اچھی باتیں
کتنے نادان ہیں ہم لوگ کہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات عمل کی بجائے خواہشات سے دُور ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے میرے ساتھ چند اچھی باتیں ہوئیں جن کا ذکر نہ کرنا بھی ایک زیادتی ہو گی۔ دراصل ہم لوگ بری باتوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اچھی باتوں کی توقع کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ بری باتوں کا مسلسل ہونا اور اچھی باتوں کا نہ ہونا زوال کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے۔
ویسے تو زوال پذیر ہونے کے ناتے ہم ایسی بہت سی نشانیوں سے عرصہ دراز سے روشناس ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی ہم لوگوں نے ہر طرح کے زوال کے ساتھ ناتا قائم رکھنے کو کبھی گوارا نہیں کیا اور اس متعفّن ناتے سے جان چھڑانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنے کے باوجود اس سے جان چھڑانے کی بھرپور خواہشیں ہمیشہ اپنے اندر سلگتی رکھی ہیں۔
کتنے نادان ہیں ہم لوگ کہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات عمل کی بجائے خواہشات سے دُور ہو سکتی ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔ گذشتہ منگل یعنی مورخہ بارہ مارچ کو مجھے صبح 7 بجے والی PIA کی پرواز PK300 سے کراچی سے اسلام آباد آنا تھا۔ میں نے اپنے حساب سے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ صبح چھ بجے تک ہوائی اڈے پہنچ جائوں۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنے حساب سے صبح پانچ بجے اٹھنا تھا اور تقریباً ساڑھے پانچ بجے جائے قیام سے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ لیکن صبح چار بجے میر ے موبائل کی گھنٹی بجی جس سے میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
دوسری طرف سے پی آی اے کا کوئی اہلکار بتا رہا تھا کہ PK 300 بعض وجوہات کی بنا پر تاخیر سے اب صبح سات بجے کی بجائے ساڑھے نو بجے روانہ ہو گی۔ اس لیے آپ اس حساب سے ائیر پورٹ تشریف لائیں۔ پیغام سننے کے بعد مجھے اپنی ہڑبڑاہٹ کی کوفت سے نجات مل گئی اور اُس کوفت سے بچ جانے کے باعث اطیمنان محسوس ہوا جسکے تحت مجھے صبح چھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک کراچی ائیر پورٹ پر انتظار کے دردناک عذاب سے گزرنا تھا۔
۲۔ ائیر پورٹ پر موجود دیگر مسافروں نے بھی بتایا کہ انھیں بھی PIA کے عملے نے بر وقت اطلاع دی۔ جسکے تحت وہ غیر ضروری انتظار کی تکلیف سے بچ گئے تھے۔ میرے سمیت دیگر مسافروں نے بھی PIA کی اس بروقت اطلاع پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے میں نے کراچی سے اسلام آباد سفر کے دوران PIA کے عملے کے کچھ مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت لکھی تھی۔ میں بدسلوکی کی شکایت کر سکتا ہوں تو نا انصافی ہو گی اگر حسن سلوک کی تعریف نہ کی جائے۔
محض وقت پر ہر مسافر کو ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کر دینے سے کتنے لوگوں کو غیر ضروری مشکلات سے بچا لیا گیا۔ نا اس کے لیے PIA کے بجٹ پر بوجھ پڑا نہ ہی کوئی فنی خرابی پیدا ہوئی اور نا ہی PIA کی یونین نے شور مچایا اور ہڑتال کی کال دی۔ بغیر کسی تردد اور حیل و حجت کے معاملہ طے پا گیا اور مسافر حضرات، جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھے، محض بر وقت اطلاع ملنے سے ایک بہت بڑی کوفت سے بچ گئے۔ سبق اس بات سے یہ ملا کہ بہت ساری غیر ضروری مشکلات سے محض چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ روش اپنا لی جائے تو اس سے ہر محکمے دفتر اور کمپنی یا ادارے کی کارکردگی لوگوں کی نظر میں بہتر گردانی جا سکے گی۔ PIA کا عملہ اس فرض شناسی پر مبارک باد کا مستحق ہے۔
دوسری جانب میں گذشتہ ہفتہ ہی نادرا کے دفتر اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کرنے کے لیے گیا ضروری کاروائیوں سے گذرنے کے بعد موقع پر موجود اہلکار نے بتایا کہ آپکو ایک ہفتہ یا دس روز کے اندر اطلاع مل جائے گی تا کہ آپ اپنا نیا شناختی کارڈ وصول کر سکیں۔ صرف پانچ روز کے بعد میرے موبائل فون پر نادرا کی طرف سے میسج ملا کہ آپ کا نیا شناختی کارڈ تیار ہے منگوا لیجیے یا لے جائیے۔ آدمی بھیجا اور وہ نیا شناختی کارڈ لے کر آ گیا۔ یہ اچھی بات بھی ایک خوشگوار حیرت کا باعث بنی کہ ہمارے ملک کے اندر بھی اداروں کی کارکردگی کا معیار اب اس حد تک آ گیا ہے کہ ادارہ خود اطلاع دیکر سائل کا کام ہو جانے کے بارے میں مطلع کرے۔ نادرا اس سلسلے میں مبارک باد کا مستحق ہے۔
