد علی جناح ، بھلے شاہ ، صوفی تبسم، احمد فراز، گل جی سمیت دیگر شعرا اور ادباکی نظروں سے دیکھا ہے، بڑی بڑی تحریکیں دانشوروں نے شروع کی ہیں، جب علم اور اقتدار کو الگ کردیا جائے تو حکومتیں خراب ہوجاتی ہیں، میں نے ہمیشہ علم کی بنیاد پر لوگوں کو ترجیح دی ہے، ہم 25دسمبر کو قائداعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹیں گے، قبل ازیں پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے شائقین نے بڑی تعداد میں آمد پر شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں آنے والے مہمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جس کے باعث ہال میں جگہ کم رہ گئی، بعد ازاں باقی رہ جانے والے مہمانوں کو پروجیکٹر کے ذریعے اْردو کانفرنس کی کارروائی براہِ راست دکھائی گئی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دسویں عالمی اْردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر دْنیا اْردو کے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے کہا ہے کہ اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد سے معاشرے میں زندگی کا احساس ہوتا ہے ورنہ لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ مردہ ہوچکا ہے۔
آرٹس کونسل کراچی کی کانفرنس میں ہر سال ادیبوں اور ادب سے محبت کرنے والوں کومحبت کا ٹیکہ لگتا ہے جو سال بھر توانائیاں مہیا کرتا ہے،یہ دوستی کی اتنی بڑی محفل ہے کہ نہ صرف برصغیر بلکہ دْنیا بھر میں دوستیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے، بعض لوگوں نے زمیں کو تقسیم کرکے سرحدیں کھینچ دیں مگر ادب و زبان ان سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور یہی سب سے بڑی قوت ہے جس کا اظہار ہر سال آرٹس کونسل کراچی میں ہوتا ہے۔
ممتاز دانشور زہرہ نگاہ نے کہاکہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہر زمانے میں ادب اور فن کے تقدس کو بحال رکھا، اس طرح کی کانفرنسوں سے علم و ادب کے ساتھ ساتھ محبتیں بھی پھیلتی ہیں، ہندوستان سے آئے ہو ئے مہمان دانشور شمیم حنفی نے کہاکہ کبھی کبھی تھوڑا وقت بھی بہت لگتا ہے،10سال سے میں اس مجمعہ کو دیکھ رہا ہوں زبان و ادب اور سنجیدہ مسائل پر گفتگو کے لیے یہ زمانہ سازگار ہے، اس طرح کی کانفرنسوں میں ادب اور ثقافت کو تقویت ملتی ہے، فنون لطیفہ پر باتیں کرنا سرکش ہواؤں میں اپنا راستہ تلاش کرنے کے مترادف ہے ہمیں اپنے ورثے کی حفاظت کرنا چاہیے اس لیے ایسے اجتماعات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
افتخار عارف نے کہاکہ اْردو کو نادان دوستوں نے بہت نقصان پہنچایااور متنازع بنادیا گیا، پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ اْردو سے کوئی فاصلہ نہیں رکھتے جس شہر میں مرضی سے بچے اسکول نہیں جاسکتے تھے وہاں ایسی کانفرنسوں کا انعقاد آسان نہیں۔
رضا علی عابدی نے کہاکہ برطانیہ میں وائرس کا ایک ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس کے بعد انسان پورے سال تندرست رہتا ہے اور ہم اس کانفرنس میں ہر سال ٹیکہ لگوانے آتے ہیں،مسعود اشعر نے کہاکہ آج اس کانفرنس میں کثیر تعداد میں نوجوانوں کی آمد اس بات کی دلیل ہے کہ ہم جس ماحول میں زندہ ہیں وہ ادب کے خلاف مزاحمتی ماحول ہے۔
