خواتین کے حقوق و فرائض

عورت اگر خاوند کا حق ادا نہیں کرتی تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اﷲ کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتی۔


حجاب درحقیقت عورتوں کی عظمت کی دلیل اور اُن کی پاک دامنی کی علامت ہے۔ فوٹو۔ فائل

QUETTA: یہ معاشرہ، سماج اور یہ دُنیا اپنی اِک اساس رکھتی ہے۔ معاشرے کی اَساس کو گھر کہا جاتا ہے، اور گھر بغیر خاتون کے مکمل نہیں ہوتا۔ معاشرے کی بہتری میں خواتین کی سیرت و کردار نہایت اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔ انہیں معمولی نہ سمجھا جائے۔ اللہ نے ان پر بڑی پابندیاں لگائی ہیں۔

''خبردار! بن سنور کر گلی کُوچوں میں مت آنا۔''

اور یہ ہماری عورتوں سے اللہ مخاطب نہیں ہے، اِن سے پہلے اللہ ازواجِ رسول کریمؐ سے مخاطب ہے۔ سورۂ مُبارکہ نور میں ہے، مفہوم :

''اے ازواجِ پیغمبر ؐ، زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ کرنا، لوگوں کے دلوں میں مرض پایا جاتا ہے۔''

وہ ہمارے لیے اُمّہات المومنینؓ ہیں، لہٰذا انھیں جو نصیحت کی جارہی ہے، ہمارے ہاں کی عورتوں کو بہ درجۂ اولیٰ وہ نصیحت کی جارہی ہے۔ لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ خواتین کو جن باتوں کا پابند کررہا ہے، مثلاً : خبردار! بغیر شوہر کی اجازت کے مت جانا۔ خبردار! بغیر حجاب کے مت جانا، حجاب کا تعلق اسلام سے نہیں ہے، شرافتِ بشر سے ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان یا دِین دار گھٹے ہوئے دماغ کے ہوتے ہیں، انہوں نے اسلام کو سمجھا نہیں ہے۔ مسلمان تنگ نظر نہیں ہوتا۔ مسلمان تو ہر اُس چیز کو پسند کرتا ہے، جسے انسانیت پسند کرتی ہے۔ شرفِ انسانیت جس کو پسند کرے۔ کسی حکیم اور دانا کے بہ قول روزمرّہ کا عام مشاہدہ ہے کہ جو چیز بہت قیمتی اور بیش قدر ہوتی ہے، اُس کو انتہائی حفاظت کے حصار میں رکھتے ہیں، جیسے ہیرا، سونا وغیرہ کتنی ڈِبیوں اور ڈبّوں میں احتیاط کے ساتھ چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خواتین کے لیے حجاب کا یہی فلسفہ ہے۔ حجاب درحقیقت عورتوں کی عظمت کی دلیل اور اُن کی پاک دامنی کی علامت ہے۔ پردہ خواتین کی شخصیت کے پُروقار اور بُردبار ہونے کا عکّاس ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ قرآنِ کریم میں خواتین کے لیے پردے کا باقاعدہ حکم موجود ہے، خاص طور پر سورۂ نور، سورۂ احزاب اور سورۂ اَعراف کا مطالعہ فرمائیں۔ سورہ ٔ نساء میں خواتین کے بہت سے مسائل کو حل کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کا ہر حکم درحقیقت ہماری ہی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اِس سے نُورِہدایت کی کس قدر کرنیں کسب کرتے ہیں۔

لہٰذا یہ اِک بات انسانیت کی ہے، شرف کی ہے، اقدار کی ہے، تہذیب کی ہے۔ یہ جو پابندیاں لگائی جارہی ہیں، خبردار! ایسے نہیں جانا، اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں جانا۔ تمہارا کام تو کمانا نہیں ہے۔ یہ تو آج دُنیا تمہیں مجبور کررہی ہے، مرد جائیں کمانے کے لیے، تو جملے کو ذرا محسوس کریں گے۔ ہر اُس وجود پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، جس کی ذمّے داریاں زیادہ ہَوں۔ ہر ذمّے دار پابند ہوا کرتا ہے، یہ طے ہے۔ شریعت کی رُو سے جتنی پابندیاں جس پر زیادہ دکھائی دیں، سمجھ لیں اللہ نے اُسے ذمّے دار زیادہ بنایا ہے۔ دینِ اسلام نے عورتوں پر جو پابندیاں لگائی ہیں، اسے حقوقِ نسواں کا مسئلہ نہ بنایا جائے، بل کہ یہ تحفظِ خاتون اور تحفظِ سماج کا مسئلہ ہے۔

