ایران کے معاشی حالات
کوئی اگر انفرادی دہشت گردی یا دولت کا مالک بننا چاہے گا تو سارے لوگ اسے ایسا کرنے سے روک دیں گے۔
ایران مصر کے بعد خطے کا دوسرا بڑا اور اہم ملک ہے۔ اپنے حجم کے اعتبار سے بھی اور اپنے محنت کش طبقے کی طاقت کی وجہ سے بھی، ہم پہلے بھی ایران میں انقلاب کا اس کے نشیب و فراز کے ساتھ تجزیہ کر چکے ہیں، اس وقت وہاں تحریک بالکل چپ سادھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ہم وہاں انقلاب کی ایک دوسری لہر کے اشارے بھی دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے عرصے میں ملک کی معاشی حالت بد سے بد تر ہو چکی ہے جس کے باعث یہاں نئے خیالات سماج کی کوکھ میں پرورش پا رہے ہیں۔
چند سال قبل اصفہان اسٹیل مل کے محنت کش بار ہا اپنی اجرت میں اضافے کے لیے ہڑتالیں کرتے رہے۔ ایران کی پانچ بجلی پیدا کرنے والی سرکاری کارپوریشنوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ 300 ریال میں ایک روٹی ملتی ہے، افراط زر26 فیصد کو پہنچی ہوئی ہے اور وہ بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق۔ صنعتی پیداوار منہدم ہوتی جا رہی ہے۔ متوسط طبقہ دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاکھوں مزدوروں کو اجرتیں نہیں مل رہیں۔ یوں ٹمٹماتی جدوجہد ایک بار پھر ایجنڈے پر آ رہی ہے، حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ سخت پریشان ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس سربراہ پچھلے سال میڈیا سے اپیل کرنے پر مجبور ہوئے کہ وہ ٹی وی پر مرغی دکھانے سے گریز کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مرغی کھانا عیاشی کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور مرغی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ اگر یہ عام آدمی کو ٹی وی پر بھی نظر آ گئی تو اندیشہ ہے کہ لوگ چاقو چھریاں لے کر امیروں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ اور اس کا خرچہ ان سے وصول کریں گے۔ اس کے بقول ''ٹی وی پر یہ چیز اتنی جذبات انگیز ثابت ہو سکتی ہے کہ یہ ایک نئے انقلابی ابھار کا باعث بھی بن سکتی ہے۔'' انقلابی گارڈز کی حالت یہ ہے کہ ان کو کئی کئی ہفتوں تک تنخواہیں نہیں مل رہیں جو کہ یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھی بات نہیں۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ مرغی کی چڑھی ہوئی قیمت کی وجہ سے خود رو مظاہرے پھوٹے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر غذائی اشیاء کے معاملے میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
فیکٹریوں کے محنت کش بھی بڑھی ہوئی قیمتوں اور کم ہوتی ہوئی اجرتوں پر کئی مظاہرے منظم کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران کرنسی کی سپلائی میں7 فیصد اضافہ ہوا ہے، اسے ''مقداری آسانی'' قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایک لاکھ عوام بادشاہت مخالف اور معاشی مطالبات پر سڑکوں پر نکل آئے۔ جب کہ ایران کا ایک وفد ان کی ہمدردی میں بحرین کے انقلابیوں سے گفت و شنید کرنے گیا جن پر جواب میں بحرین کے انقلابیوں نے یہ جواب دیا(We are not Sia or Sunni, we are fighting against Kingdom) ''ہم شیعہ یا سنی نہیں ہیں، ہم بادشاہت کے خلاف ہیں'' جب کہ بحرین میں80 فیصد شیعہ ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق کی ترقی پسند حکومت ایک بار قائم ہوئی تھی جس کا امریکی سی آئی اے نے تختہ الٹ کر دوبارہ بادشاہت قائم کروائی تھی، آج ایران اور خلیجی ممالک کا مسئلہ فرقہ واریت نہیں، اس مصنوعی فرقہ واریت کو امریکی سامراج ہوا دیکر سعودی عرب اور قطر کے ذریعے شام، لیبیا اور بحرین میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، یعنی لڑائو اور حکومت کرو۔ حکومتی دھڑوں کے مابین اس تفریق میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بد عنوانی کے الزامات اور ان میں ملوث بالائی پرتوں سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاریوں کی مسلسل خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ یوں ایران میں انقلابی حالات تیار ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ایران پر اسرائیل یا امریکی سامراج کی جانب سے جنگ مسلط ہوتی ہے تو یہ عمل یکسر رک بھی سکتا ہے، لیکن اگر ایسا ہوا تو اس سے سارا خطہ مزید انتشار کی زد میں آ جائے گا۔