امینہ سید نے کہاکہ اْردو عالمی کانفرنس احمد شاہ کی جانب سے پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے، میں احمد شاہ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، اسد محمد خاں نے کہاکہ70 سالہ ادبی تاریخ کے حوالے سے یہ دسویں کانفرنس بلاشبہ ہم سب کے لیے افتخار کا باعث ہے دوستوں کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔
امجد اسلام امجد نے کہاکہ یہ اْردو کانفرنس زبان و ادب کے حوالے سے منعقد ہورہی ہے یہاں آکر نئی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے،یاسمین طاہر نے کہاکہ ان کانفرنسوں میں عام فہم گفتگو میں لوگوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے لہٰذا اس طرح کی کانفرنسیں منعقد ہونی چاہئیں،زاہدہ حنا نے کہاکہ کچھ لوگوں نے سرحدیں کھینچ لی ہیں جس پر لوگ فخر کرتے ہیں ادب ان میں بھی اپنا راستہ بناتا ہے، احمد شاہ کو مبارکبا د دیتی ہوں کہ یہ دسویں اْردو عالمی کانفرنس کررہے ہیں۔
قاضی افضال حسین نے کہاکہ یہ ادب ہے کہ انسان کی فضیلت کا درس دیتا ہے یہ ایک طرح کی معاشرتی جنگ ہے اور کشمکش ہے اْن لوگوں کے خلاف جو انسانوں کی فضیلت کے انکاری ہیں،جاپان سے آئے ہوئے مہمان دانشور ہیروجی کتاؤکا نے کہاکہ نوجوان اپنے کام اور زبان سے عشق کریں اور آگے بڑھیں اسی میں فائدہ ہے۔
جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی نے کہاکہ آرٹس کونسل میں آکر دْنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جو باعث افتخار ہے، آج جو عالمی حالات و خطرات ہیں اس میں بہتری لانے میں اْردو زبان بڑا کردار ادا کرسکتی ہے، دْنیا بھر میں اْردو کے مجاہد اس طرح کی کانفرنس منعقد کریں اور امن کا درس دیں، نعیم طاہر نے کہاکہ مریض کا سب سے اچھا علاج محبت اور عزت ہے، احمد شاہ ہر سال وافر مقدار میں اسے بڑھا رہے ہیں اور کوئی اس کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا،آرٹس کونسل کو ایک جن چمٹ گیا ہے جو اس کو بہتر سے بہتر بناتا جارہا ہے۔
کشور ناہید نے کہاکہ یہ دسویں سالانہ کانفرنس ہے اور ہر سال زندگی اور ادب پر بھاری ہوتے جارہے ہیں مگر احمد شاہ ابھی بھی سدابہار ہیں،ہر طرح کی شدت پسندی کے خلاف ادیبوں اور شاعروں کو باہر نکلنا ہوگا،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ یہ کانفرنس دیر تک اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے، اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر سال نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو خوش آئند ہے۔
1947سے پہلے کا ادب اس کے بعد کے ادب کا رول ماڈل نہیں ہو سکتا
عالمی اْردو کانفرنس کے موقع پر بھارت سے آئے ہوئے معروف ادیب ، دانشور و نقاد شمیم حنفی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ستر برسوں کے سفر میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور اب زہرہ نگاہ سے لیکر نوجوان شعرا تک بڑی فہرست ہے جس پر روشنی ڈالنے کے لیے دِلّی سے کراچی تک بڑا آلاؤروشن کرنا ہوگا، آزادی کے بعد جو دْنیا ہمیں ملی اس کا عکس لوگوں کے ماتھوں پر لکھا ہوا ہے، تحریر لکھنے والے کی نسبت بہت زیادہ بڑی ہوتی ہے، 70برسوں کا ادب آج کے تجربات کا ہے، 1947 سے پہلے کا ادب اس کے بعد کے ادب کا رول ماڈل نہیں ہوسکتا، آج ہمارا تصادم زماں سے زیادہ مکاں سے ہے، جینا ایک کاروبار بن چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عام فہم زبان میں اپنی بات بیان کی جائے اور سادہ زبان کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