اسلامی معاشرے میں مختلف شخصیات کے کردار کے تناظر میں بہ نظرِ غائر اگر دیکھا جائے، تو اسلامی معاشرے سے اگر بالفرض تھوڑی سی دیر کے لیے خواتین کی سیرت و کردار کو علیحدہ کردیا جائے، تو زندگی کے سارے رنگ پھیکے نظر آئیں گے۔ زندگی گویا ادھوری محسوس ہوگی۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ یہ سماج اُس وقت تک سماج نہیں ہے، جب تک گھر نہ ہو اور گھر اُس وقت تک گھر نہیں ہے، جب تک خاتونِ خانہ نہ ہو۔ عام طور پر خاتونِ خانہ شوہر کی عظمت کا اقرار سب سے آخر میں کرتی ہیں۔ زوجہ بہت جلدی اقرارِ عظمت نہیں کرتی۔ اِس لیے کہ وہ جلوت سے بھی آشنا ہے، وہ خلوت سے بھی آشنا ہے وہ تمام تر کیفیات سے آگاہ ہے۔

سلام شہنشاہِ دوجہاں آنحضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مزاج پر ہو، سلام ملیکۃ العرب حضرتِ بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ہو۔ جب اللہ کے رسول آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلانِ نبّوت کیا، سب سے پہلا کلمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پڑھا، یہ سچا اعتراف تھا۔

تاریخِ اسلام کے صفحات پر ذرا یہ بھی دیکھیں، تاریخِ شجاعت میں عورت کو، خاتون کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بڑے بڑے لوگوں کو میدان میں اُتارنے والی ذات ہے یہ۔

بعض جرأت مند خواتین کے ایسے واقعات تاریخ کی نایاب کتب میں آج بھی درخشندہ ابواب کی صورت میں محفوظ ہیں، لیکن ہمارا سماج اِس کے ساتھ ایک مدّت سے ناانصافی کررہا ہے ۔ یہ عورت کل بھی اسیر تھی، آج بھی اسیر ہے۔ کل اسے کنیز بنایا جاتا ہے، آج اسے استقبالیے پہ بٹھایا جاتا ہے۔ یہ بھی تو جبری اسیری ہی ہے۔ اِس کی وجہ سے گاہک جمع کیے جائیں، اِس کی وجہ سے لوگ جمع کیے جائیں۔ اِس سے بڑھ کر اسیری اور کیا ہوگی؟ ہمارا معاشرہ آج بھی اِس خاتون کو اسیر کیے ہوئے ہے۔ لڑکا اپنے والد کے گھر باکمال ہوتا ہے ، لڑکی اپنے شوہر کے گھر باکمال ہوتی ہے۔ جب یہ طے ہوجائے کہ لڑکی کو اپنے شوہر کے گھر باکمال ہونا ہے، تو بھئی اُس سے تمنائیں، توقعات، مطالبات کیسے؟ یہ تو یہاں سیکھے گی آکر۔ یہ یہاں آکر باکمال ہوگی۔ لیکن جب یہ اپنے شوہر کے گھر قدم رکھتی ہے ، تو اب زندگی کا اِک نیا موڑ شروع ہوتا ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر حدیثِ مُبارکہ یقیناً نورانی قول اور ہماری دائمی راہ نمائی کا باعث ہے۔ ایک حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں:

''عورت کا جہاد شوہر سے حسنِ سلوک ہے۔''

ایک اور حدیث شریف میں خواتین کی یوں تربیت فرمائی:

''عورت اگر خاوند کا حق ادا نہیں کرتی تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اللہ کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتی۔'' (مکارم الاخلاق۔ صفحہ247)

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ارشادِ گرامی ہے:

''کسی کو بیٹی دو تو یہ دیکھو کہ لڑکا نیک، پرہیز گار اور متقی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اگر تمہاری بیٹی اُسے پسند آئی تو اُس سے محبت کرے گا اور تمہاری بیٹی کی عزت کرے گا۔ لیکن اگر تمہاری بیٹی اُس کے معیار کے مطابق نہیں اُتری تو وہ کبھی ظلم نہیں کرے گی، کیوں کہ متقی کبھی ظلم نہیں کرتا۔''

شادی کا مفہوم ہمارے ہاں عموماً حیوانیت اور تسکینِ جنس ہے، لیکن اہلِ بیتؓ نے بتایا ہے، شادی کا مفہوم حیوانیت نہیں بل کہ انسانیت کا فروغ ہے۔ شادی کے دوسرے روز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے داماد علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ سے سوال کیا۔

'' یاعلیؓ! بتاؤ میری بیٹی کو کیسا پایا ؟''

تو فوراً حضرت علیؓ نے جواب دیا: ''میں نے فاطمہ زہراؓ کو اطاعتِ الٰہی میں مددگار پایا۔'' (بحار الانوار۔ علّامہ مجلسیؒ۔ جلد43، صفحہ117)

شادی کا مقصد اطاعتِ الٰہی کا فروغ ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات میں عموماً کہا جاتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ہم کفو (ایک جیسے) ہونے چاہئیں۔ ہم کفو ہونے سے بھلا کیا مراد ہے؟آیا روپے پیسے میں ہم کفو، صورت شکل میں ہم کفو، یا عادات و اطوار میں ہم کفو؟ معیار کیا ہے؟

