جمہوریت کے پانچ سال
کراچی کے عوام کی محرومی کی وجہ خاص کوٹہ سسٹم ہے، اس کوٹہ سسٹم نے باصلاحیت افراد سے اس کی کامیابی اور خوشی چھین لی۔
صدر آصف علی زرداری نے کراچی کے حوالے سے کہا ہے کہ محفوظ کراچی پورے ملک کا بوجھ اٹھا سکتا ہے، کراچی کے مسئلے کو حل کرنے اور شہر کو محفوظ بنانے کے لیے غیر روایتی حل تلاش کرنے ہوں گے، اگر ملک کو محفوظ بنانا ہے تو کراچی کو محفوظ بنانا ہو گا، حکمراں اتحاد نے ملک میں غیر ریاستی عناصر کا راستہ روکا، ملک میں جمہوری حکومت کا مدت مکمل کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آج ملک میں جمہوری نظام مضبوط اور مستحکم ہو چکا ہے۔
آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر شفاف انداز میں منعقد کرا کے ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے اور انتخابات کے التوا کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ مواصلات کا شعبہ ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، صحت کے شعبے کی ترقی کے لیے مختلف منصوبوں کی تکمیل اور غریبوں میں مفت رہائش فراہم کرنے سے عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ہو گا۔
چلتے چلتے جناب صدر صاحب نے ایسی تقریر کی اور ان باتوں کا انکشاف کیا جن کو سننے کے لیے کان ترس گئے تھے۔ اپنے 5 سالہ دور حکومت پر اگر نظر ڈالیں تو بڑا ہی بھیانک اور خونیں دور نظر آتا ہے لیکن ان تمام حالات و واقعات کی ذمے داری اگر صدر صاحب کے کاندھوں پر ڈال دیں تو میرا خیال ہے کہ انصاف نہیں ہو گا چونکہ صوبائی حکومتیں بھی برابر کی نہیں تو تھوڑی بہت ذمے دار ضرور ہیں، کیونکہ کسی ملک کی ترقی و تنزلی میں وفاق کا رول بے حد اہم ہوتا ہے۔
صدر زرداری چونکہ ایک بڑے سیاستدان ہیں اگر نہ ہوتے تو اتنے بڑے بڑے بحرانوں کے ساتھ حکومت کر سکتے تھے۔ فوج، عدلیہ، فورسز ان کی ہم نوا رہی ہیں، تب یہ مدت گزر سکی ہے۔ ورنہ تعاون کے بغیر 5 سالہ حکومت کرنا ممکن نہیں تھا، انھوں نے مواصلات کی بھی بات کی، اب اگر مواصلات کی بات کریں تو ہوائی جہاز اور محکمہ ریلوے سے لے کر بسوں، موٹر سائیکلوں حتیٰ کہ گدھا گاڑی تک کا زوال ہو چکا ہے۔
ایسا ہی حال ریلوے کا ہے، بے چارے غریب مسافر موسموں کی سنگینی میں پلیٹ فارم پر بھوکے پیاسے بیٹھے ٹرین کا انتظار بڑی ہی اذیت کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ٹرین گھنٹوں دیر سے پہنچتی ہے، پھر سفر کے دوران ہی کبھی انجن میں خرابی ہو جاتی ہے تو کبھی ڈبے کٹ جاتے ہیں۔ اور چند گھنٹوں کا سفر کئی دنوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ کسی زمانے میں باہر سے درآمد کی ہوئی بسیں جو شہر میں خوبصورتی اور مسافروں کے لیے آرام کا باعث تھیں، میٹرو بس بھی چلا کرتی تھی جس میں نہ کہ اے۔ سی تھا بلکہ مسافر سیٹ بائی سیٹ بیٹھا کرتے اور سفر کے مزے لوٹتے تھے لیکن مسافروں کا یہ سکون و اطمینان حکومت کو پسند نہیں آیا۔ کوچ اور سرکاری بسیں، رکشہ، ٹیکسی، گدھا گاڑ یوں، گھوڑا گاڑیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ اب یہ سواریاں سڑکوں سے غائب ہیں۔