ایران کے ساتھ ایک کھلی جنگ کا مطلب آبنائے ہر مز کی بندش ہو گی (جہاں سے دنیا کا20 فیصد تیل گزرتا ہے)۔ ایسا ہوا تو اس کے دنیا بھر میں معاشی اثرات مرتب ہوں گے اور اسی سے ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کیوں ایران پر بمباری کی بلند و بانگ بڑھکوں کے باوجود مغربی سامراج اس حملے کے اثرات کے خوف سے حملہ کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ یہی کیفیت اسرائیل کی بھی ہے جو کئی بار ایران کو دھمکیاں دے چکا ہے لیکن ابھی تک ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔ لیکن صورتحال اتنی غیر یقینی اور تضادات سے بھر پور ہے اور جسے سماجی، سیاسی اور معاشی بحران مزید گھمبیر کرتا جا رہا ہے۔ ایران پر حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے جو محنت کش طبقے کی قیادت میں انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔
ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں سارے کار ہائے زندگی امداد باہمی کی بنیاد پر چلیں۔ کھیتوں کی پگڈنڈیاں ختم کر کے ہر گائوں کے لوگ اجتماعی کاشتکاری کریں اور پیداوار کو اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے تقسیم کر لیں۔ ہر لکھا پڑھا آدمی ان پڑھوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔ فیکٹریاں اور کارخانے محنت کش خود چلائیں گے۔ پیداوار کی ترسیل کریں گے اور قدر زائد کو عوام کی ضروریات زندگی پر خرچ کریں۔ دھوبی گھاٹ اور باورچی خانہ اجتماعی ہو گا جہاں سب کے کپڑے دھوئے جائیں گے اور کھانے پکائے جائیں گے، کپڑا دھونے والوں اور کھانا پکانے والوں کی ضروریات زندگی معاشرہ مہیا کرے گا۔ ڈاکٹر مفت علاج کرے گا اور اس کی ضروریات زندگی بھی سماج پوری کرے گا۔ وکیل اور عدالت ختم کر کے محلہ کمیٹیاں فیصلہ کریں گی۔ چونکہ پیداوار کا ذخیرہ نہیں ہو گا اس لیے وسائل پیداوار کے انبار ہوں گے۔
لوگوں کو مشکل سے2-1 گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔ باقی اوقات میں تخلیقی کام انجام دیں گے۔ اور زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تفریحی اوقات کار میں مست رہیں گے۔ کوئی دولت مند رہے گا اور نہ کوئی بھوکا۔ ایران کے بازاری اور مزدور طبقے کی تفریق ختم ہو جائے گی۔ اور یہ عمل ایران تک محدود نہیں رہے گا بلکہ لبنان، شام، قطر، بحرین، عراق، سعودی عرب، پاکستان، افغانستان اور نہ صرف ترکی تک پھیلے گا بلکہ ساری دنیا کے لوگ ایک خاندان کے طور پر زندگی گزاریں گے۔ ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائیں گی۔ ایران، خلیج اور دنیا بھر کے عوام دولت مندوں، سامراجیوں اور لٹیروں کے خلاف فوجی تربیت حاصل کریں گے۔ کوئی اگر انفرادی دہشت گردی یا دولت کا مالک بننا چاہے گا تو سارے لوگ اسے ایسا کرنے سے روک دیں گے۔ ایک محبت بھرا اور انتہائی پر مسرت سماج قائم ہو گا۔
چند سال قبل اصفہان اسٹیل مل کے محنت کش بار ہا اپنی اجرت میں اضافے کے لیے ہڑتالیں کرتے رہے۔ ایران کی پانچ بجلی پیدا کرنے والی سرکاری کارپوریشنوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ 300 ریال میں ایک روٹی ملتی ہے، افراط زر26 فیصد کو پہنچی ہوئی ہے اور وہ بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق۔ صنعتی پیداوار منہدم ہوتی جا رہی ہے۔ متوسط طبقہ دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاکھوں مزدوروں کو اجرتیں نہیں مل رہیں۔ یوں ٹمٹماتی جدوجہد ایک بار پھر ایجنڈے پر آ رہی ہے، حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ سخت پریشان ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس سربراہ پچھلے سال میڈیا سے اپیل کرنے پر مجبور ہوئے کہ وہ ٹی وی پر مرغی دکھانے سے گریز کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مرغی کھانا عیاشی کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور مرغی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ اگر یہ عام آدمی کو ٹی وی پر بھی نظر آ گئی تو اندیشہ ہے کہ لوگ چاقو چھریاں لے کر امیروں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ اور اس کا خرچہ ان سے وصول کریں گے۔ اس کے بقول ''ٹی وی پر یہ چیز اتنی جذبات انگیز ثابت ہو سکتی ہے کہ یہ ایک نئے انقلابی ابھار کا باعث بھی بن سکتی ہے۔'' انقلابی گارڈز کی حالت یہ ہے کہ ان کو کئی کئی ہفتوں تک تنخواہیں نہیں مل رہیں جو کہ یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھی بات نہیں۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ مرغی کی چڑھی ہوئی قیمت کی وجہ سے خود رو مظاہرے پھوٹے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر غذائی اشیاء کے معاملے میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