انھوں نے کہاکہ اخلاقی طور پر بعض اپاہج لوگ آرٹ اور ادب کا بازار سجائے بیٹھے ہیں جسے دیکھ کر تخلیق کار بھی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے، اگر ہم اْردو سمیت مختلف زبانوں کے ادب پر روشنی ڈالیں تو یہ بات واضح نظر آئے گی کہ تمام زبانوں کے ادب میں انسان دوستی ہی کو موضوع بنایا گیا ہے اور اہمیت دی گئی ہے۔
قبل ازیں ڈاکٹر مبین مرزا نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں جو لوگ شریک ہیں انھیں دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ان لوگوں سے سیکھا ہے کہ کتاب پڑھی کیسے جاتی ہے، زندگی کو سمجھنے کے لیے اگر مجھ میں صلاحیت پیدا ہوئی تو وہ صرف اور صرف ادب کی دین ہے، ادب مجھے اور آپ کو جیتے جی موت کے گھاٹ اْترنے سے بچاتا ہے، اسی ادب کے ذریعے بْرے بھلے میں تمیز محسوس کی جاتی ہے،مایوسی کے اندھیروں میں ادب نے ہی روشنی فراہم کی ہے اور ادب میری لائف لائن ہے،انھوں نے کہاکہ ادب مجھے پہلے جینا سکھاتا تھا اب یہ مجھے بقا کا راستہ بھی دکھا رہا ہے اور یہ بقا میرے لیے بھی ہے اور آپ کے لیے بھی۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ سیاست نے برصغیر کو توڑا تھا اور اْردو نے برصغیر کو جوڑ رکھا ہے، ہم ہر طرح کی شدت پسندی کا مقابلہ ادب و ثقافت سے کرسکتے ہیں، دہشت گردوں اور تنگ نظروں کے خلاف تخلیق کاروں کا بڑا کردار ہے، انھوں نے مزید کہا کہ جس کراچی کے کونے پر زہرہ نگاہ سمیت دیگر شعرا بیٹھے ہوں، لندن میں رضا علی عابدی ہوں، جرمنی میں عارف نقوی ہوں اور دہلی میں شمیم حنفی ہوں تو اْردو کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔
انھوں نے احمد شاہ کو مبارکباد دی کہ انھوں نے10سالوں سے اْردو کا میلہ بہت خوبصورت طریقے سے سجا رکھا ہے اور مختلف علاقوں سے آنے والے شعراکو کراچی میں جمع کرکے محبت کے پیغام کو عام کیا ہے، سندھ کی سرزمین فقرا اور درویشوں کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی ہمیشہ سے محبت و امن رہا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ میں نے کبھی بھی کسی کی برائی یاد نہیں رکھی ہمیشہ دوسروں کی اچھائیوں کو یاد رکھا ہے اپنے ملک اور شہر کو میں نے ہمیشہ محمد علی جناح ، بھلے شاہ ، صوفی تبسم، احمد فراز، گل جی سمیت دیگر شعرا اور ادباکی نظروں سے دیکھا ہے، بڑی بڑی تحریکیں دانشوروں نے شروع کی ہیں، جب علم اور اقتدار کو الگ کردیا جائے تو حکومتیں خراب ہوجاتی ہیں، میں نے ہمیشہ علم کی بنیاد پر لوگوں کو ترجیح دی ہے، ہم 25دسمبر کو قائداعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹیں گے، قبل ازیں پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے شائقین نے بڑی تعداد میں آمد پر شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں آنے والے مہمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جس کے باعث ہال میں جگہ کم رہ گئی، بعد ازاں باقی رہ جانے والے مہمانوں کو پروجیکٹر کے ذریعے اْردو کانفرنس کی کارروائی براہِ راست دکھائی گئی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دسویں عالمی اْردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر دْنیا اْردو کے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے کہا ہے کہ اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد سے معاشرے میں زندگی کا احساس ہوتا ہے ورنہ لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ مردہ ہوچکا ہے۔