پٹرول اور سی این جی مہنگا ترین ہو گیا ہے، مٹی کا تیل بھی مہنگا ہونے کی وجہ سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ سڑکیں ویران اور شہری پریشان ہیں، بے شمار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے، ان حالات میں ٹرانسپورٹرز کم سے کم تعداد میں گاڑیاں چلواتے ہیں چونکہ جانی و مالی دونوں طرح کا خسارہ ہو چکا ہے۔ ہر چیز مہنگی ترین ہو گئی ہے، گھوڑوں، گدھوں کا چارہ بھی مہنگائی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کس طرح کمزور جانور بوجھ ڈھو سکتے ہیں؟ لہٰذا آئے دن جانوروں کے مرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں، ہمارے محلے کے دھوبی کی ہی مثال لے لیجیے بے چارے کے دو ناتواں گدھے چھ مہینے کے وقفے سے مر چکے ہیں اب وہ لوگوں سے قرضہ مانگتا پھرتا ہے۔
موٹر سائیکلیں بھی پانی سے نہیں چلتیں، آئے دن ڈبل سواری پر پابندی لگ جاتی ہے، لفٹ لینے والوں کے لیے یہ دن بڑے عذاب کے ہوتے ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے، نہ کہ جعلی دوائیں بنائی جاتی ہیں بلکہ فروخت بھی کی جاتی ہیں۔ نشہ آور اشیاء بھی بے حد آسانی کے ساتھ بازار میں بیچی جاتی ہیں۔ کہیں ڈنگی کا حملہ ہے تو کہیں جعلی دواؤں نے زندگی کے چراغ گل کر دیے اور اب تو ''ٹی بی'' جیسے مہلک مرض نے بھی پھر سر اٹھا لیا ہے، اب وہ کچھ ترقی کے ساتھ دنیا کے اسٹیج پر نمودار ہوئی ہے اور بے شمار لوگ اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔
رہی رہائش ۔۔۔۔۔ تو اس حوالے سے بھی کہانی بڑی دردناک ہے جن کے پاس چھتیں تھیں سر چھپانے کے لیے، ان میں سے بھی بہت سے لوگ محروم ہو چکے ہیں، قبضہ مافیا کا بھی بڑا چرچا ہے، جہاں چاہتے ہیں یہ لوگ قبضہ کرنے پہنچ جاتے ہیں، اسکول، اسپتال، خالی پلاٹ، تالا لگے گھر گویا ان کی ہی ملکیت ہیں۔ اسلحے کا استعمال آزادانہ ہے، جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ جہاں ملکی سطح پر پاکستان کے استحکام کو کمزور کیا گیا ہے وہاں صوبوں میں بھی بڑے برے حالات رہے ہیں، بلوچستان اور سندھ تشدد کی لپیٹ میں ہیں۔ اگر ہم صوبہ سندھ اور خاص کر کراچی کی بات کریں تو یہاں خوف و ہراس مہلک وبا کی صورت میں ہر شخص تک بڑی آسانی کے ساتھ پہنچ گیا ہے۔
کراچی جو کبھی عروس البلاد تھا، روشنیوں کا شہر تھا۔ ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، روزگار حاصل کرنے دوسرے شہروں سے لوگ آیا کرتے تھے اور کراچی اس قدر وسیع القلب تھا کہ ہر شخص کو بلاتعصب و نفرت کے پناہ دیا کرتا تھا اور آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے لیکن آنے والوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ کراچی کے عوام کی محرومی کی وجہ خاص کوٹہ سسٹم ہے، اس کوٹہ سسٹم نے باصلاحیت افراد سے اس کی کامیابی اور خوشی چھین لی، نا انصافی اور زیادتی کا تخم 1973ء میں بو دیا گیا تھا پھر اس کے بعد یہ بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھا اور تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا۔ جب آئین بن رہا تھا تو اس وقت ہر صوبائی اسمبلی میں زبان کا مسئلہ درپیش تھا۔
سرحد، بلوچستان اور پنجاب نے خوشی کے ساتھ بیان جاری کر دیا کہ ہماری زبان ''اردو'' ہو گی کہ اردو قومی زبان بھی ہے لیکن افسوس سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں سندھی زبان کو ترجیح دی گئی۔ بس یوں سمجھیں کہ حالات ادھر ہی سے کشیدہ ہو گئے، سندھی زبان کی وجہ سے سندھی نوجوان میرٹ پر اترنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا اور کوٹہ سسٹم وجود میں آ گیا۔ اس حوالے ہی سے جنرل حمید گل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ سندھی عوام کے ساتھ رعایت نہیں بہت بڑی زیادتی تھی۔