فیکٹریوں کے محنت کش بھی بڑھی ہوئی قیمتوں اور کم ہوتی ہوئی اجرتوں پر کئی مظاہرے منظم کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران کرنسی کی سپلائی میں7 فیصد اضافہ ہوا ہے، اسے ''مقداری آسانی'' قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایک لاکھ عوام بادشاہت مخالف اور معاشی مطالبات پر سڑکوں پر نکل آئے۔ جب کہ ایران کا ایک وفد ان کی ہمدردی میں بحرین کے انقلابیوں سے گفت و شنید کرنے گیا جن پر جواب میں بحرین کے انقلابیوں نے یہ جواب دیا(We are not Sia or Sunni, we are fighting against Kingdom) ''ہم شیعہ یا سنی نہیں ہیں، ہم بادشاہت کے خلاف ہیں'' جب کہ بحرین میں80 فیصد شیعہ ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق کی ترقی پسند حکومت ایک بار قائم ہوئی تھی جس کا امریکی سی آئی اے نے تختہ الٹ کر دوبارہ بادشاہت قائم کروائی تھی، آج ایران اور خلیجی ممالک کا مسئلہ فرقہ واریت نہیں، اس مصنوعی فرقہ واریت کو امریکی سامراج ہوا دیکر سعودی عرب اور قطر کے ذریعے شام، لیبیا اور بحرین میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، یعنی لڑائو اور حکومت کرو۔ حکومتی دھڑوں کے مابین اس تفریق میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بد عنوانی کے الزامات اور ان میں ملوث بالائی پرتوں سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاریوں کی مسلسل خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ یوں ایران میں انقلابی حالات تیار ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ایران پر اسرائیل یا امریکی سامراج کی جانب سے جنگ مسلط ہوتی ہے تو یہ عمل یکسر رک بھی سکتا ہے، لیکن اگر ایسا ہوا تو اس سے سارا خطہ مزید انتشار کی زد میں آ جائے گا۔
ایران کے ساتھ ایک کھلی جنگ کا مطلب آبنائے ہر مز کی بندش ہو گی (جہاں سے دنیا کا20 فیصد تیل گزرتا ہے)۔ ایسا ہوا تو اس کے دنیا بھر میں معاشی اثرات مرتب ہوں گے اور اسی سے ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کیوں ایران پر بمباری کی بلند و بانگ بڑھکوں کے باوجود مغربی سامراج اس حملے کے اثرات کے خوف سے حملہ کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ یہی کیفیت اسرائیل کی بھی ہے جو کئی بار ایران کو دھمکیاں دے چکا ہے لیکن ابھی تک ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔ لیکن صورتحال اتنی غیر یقینی اور تضادات سے بھر پور ہے اور جسے سماجی، سیاسی اور معاشی بحران مزید گھمبیر کرتا جا رہا ہے۔ ایران پر حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے جو محنت کش طبقے کی قیادت میں انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔
ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں سارے کار ہائے زندگی امداد باہمی کی بنیاد پر چلیں۔ کھیتوں کی پگڈنڈیاں ختم کر کے ہر گائوں کے لوگ اجتماعی کاشتکاری کریں اور پیداوار کو اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے تقسیم کر لیں۔ ہر لکھا پڑھا آدمی ان پڑھوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔ فیکٹریاں اور کارخانے محنت کش خود چلائیں گے۔ پیداوار کی ترسیل کریں گے اور قدر زائد کو عوام کی ضروریات زندگی پر خرچ کریں۔ دھوبی گھاٹ اور باورچی خانہ اجتماعی ہو گا جہاں سب کے کپڑے دھوئے جائیں گے اور کھانے پکائے جائیں گے، کپڑا دھونے والوں اور کھانا پکانے والوں کی ضروریات زندگی معاشرہ مہیا کرے گا۔ ڈاکٹر مفت علاج کرے گا اور اس کی ضروریات زندگی بھی سماج پوری کرے گا۔ وکیل اور عدالت ختم کر کے محلہ کمیٹیاں فیصلہ کریں گی۔ چونکہ پیداوار کا ذخیرہ نہیں ہو گا اس لیے وسائل پیداوار کے انبار ہوں گے۔
لوگوں کو مشکل سے2-1 گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔ باقی اوقات میں تخلیقی کام انجام دیں گے۔ اور زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تفریحی اوقات کار میں مست رہیں گے۔ کوئی دولت مند رہے گا اور نہ کوئی بھوکا۔ ایران کے بازاری اور مزدور طبقے کی تفریق ختم ہو جائے گی۔ اور یہ عمل ایران تک محدود نہیں رہے گا بلکہ لبنان، شام، قطر، بحرین، عراق، سعودی عرب، پاکستان، افغانستان اور نہ صرف ترکی تک پھیلے گا بلکہ ساری دنیا کے لوگ ایک خاندان کے طور پر زندگی گزاریں گے۔ ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائیں گی۔ ایران، خلیج اور دنیا بھر کے عوام دولت مندوں، سامراجیوں اور لٹیروں کے خلاف فوجی تربیت حاصل کریں گے۔ کوئی اگر انفرادی دہشت گردی یا دولت کا مالک بننا چاہے گا تو سارے لوگ اسے ایسا کرنے سے روک دیں گے۔ ایک محبت بھرا اور انتہائی پر مسرت سماج قائم ہو گا۔