۳۔ تیسری اچھی بات یہ ہوئی کہ کراچی سے اسلام آباد سفر کے دوران میرے برابر صوفیہ بیٹی بھی سفر کر رہی تھی اس نے بتایا کہ وہ پاکستان نیوی کے ایک آفیسر کی بیوی ہے اور کراچی کی ایک کچی بستی جس میں زیادہ تر پٹھان خاندان آباد ہیں ان کے بچوں کو مفت تعلیم دے رہی ہے۔ تقریباً ایک سو کے لگ بھگ بچے پانچویں چھٹی جماعت تک بالکل مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مالک مکان جس کے مکان کے اندر اسکول قائم کیا گیا ہے کرائے کے لیے زیادہ تنگ نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب کام فلاحی بنیادوں پر ہو رہا ہے۔
بہت قلیل معاوضے پر علاقے میں مقیم تعلیم یافتہ بچیاں اس کار خیر میں صوفیہ کا ہاتھ بٹا رہی ہیں جو تمام کے تمام اخراجات اپنی اور اپنے خاندان والوں کی مدد سے پورا کرتی ہے۔ بچوں کو کتابیں کاپیاں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ صوفیہ یہ کام گزشتہ کچھ سال سے کر رہی ہے اور اپنی اس کاوش پر بے حد مطمئن اور خوش ہے۔ قوم کی یہ بیٹی بھی حدیقہ کیانی، ابرارالحق اور شہزاد رائے کی طرح اپنے انداز میں اپنی بساط کے مطابق انتہائی قابل ستائش کام کر رہی ہے۔ خدا قوم کے ایسے بچوں کو مزید ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔
یہ سب باتیں اچھی باتیں ہیں جو ایک ایسے معاشرے میں ہو رہی ہیں جس کے اندر لوگوں نے اچھی باتو ں کے بارے میں سوچنا بھی بند کر دیا ہے کیونکہ وہ ہر طرف سے بری باتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ سوائے بم دھماکوں، خودکش حملوں، قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کے انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ ذہنی طور پر بیمار ہو چکے ہیں اور صحت یاب ہونے کی امید کھو چکے ہیں۔ ایسی اچھی باتوں کا ہونا بعض اوقات گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جگنو کی پرواز بن کر امیدوں کو پھر سے جنم دینا شروع کر یتا ہے۔
خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
ویسے تو زوال پذیر ہونے کے ناتے ہم ایسی بہت سی نشانیوں سے عرصہ دراز سے روشناس ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی ہم لوگوں نے ہر طرح کے زوال کے ساتھ ناتا قائم رکھنے کو کبھی گوارا نہیں کیا اور اس متعفّن ناتے سے جان چھڑانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنے کے باوجود اس سے جان چھڑانے کی بھرپور خواہشیں ہمیشہ اپنے اندر سلگتی رکھی ہیں۔
کتنے نادان ہیں ہم لوگ کہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات عمل کی بجائے خواہشات سے دُور ہو سکتی ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔ گذشتہ منگل یعنی مورخہ بارہ مارچ کو مجھے صبح 7 بجے والی PIA کی پرواز PK300 سے کراچی سے اسلام آباد آنا تھا۔ میں نے اپنے حساب سے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ صبح چھ بجے تک ہوائی اڈے پہنچ جائوں۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنے حساب سے صبح پانچ بجے اٹھنا تھا اور تقریباً ساڑھے پانچ بجے جائے قیام سے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ لیکن صبح چار بجے میر ے موبائل کی گھنٹی بجی جس سے میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
دوسری طرف سے پی آی اے کا کوئی اہلکار بتا رہا تھا کہ PK 300 بعض وجوہات کی بنا پر تاخیر سے اب صبح سات بجے کی بجائے ساڑھے نو بجے روانہ ہو گی۔ اس لیے آپ اس حساب سے ائیر پورٹ تشریف لائیں۔ پیغام سننے کے بعد مجھے اپنی ہڑبڑاہٹ کی کوفت سے نجات مل گئی اور اُس کوفت سے بچ جانے کے باعث اطیمنان محسوس ہوا جسکے تحت مجھے صبح چھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک کراچی ائیر پورٹ پر انتظار کے دردناک عذاب سے گزرنا تھا۔