اگر وہاں سندھی کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی لازمی رہتی تو سندھی نوجوان دونوں زبانیں پڑھ کر سامنے آتا اور اوپن میرٹ پر اپنا حق لیتا، لیکن ایسا نہ ہوا، آج پوری پاکستانی قوم صرف اس لیے انگریزی زبان پر دسترس حاصل کرنا چاہتی ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر پیچھے نہ رہ جائیں، سندھی بھائیوں کو بھی اہل وطن کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کے لیے اردو کو گلے لگانا چاہیے تھا۔ پھر بھٹو صاحب نے 10 سال کا کوٹہ سسٹم رائج کر دیا۔ ملک کے کسی بھی صوبے میں دیہی و شہری کی تقسیم کی بنا پر نہیں ہے، مارشل لاء دور میں کوئی پوچھنے والا نہ تھا اس لیے کوٹہ سسٹم میں مزید 10 سال کی توسیع کر دی گئی، اب وہ عرصہ ختم ہو چکا ہے لیکن عملاً کوٹے کا نظام رائج ہے۔
ایک باعزت اور باغیرت قوم کے اندر کوٹے کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ کتنا ستم ہے کہ ایک کروڑ پتی وڈیرے کا وہ نالائق بیٹا جو کراچی یا ایچی سن میں پڑہتا ہے وہ بھی غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے مخصوص دیہی کوٹے پر قابض ہو جاتا ہے، اس طرح کی باتوں نے نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے۔'' اور اب تو محرومیوں کے کانٹے دور دور تک پھیل چکے ہیں۔ چونکہ جنرل حمید گل کا یہ مضمون بہت پہلے لکھا گیا تھا لیکن پاکستان اور خاص طور پر کراچی کے حالات بھی ایک طویل مدت سے خراب ہیں اور اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ حکومتی ارکان ایک دوسرے کو جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد مبارکبادیں پیش کر رہے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر مبارکباد کس بات کی؟
کیا بے شمار نوجوانوں کے قتل پر یا مہنگائی کے زہریلے ناگ کی پرورش پر یا تعلیمی اداروں میں شب خون مارنے پر یا خواتین کے قتل پر، ڈرون و خودکش حملوں پر، عدم تحفظ کے احساس پر، بھوکے مرنے اور خودکشی کرنے پر مبارکباد کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اب نگراں حکومت آنے والی ہے۔ پھر انتخابات۔۔۔۔۔؟ کیا ہو گا۔۔۔۔۔؟ اﷲ کو معلوم ہے کہ وہ عالم الغیب ہے۔
آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر شفاف انداز میں منعقد کرا کے ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے اور انتخابات کے التوا کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ مواصلات کا شعبہ ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، صحت کے شعبے کی ترقی کے لیے مختلف منصوبوں کی تکمیل اور غریبوں میں مفت رہائش فراہم کرنے سے عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ہو گا۔
چلتے چلتے جناب صدر صاحب نے ایسی تقریر کی اور ان باتوں کا انکشاف کیا جن کو سننے کے لیے کان ترس گئے تھے۔ اپنے 5 سالہ دور حکومت پر اگر نظر ڈالیں تو بڑا ہی بھیانک اور خونیں دور نظر آتا ہے لیکن ان تمام حالات و واقعات کی ذمے داری اگر صدر صاحب کے کاندھوں پر ڈال دیں تو میرا خیال ہے کہ انصاف نہیں ہو گا چونکہ صوبائی حکومتیں بھی برابر کی نہیں تو تھوڑی بہت ذمے دار ضرور ہیں، کیونکہ کسی ملک کی ترقی و تنزلی میں وفاق کا رول بے حد اہم ہوتا ہے۔
صدر زرداری چونکہ ایک بڑے سیاستدان ہیں اگر نہ ہوتے تو اتنے بڑے بڑے بحرانوں کے ساتھ حکومت کر سکتے تھے۔ فوج، عدلیہ، فورسز ان کی ہم نوا رہی ہیں، تب یہ مدت گزر سکی ہے۔ ورنہ تعاون کے بغیر 5 سالہ حکومت کرنا ممکن نہیں تھا، انھوں نے مواصلات کی بھی بات کی، اب اگر مواصلات کی بات کریں تو ہوائی جہاز اور محکمہ ریلوے سے لے کر بسوں، موٹر سائیکلوں حتیٰ کہ گدھا گاڑی تک کا زوال ہو چکا ہے۔