آرٹس کونسل کراچی کی کانفرنس میں ہر سال ادیبوں اور ادب سے محبت کرنے والوں کومحبت کا ٹیکہ لگتا ہے جو سال بھر توانائیاں مہیا کرتا ہے،یہ دوستی کی اتنی بڑی محفل ہے کہ نہ صرف برصغیر بلکہ دْنیا بھر میں دوستیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے، بعض لوگوں نے زمیں کو تقسیم کرکے سرحدیں کھینچ دیں مگر ادب و زبان ان سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور یہی سب سے بڑی قوت ہے جس کا اظہار ہر سال آرٹس کونسل کراچی میں ہوتا ہے۔
ممتاز دانشور زہرہ نگاہ نے کہاکہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہر زمانے میں ادب اور فن کے تقدس کو بحال رکھا، اس طرح کی کانفرنسوں سے علم و ادب کے ساتھ ساتھ محبتیں بھی پھیلتی ہیں، ہندوستان سے آئے ہو ئے مہمان دانشور شمیم حنفی نے کہاکہ کبھی کبھی تھوڑا وقت بھی بہت لگتا ہے،10سال سے میں اس مجمعہ کو دیکھ رہا ہوں زبان و ادب اور سنجیدہ مسائل پر گفتگو کے لیے یہ زمانہ سازگار ہے، اس طرح کی کانفرنسوں میں ادب اور ثقافت کو تقویت ملتی ہے، فنون لطیفہ پر باتیں کرنا سرکش ہواؤں میں اپنا راستہ تلاش کرنے کے مترادف ہے ہمیں اپنے ورثے کی حفاظت کرنا چاہیے اس لیے ایسے اجتماعات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
افتخار عارف نے کہاکہ اْردو کو نادان دوستوں نے بہت نقصان پہنچایااور متنازع بنادیا گیا، پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ اْردو سے کوئی فاصلہ نہیں رکھتے جس شہر میں مرضی سے بچے اسکول نہیں جاسکتے تھے وہاں ایسی کانفرنسوں کا انعقاد آسان نہیں۔
رضا علی عابدی نے کہاکہ برطانیہ میں وائرس کا ایک ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس کے بعد انسان پورے سال تندرست رہتا ہے اور ہم اس کانفرنس میں ہر سال ٹیکہ لگوانے آتے ہیں،مسعود اشعر نے کہاکہ آج اس کانفرنس میں کثیر تعداد میں نوجوانوں کی آمد اس بات کی دلیل ہے کہ ہم جس ماحول میں زندہ ہیں وہ ادب کے خلاف مزاحمتی ماحول ہے۔
امینہ سید نے کہاکہ اْردو عالمی کانفرنس احمد شاہ کی جانب سے پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے، میں احمد شاہ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، اسد محمد خاں نے کہاکہ70 سالہ ادبی تاریخ کے حوالے سے یہ دسویں کانفرنس بلاشبہ ہم سب کے لیے افتخار کا باعث ہے دوستوں کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔
امجد اسلام امجد نے کہاکہ یہ اْردو کانفرنس زبان و ادب کے حوالے سے منعقد ہورہی ہے یہاں آکر نئی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے،یاسمین طاہر نے کہاکہ ان کانفرنسوں میں عام فہم گفتگو میں لوگوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے لہٰذا اس طرح کی کانفرنسیں منعقد ہونی چاہئیں،زاہدہ حنا نے کہاکہ کچھ لوگوں نے سرحدیں کھینچ لی ہیں جس پر لوگ فخر کرتے ہیں ادب ان میں بھی اپنا راستہ بناتا ہے، احمد شاہ کو مبارکبا د دیتی ہوں کہ یہ دسویں اْردو عالمی کانفرنس کررہے ہیں۔
قاضی افضال حسین نے کہاکہ یہ ادب ہے کہ انسان کی فضیلت کا درس دیتا ہے یہ ایک طرح کی معاشرتی جنگ ہے اور کشمکش ہے اْن لوگوں کے خلاف جو انسانوں کی فضیلت کے انکاری ہیں،جاپان سے آئے ہوئے مہمان دانشور ہیروجی کتاؤکا نے کہاکہ نوجوان اپنے کام اور زبان سے عشق کریں اور آگے بڑھیں اسی میں فائدہ ہے۔
جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی نے کہاکہ آرٹس کونسل میں آکر دْنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جو باعث افتخار ہے، آج جو عالمی حالات و خطرات ہیں اس میں بہتری لانے میں اْردو زبان بڑا کردار ادا کرسکتی ہے، دْنیا بھر میں اْردو کے مجاہد اس طرح کی کانفرنس منعقد کریں اور امن کا درس دیں، نعیم طاہر نے کہاکہ مریض کا سب سے اچھا علاج محبت اور عزت ہے، احمد شاہ ہر سال وافر مقدار میں اسے بڑھا رہے ہیں اور کوئی اس کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا،آرٹس کونسل کو ایک جن چمٹ گیا ہے جو اس کو بہتر سے بہتر بناتا جارہا ہے۔
کشور ناہید نے کہاکہ یہ دسویں سالانہ کانفرنس ہے اور ہر سال زندگی اور ادب پر بھاری ہوتے جارہے ہیں مگر احمد شاہ ابھی بھی سدابہار ہیں،ہر طرح کی شدت پسندی کے خلاف ادیبوں اور شاعروں کو باہر نکلنا ہوگا،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ یہ کانفرنس دیر تک اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے، اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر سال نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو خوش آئند ہے۔
1947سے پہلے کا ادب اس کے بعد کے ادب کا رول ماڈل نہیں ہو سکتا
عالمی اْردو کانفرنس کے موقع پر بھارت سے آئے ہوئے معروف ادیب ، دانشور و نقاد شمیم حنفی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ستر برسوں کے سفر میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور اب زہرہ نگاہ سے لیکر نوجوان شعرا تک بڑی فہرست ہے جس پر روشنی ڈالنے کے لیے دِلّی سے کراچی تک بڑا آلاؤروشن کرنا ہوگا، آزادی کے بعد جو دْنیا ہمیں ملی اس کا عکس لوگوں کے ماتھوں پر لکھا ہوا ہے، تحریر لکھنے والے کی نسبت بہت زیادہ بڑی ہوتی ہے، 70برسوں کا ادب آج کے تجربات کا ہے، 1947 سے پہلے کا ادب اس کے بعد کے ادب کا رول ماڈل نہیں ہوسکتا، آج ہمارا تصادم زماں سے زیادہ مکاں سے ہے، جینا ایک کاروبار بن چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عام فہم زبان میں اپنی بات بیان کی جائے اور سادہ زبان کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
انھوں نے کہاکہ اخلاقی طور پر بعض اپاہج لوگ آرٹ اور ادب کا بازار سجائے بیٹھے ہیں جسے دیکھ کر تخلیق کار بھی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے، اگر ہم اْردو سمیت مختلف زبانوں کے ادب پر روشنی ڈالیں تو یہ بات واضح نظر آئے گی کہ تمام زبانوں کے ادب میں انسان دوستی ہی کو موضوع بنایا گیا ہے اور اہمیت دی گئی ہے۔
قبل ازیں ڈاکٹر مبین مرزا نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ دسویں عالمی اْردو کانفرنس میں جو لوگ شریک ہیں انھیں دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ان لوگوں سے سیکھا ہے کہ کتاب پڑھی کیسے جاتی ہے، زندگی کو سمجھنے کے لیے اگر مجھ میں صلاحیت پیدا ہوئی تو وہ صرف اور صرف ادب کی دین ہے، ادب مجھے اور آپ کو جیتے جی موت کے گھاٹ اْترنے سے بچاتا ہے، اسی ادب کے ذریعے بْرے بھلے میں تمیز محسوس کی جاتی ہے،مایوسی کے اندھیروں میں ادب نے ہی روشنی فراہم کی ہے اور ادب میری لائف لائن ہے،انھوں نے کہاکہ ادب مجھے پہلے جینا سکھاتا تھا اب یہ مجھے بقا کا راستہ بھی دکھا رہا ہے اور یہ بقا میرے لیے بھی ہے اور آپ کے لیے بھی۔