۲۔ ائیر پورٹ پر موجود دیگر مسافروں نے بھی بتایا کہ انھیں بھی PIA کے عملے نے بر وقت اطلاع دی۔ جسکے تحت وہ غیر ضروری انتظار کی تکلیف سے بچ گئے تھے۔ میرے سمیت دیگر مسافروں نے بھی PIA کی اس بروقت اطلاع پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے میں نے کراچی سے اسلام آباد سفر کے دوران PIA کے عملے کے کچھ مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت لکھی تھی۔ میں بدسلوکی کی شکایت کر سکتا ہوں تو نا انصافی ہو گی اگر حسن سلوک کی تعریف نہ کی جائے۔
محض وقت پر ہر مسافر کو ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کر دینے سے کتنے لوگوں کو غیر ضروری مشکلات سے بچا لیا گیا۔ نا اس کے لیے PIA کے بجٹ پر بوجھ پڑا نہ ہی کوئی فنی خرابی پیدا ہوئی اور نا ہی PIA کی یونین نے شور مچایا اور ہڑتال کی کال دی۔ بغیر کسی تردد اور حیل و حجت کے معاملہ طے پا گیا اور مسافر حضرات، جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھے، محض بر وقت اطلاع ملنے سے ایک بہت بڑی کوفت سے بچ گئے۔ سبق اس بات سے یہ ملا کہ بہت ساری غیر ضروری مشکلات سے محض چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ روش اپنا لی جائے تو اس سے ہر محکمے دفتر اور کمپنی یا ادارے کی کارکردگی لوگوں کی نظر میں بہتر گردانی جا سکے گی۔ PIA کا عملہ اس فرض شناسی پر مبارک باد کا مستحق ہے۔
دوسری جانب میں گذشتہ ہفتہ ہی نادرا کے دفتر اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کرنے کے لیے گیا ضروری کاروائیوں سے گذرنے کے بعد موقع پر موجود اہلکار نے بتایا کہ آپکو ایک ہفتہ یا دس روز کے اندر اطلاع مل جائے گی تا کہ آپ اپنا نیا شناختی کارڈ وصول کر سکیں۔ صرف پانچ روز کے بعد میرے موبائل فون پر نادرا کی طرف سے میسج ملا کہ آپ کا نیا شناختی کارڈ تیار ہے منگوا لیجیے یا لے جائیے۔ آدمی بھیجا اور وہ نیا شناختی کارڈ لے کر آ گیا۔ یہ اچھی بات بھی ایک خوشگوار حیرت کا باعث بنی کہ ہمارے ملک کے اندر بھی اداروں کی کارکردگی کا معیار اب اس حد تک آ گیا ہے کہ ادارہ خود اطلاع دیکر سائل کا کام ہو جانے کے بارے میں مطلع کرے۔ نادرا اس سلسلے میں مبارک باد کا مستحق ہے۔
۳۔ تیسری اچھی بات یہ ہوئی کہ کراچی سے اسلام آباد سفر کے دوران میرے برابر صوفیہ بیٹی بھی سفر کر رہی تھی اس نے بتایا کہ وہ پاکستان نیوی کے ایک آفیسر کی بیوی ہے اور کراچی کی ایک کچی بستی جس میں زیادہ تر پٹھان خاندان آباد ہیں ان کے بچوں کو مفت تعلیم دے رہی ہے۔ تقریباً ایک سو کے لگ بھگ بچے پانچویں چھٹی جماعت تک بالکل مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مالک مکان جس کے مکان کے اندر اسکول قائم کیا گیا ہے کرائے کے لیے زیادہ تنگ نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب کام فلاحی بنیادوں پر ہو رہا ہے۔
بہت قلیل معاوضے پر علاقے میں مقیم تعلیم یافتہ بچیاں اس کار خیر میں صوفیہ کا ہاتھ بٹا رہی ہیں جو تمام کے تمام اخراجات اپنی اور اپنے خاندان والوں کی مدد سے پورا کرتی ہے۔ بچوں کو کتابیں کاپیاں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ صوفیہ یہ کام گزشتہ کچھ سال سے کر رہی ہے اور اپنی اس کاوش پر بے حد مطمئن اور خوش ہے۔ قوم کی یہ بیٹی بھی حدیقہ کیانی، ابرارالحق اور شہزاد رائے کی طرح اپنے انداز میں اپنی بساط کے مطابق انتہائی قابل ستائش کام کر رہی ہے۔ خدا قوم کے ایسے بچوں کو مزید ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔
یہ سب باتیں اچھی باتیں ہیں جو ایک ایسے معاشرے میں ہو رہی ہیں جس کے اندر لوگوں نے اچھی باتو ں کے بارے میں سوچنا بھی بند کر دیا ہے کیونکہ وہ ہر طرف سے بری باتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ سوائے بم دھماکوں، خودکش حملوں، قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کے انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ ذہنی طور پر بیمار ہو چکے ہیں اور صحت یاب ہونے کی امید کھو چکے ہیں۔ ایسی اچھی باتوں کا ہونا بعض اوقات گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جگنو کی پرواز بن کر امیدوں کو پھر سے جنم دینا شروع کر یتا ہے۔
خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