ایسا ہی حال ریلوے کا ہے، بے چارے غریب مسافر موسموں کی سنگینی میں پلیٹ فارم پر بھوکے پیاسے بیٹھے ٹرین کا انتظار بڑی ہی اذیت کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ٹرین گھنٹوں دیر سے پہنچتی ہے، پھر سفر کے دوران ہی کبھی انجن میں خرابی ہو جاتی ہے تو کبھی ڈبے کٹ جاتے ہیں۔ اور چند گھنٹوں کا سفر کئی دنوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ کسی زمانے میں باہر سے درآمد کی ہوئی بسیں جو شہر میں خوبصورتی اور مسافروں کے لیے آرام کا باعث تھیں، میٹرو بس بھی چلا کرتی تھی جس میں نہ کہ اے۔ سی تھا بلکہ مسافر سیٹ بائی سیٹ بیٹھا کرتے اور سفر کے مزے لوٹتے تھے لیکن مسافروں کا یہ سکون و اطمینان حکومت کو پسند نہیں آیا۔ کوچ اور سرکاری بسیں، رکشہ، ٹیکسی، گدھا گاڑ یوں، گھوڑا گاڑیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ اب یہ سواریاں سڑکوں سے غائب ہیں۔
پٹرول اور سی این جی مہنگا ترین ہو گیا ہے، مٹی کا تیل بھی مہنگا ہونے کی وجہ سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ سڑکیں ویران اور شہری پریشان ہیں، بے شمار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے، ان حالات میں ٹرانسپورٹرز کم سے کم تعداد میں گاڑیاں چلواتے ہیں چونکہ جانی و مالی دونوں طرح کا خسارہ ہو چکا ہے۔ ہر چیز مہنگی ترین ہو گئی ہے، گھوڑوں، گدھوں کا چارہ بھی مہنگائی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کس طرح کمزور جانور بوجھ ڈھو سکتے ہیں؟ لہٰذا آئے دن جانوروں کے مرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں، ہمارے محلے کے دھوبی کی ہی مثال لے لیجیے بے چارے کے دو ناتواں گدھے چھ مہینے کے وقفے سے مر چکے ہیں اب وہ لوگوں سے قرضہ مانگتا پھرتا ہے۔
موٹر سائیکلیں بھی پانی سے نہیں چلتیں، آئے دن ڈبل سواری پر پابندی لگ جاتی ہے، لفٹ لینے والوں کے لیے یہ دن بڑے عذاب کے ہوتے ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے، نہ کہ جعلی دوائیں بنائی جاتی ہیں بلکہ فروخت بھی کی جاتی ہیں۔ نشہ آور اشیاء بھی بے حد آسانی کے ساتھ بازار میں بیچی جاتی ہیں۔ کہیں ڈنگی کا حملہ ہے تو کہیں جعلی دواؤں نے زندگی کے چراغ گل کر دیے اور اب تو ''ٹی بی'' جیسے مہلک مرض نے بھی پھر سر اٹھا لیا ہے، اب وہ کچھ ترقی کے ساتھ دنیا کے اسٹیج پر نمودار ہوئی ہے اور بے شمار لوگ اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔
رہی رہائش ۔۔۔۔۔ تو اس حوالے سے بھی کہانی بڑی دردناک ہے جن کے پاس چھتیں تھیں سر چھپانے کے لیے، ان میں سے بھی بہت سے لوگ محروم ہو چکے ہیں، قبضہ مافیا کا بھی بڑا چرچا ہے، جہاں چاہتے ہیں یہ لوگ قبضہ کرنے پہنچ جاتے ہیں، اسکول، اسپتال، خالی پلاٹ، تالا لگے گھر گویا ان کی ہی ملکیت ہیں۔ اسلحے کا استعمال آزادانہ ہے، جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ جہاں ملکی سطح پر پاکستان کے استحکام کو کمزور کیا گیا ہے وہاں صوبوں میں بھی بڑے برے حالات رہے ہیں، بلوچستان اور سندھ تشدد کی لپیٹ میں ہیں۔ اگر ہم صوبہ سندھ اور خاص کر کراچی کی بات کریں تو یہاں خوف و ہراس مہلک وبا کی صورت میں ہر شخص تک بڑی آسانی کے ساتھ پہنچ گیا ہے۔