ہمیشہ یاد رکھیں، لڑکا اور لڑکی ایمان میں ہم کفو ہونے چاہئیں۔ معیار یہ ہے۔

حضرتِ بی بی فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا خواتین کے لیے نمونۂ عمل ہیں۔ آپؓ سیّدۃ النساء العالمین یعنی تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔ حضرتِ بی بی زہرا ؓ کی جانب سے خواتین کے لیے راہ نمائی پہ ذرا ہم سب غور کریں، ہمارا معاشرہ اِس پہ عمل کے نتیجے میں بہتری پاسکتا ہے۔ آپؓ جو ہر زمانے کی، ہر دَور کی خواتین کی سردار ہیں، آپ ؓ سے ایک دن رسولِ اکرم ؐ نے پوچھا :''بیٹی زہراؓ! عورت کے لیے سب سے بہتر کیا ہے؟''

حضرتِ بی بی زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتی ہیں: ''نہ وہ کسی نامحرم کو دیکھے اور نہ کوئی نامحرم اُس کو دیکھے۔'' ( محجۃ البیضاء از ملّاکاشانی۔جلد 3، صفحہ 245 )

یہ جملہ خواتین اور مردوں دونوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اِس پر ذرا غور فرمائیں کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں مخلوط محفلوں کا بڑھتا ہوا رُجحان کس قدر افسوس ناک ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صرف علمائے کرام ہی کی نہیں، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کی ذمّے داری ہے۔ البتہ اِس کی چند شرائط بھی ہیں۔

مکتبِ اہلِ بیتؓ کے پیرو کاروں کا امتیاز یہ ہے کہ یہ ماحول میں ڈھلتے نہیں ہیں، ماحول کو بدل دیا کرتے ہیں۔ اِس کی واضح مثال واقعۂ کربلا میں سیّد الشہداء حضرت ابوعبداللہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ، اُن کی بہن حضرتِ بی بی سیّدہ زینبِ کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت امامِ عالی مقامؓ کے فرزند حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہیں۔ اِس گھرانے کے افراد پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سلام آتے ہیں۔ حضرت امام عالی مقامؓ نے راہِ خدا میں بے مثل قربانیاں پیش کرکے آخر میں اپنی جان تک نذر کردی اور تاقیامِ قیامت کام یاب، فتح مند اور سُرخ رُو قرار پائے، اور حضرتِ بی بی زینب ؓ اور حضرت امام زین العابدینؓ نے دربارِ شام، یزید کے محل میں اللہ رحمن و رحیم کے بے پایاں فضل و کرم سے حق گوئی، بے باکی، جرأت، حرّیت، عزت، غیرت، شجاعت، مظلومی، قیادت اور راہ ِحق پہ ہر حال میں ہمیشہ ثابت قدم رہنے کے وہ کارہائے نمایاں انجام دِیے کہ آج تک ہر زندہ ضمیر انسان کا دل'' حسینیت زندہ باد، یزیدیت مردہ باد'' کہتا ہے۔ یہ محض نعرے نہیں، درحقیقت منشورِ حیاتِ دائمی ہیں۔

ایک عربی مقولہ ہے : ''آج کے بچّے کل کے مردِ میدان ہیں۔'' معاشرے کے ذمّے دار افراد ہیں۔ اہلِ بیتِ نبویؐ اور صحابہ کرام ؓ کی گراں قدر تعلیمات کی روشنی میں مختلف معاشرتی حیثیتیں اور عہدے اِنھی کو ملیں گے۔ اب یہی بچّہ جو مسائلِ دین سے آگاہ ہو، حرام و حلال جانتا ہو، واجب اور مستحب جانتا ہو، تو یہ بڑا ہونے کے بعد نہ کسی پہ ظلم کرے گا، نہ غلط کام کرے گا۔ کسی بھی دیگر شعبۂ زندگی میں کام یاب شخصیت ثابت ہوگا۔ کوئی غلط کام نہیں کرے گا۔ خود کو اپنے شعبے میں منوائے گا۔ اُس کی حیات اور خدمات، فن اور شخصیت پر کتابیں لکھی جائیں گی۔ یہی صورتِ حال بچّیوں کی ہے۔ بہ حیثیت انسان لڑکیوں اور لڑکوں میں حقوق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، البتہ ذمّے داریوں میں علم و حکمت کے اعتبار سے تفریق رکھی گئی ہے۔

لہٰذا معاشرے کی بڑی ذمّے داری خواتین پر عاید ہوتی ہے۔ خواتین کے ہاتھ میں اور اختیار میں بہت کچھ ہے۔ یہ بُرا بھی کرسکتی ہیں، اچھا بھی کرسکتی ہیں۔ ان کا دِین دار، دِیانت دار اور مخلص ہونا ضروری ہے۔

حکیم الامّت علّامہ محمد اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں