محض گرفتاری بے معنی

ہمارے سیکیورٹی کے اداروں نے بے حساب مہلک اسلحہ سمیت ہزاروں خطرناک مجرم پکڑے ہیں اور یہ جرائم پیشہ مدت سے مطلوب تھے۔

h.sethi@hotmail.com

دو قسم کے ملزم دیکھے ہیں۔ ایک وہ جو عدالت میں پیشی پر بھیگی بلی بن کر خود کو معصوم اور مظلوم ظاہر کرتے ہیں اور جج یا مجسٹریٹ کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے وہ جو عدالت کو خاطر میں نہیں لاتے یعنی اپنے اسٹائل سے یعنی عدالت کو کبھی اپنی چال ڈھال اور کبھی نظروں سے مرعوب کرنے کا وطیرہ اپناتے ہیں اور بتدریج ہمارے ملک میں دوسری قسم کے فوجداری مقدمات میں ملوث ملزمان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ میرے نزدیک یہ خطرے کی گھنٹی ہے جو بج تو کافی عرصے سے رہی ہے لیکن یا تو اس کا نوٹس لینے والوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے، ان کو اس کی پروا نہیں یا پھر انھیں اس کے ممکنہ نتائج کا ادراک ہی نہیں۔

پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک گینگ پیش ہوا تو مجھے ایک ملزم کا چہرہ شناسا لگا۔ پوچھنے پر اس نے خود ہی بتا دیا کہ وہ کھاریاں کی عدالت میں ڈکیتی کے ایک مقدمے میں ملوث تھا اور مجھے عدم ثبوت کی بنا پر اسے بری کرنا پڑا تھا۔ بری ہونے کے بعد ظاہر ہے اس کا حوصلہ بڑھا ہوگا اور اب وہ دوسرے ضلعوں کے ڈکیتوں میں بھی متعارف ہوگیا تھا۔ ''کند ہم جنس باہم جنس پرواز'' کے مصداق کسی ایک جرم میں مہارت، مجرموں کی دوستیاں انھیں دوسرے شہروں کے اسی قسم کے ماہرین جرائم سے تعلقات اور گینگ بنانے یعنی پارٹنر شپ کے لیے مددگار ہوتی ہیں۔

پاکستانی تفتیش کاروں کی اہلیت پر کسی نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ ایک سیمینار کے بعد کچھ امریکی سی آئی اے، برطانوی ایم آئی اور پاکستانی پولیس کے افسران ہلکی پھلکی گفتگو کررہے تھے۔ امریکی افسر نے کہا کتنا ہی گنجلک جرم ہو ہم ایک ہفتے میں اس کی تمام گتھیاں کھول دیتے ہیں۔ برطانوی بولا ہمیں مشکل ترین کیس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے صرف چوبیس گھنٹے کی مدت درکار ہوتی ہے۔

پاکستانی افسر کے پاس ایک خرانٹ قسم کا تھانیدار کھڑا باتیں سن رہا تھا، اس سے نہ رہا گیا، اجازت لے کر کہنے لگا، اپنے تجربے کے پیش نظر دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں آئندہ چوبیس گھنٹے بعد ہونے والے متوقع کرائم کی صرف بُو سونگھ کر اسے کنٹرول کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں اور ممکنہ مجرم کو بھی گردن سے دبوچ سکتا ہوں بلکہ ابھی دو گھنٹے قبل آپ لوگوں کو اڑانے والے خودکش بمبار کی جیکٹ ناکارہ بناکر ملزم کو حوالات میں بند کرنے کے بعد مال مقدمہ حوالدار کے حوالے کر آیا ہوں کہ رپٹ لکھ کر افسران بالا کو اطلاع کردے۔

اس لطیفے میں یقینا کچھ مبالغہ آرائی ہے لیکن ہماری پولیس ناخواندہ ضرور ہوسکتی ہے نااہل ہرگز نہیں۔ اس کے کھوجی مشکل ترین فوجداری جرائم کی تہہ تک پہنچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے البتہ جب سے ان کی سونگھنے کی حس نوٹ کی مہک سونگھنے کی حد تک محدود ہوگئی ہے اور نگرانی کے لیے وہ وی آئی پی نسل کے لیے وقف کردیئے گئے ہیں، ان کی ہر انسانی حس مرگئی ہے۔ اب وہ صرف کھانا کھاتے اور اونگھتے ہیں، بے چاروں کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔


پاکستان جرنلسٹوں، غیر ملکیوں، یونیفارم والوں، مختلف عقیدہ رکھنے والوں اور ان دیکھے معصوموں کے لیے سکیورٹی رسک تو بن ہی چکا، اگلے روز ایک دوست نے ٹیلیفون پر ایک تکلیف دہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔ کہنے لگا کہ ایک سروے نے پاکستان کو ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں تیسری پوزیشن پر رکھا ہے۔ کمبختوں نے یہاں بھی ہمیں فرسٹ آنے سے محروم کردیا۔

دراصل میری آج کی اذیت ناکی کی وجہ کئی روز سے متواتر چھپنے اور چینلز پر دکھائی جانے والی وہ خبریں ہیں جن کے مطابق ہمارے سکیورٹی کے اداروں نے بے حساب مہلک اسلحہ سمیت ہزاروں خطرناک مجرم پکڑے ہیں اور یہ جرائم پیشہ مدت سے مطلوب تھے۔ اس کے علاوہ بے شمار قاتل، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور آئندہ کارروائیوں میںملوث ہونے والے مجرموں کی نشاندہی بھی متوقع ہے۔ انھی کے ذریعے ماضی میں ہونے والے Mass Killing میں مطلوب اور ملوث مجرموں تک بھی رسائی ہونے والی ہے۔

اب حکومت نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور معصوم شہریوں کی جان و مال سے کھیلنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی ضرورت ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ جب پانچ سال تک جرائم پیشہ افراد اور گروہوں نے کیا امیر اور کیا غریب، کیا بچے اور کیا بوڑھے، کیا مسلم اور کیا غیرمسلم، کیا قصور وار اور کیا معصوم، کیا ملکی اور کیا غیرملکی کسی کو نہ بخشا تو اب آخری ہفتے میں کیا ہوگا۔ یہ بھی حسن اتفاق کہ پکڑ دھکڑ میں تیزی کا ذکر کرتے ہوئے یہ کالم شائع ہوا ہے تو نگران حکومت کی آمد کے دن۔

حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جرائم اور دہشت گردی کا تدارک کسی کی ترجیح ہی نہ تھی۔ اخبار اور ٹی وی چینل روزانہ خبر دیتے تھے کہ مجرم پکڑے گئے لیکن یہ خبردیکھنے کو نہ ملتی کہ سزا کس کو ہوئی۔ جرم ہو اور مجرم دندناتا پھرے، قتل ہو اور قاتل ایک اور قتل کردے، چور پکڑا جائے اور چوری سے باز نہ آئے، ڈکیت دیکھا اور پکڑا جائے لیکن بے گناہ قرار پاکر جیل سے باہر آکر ڈکیت گینگ بنالے، بھتہ لینے والا سرکاری اہل کار سے پارٹنرشپ میں پرچیاں جاری کرے، لینڈ مافیا کا شہرت یافتہ حاکم شہر کا دوست کہلائے، غنڈہ تھانیدار کا پروردہ ہو اور غنڈہ گردی ختم ہو جائے، قتل کا ملزم پروٹوکول سے ہوائی اڈے سے بیرون ملک روانہ کیا جائے اور مقتول کے عزیزوں کی دادرسی ہو جائے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جرائم کی بیخ کنی ہوتی ہے سزا سے یا گرفت کے خوف سے۔ جرم کرنے کی تحریک ملتی ہے بچ نکلنے کے یقین سے۔اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص جرم نہیں کر سکتا۔ اس پانچ سالہ دور میں اگرا سپیڈی ٹرائل کورٹس ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کے بعد ملزم کو نشان عبرت بناتیں تو جرم رک سکتے تھے۔

چور، ڈاکو اگر سزا کے بعد سرعام کوڑوں کی سزا پاتے، قاتل فوری ٹرائل کے بعد شہر کے چوک میں لٹکائے جاتے، خودکش بمباروں کے ٹرینر اگر شہر کے چوک میں گولی سے اڑائے جاتے تو یہ ملک آج خطرناک ملکوں میں تیسری پوزیشن کا تمغہ نہ سجاتا۔ حکومت اگر حالات کے پیش نظر صرف اسپیڈی ٹرائل اور سرعام سزا کا قانون بناکر نیک نیتی سے اس پر عملدرآمد کرواتی تو ملک امن کا گہوارہ ہوتا۔ کیئر ٹیکر حکومت آچکی ہے تو سرجیکل آپریشن ہی کر دکھائے، ناسور کا علاج تو آپریشن ہی سے ہوتا ہے۔
Load Next Story