کراچی جو کبھی عروس البلاد تھا، روشنیوں کا شہر تھا۔ ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، روزگار حاصل کرنے دوسرے شہروں سے لوگ آیا کرتے تھے اور کراچی اس قدر وسیع القلب تھا کہ ہر شخص کو بلاتعصب و نفرت کے پناہ دیا کرتا تھا اور آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے لیکن آنے والوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ کراچی کے عوام کی محرومی کی وجہ خاص کوٹہ سسٹم ہے، اس کوٹہ سسٹم نے باصلاحیت افراد سے اس کی کامیابی اور خوشی چھین لی، نا انصافی اور زیادتی کا تخم 1973ء میں بو دیا گیا تھا پھر اس کے بعد یہ بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھا اور تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا۔ جب آئین بن رہا تھا تو اس وقت ہر صوبائی اسمبلی میں زبان کا مسئلہ درپیش تھا۔
سرحد، بلوچستان اور پنجاب نے خوشی کے ساتھ بیان جاری کر دیا کہ ہماری زبان ''اردو'' ہو گی کہ اردو قومی زبان بھی ہے لیکن افسوس سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں سندھی زبان کو ترجیح دی گئی۔ بس یوں سمجھیں کہ حالات ادھر ہی سے کشیدہ ہو گئے، سندھی زبان کی وجہ سے سندھی نوجوان میرٹ پر اترنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا اور کوٹہ سسٹم وجود میں آ گیا۔ اس حوالے ہی سے جنرل حمید گل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ سندھی عوام کے ساتھ رعایت نہیں بہت بڑی زیادتی تھی۔
اگر وہاں سندھی کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی لازمی رہتی تو سندھی نوجوان دونوں زبانیں پڑھ کر سامنے آتا اور اوپن میرٹ پر اپنا حق لیتا، لیکن ایسا نہ ہوا، آج پوری پاکستانی قوم صرف اس لیے انگریزی زبان پر دسترس حاصل کرنا چاہتی ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر پیچھے نہ رہ جائیں، سندھی بھائیوں کو بھی اہل وطن کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کے لیے اردو کو گلے لگانا چاہیے تھا۔ پھر بھٹو صاحب نے 10 سال کا کوٹہ سسٹم رائج کر دیا۔ ملک کے کسی بھی صوبے میں دیہی و شہری کی تقسیم کی بنا پر نہیں ہے، مارشل لاء دور میں کوئی پوچھنے والا نہ تھا اس لیے کوٹہ سسٹم میں مزید 10 سال کی توسیع کر دی گئی، اب وہ عرصہ ختم ہو چکا ہے لیکن عملاً کوٹے کا نظام رائج ہے۔
ایک باعزت اور باغیرت قوم کے اندر کوٹے کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ کتنا ستم ہے کہ ایک کروڑ پتی وڈیرے کا وہ نالائق بیٹا جو کراچی یا ایچی سن میں پڑہتا ہے وہ بھی غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے مخصوص دیہی کوٹے پر قابض ہو جاتا ہے، اس طرح کی باتوں نے نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے۔'' اور اب تو محرومیوں کے کانٹے دور دور تک پھیل چکے ہیں۔ چونکہ جنرل حمید گل کا یہ مضمون بہت پہلے لکھا گیا تھا لیکن پاکستان اور خاص طور پر کراچی کے حالات بھی ایک طویل مدت سے خراب ہیں اور اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ حکومتی ارکان ایک دوسرے کو جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد مبارکبادیں پیش کر رہے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر مبارکباد کس بات کی؟
کیا بے شمار نوجوانوں کے قتل پر یا مہنگائی کے زہریلے ناگ کی پرورش پر یا تعلیمی اداروں میں شب خون مارنے پر یا خواتین کے قتل پر، ڈرون و خودکش حملوں پر، عدم تحفظ کے احساس پر، بھوکے مرنے اور خودکشی کرنے پر مبارکباد کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اب نگراں حکومت آنے والی ہے۔ پھر انتخابات۔۔۔۔۔؟ کیا ہو گا۔۔۔۔۔؟ اﷲ کو معلوم ہے کہ وہ عالم الغیب ہے۔