عہدِ جدید اور ادب کا زوال دوسرا حصہ
انسانوں کے لیے جو راہیں ترقی کی منزلوں کو جانے والی سمجھی گئیں خود اُن کے لیے بھی تباہی کا براہِ راست سفر ثابت ہوئیں۔
ISLAMABAD:
عہدِجدید اور اس کے انسان کی صورتِ حال کو ہم نے دیکھ لیا اور اب یہ حقیقت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہی کہ آج کی انسانی زندگی اکائی کی اس کیفیت سے محروم ہوچکی ہے جو اُسے پہلے کے مربوط اور روایتی معاشرے میں حاصل تھی۔
انسان کا اپنے معاشرے، پھر اس کائنات اور خدا کے ساتھ جو ربط تھا، وہ ٹوٹ چکا ہے، اور جن معاشروں میں وہ بظاہر ٹوٹا ہوا نظر نہیں آتا، وہاں بھی اس میں اتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ وہ غیرمؤثر اور بے معنیٰ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی لیے عہدِ جدید کا انسان یقین، ارتباط اور تسکین کے احساسات سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اب وہ جس سمت رواں ہے، صاف نظر آتا ہے کہ اُس راستے پر آگے چل کر تو وہ ان احساسات کے تصور تک سے نابلد ہوجائے گا۔ گویا یہ اُس کے معاشرتی اور تہذیبی سفر کی کامل نفی کا مرحلہ ہوگا۔
معروف ایرانی اسکالر سیّد حسین نصر نے اپنی کتاب Islam and the Plight of Modern Man میں مغرب کے اہلِ دانش کے احساسات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں سوچنے والے ذہنوں کے پیشِ نظر جو سب سے اہم سوال رہا، وہ یہ تھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ صنعتی ترقی کے حامل ممالک میں نشاۃِ ثانیہ کے بعد انسانوں کے لیے جو راہیں ترقی کی منزلوں کو جانے والی سمجھی گئیں، بعد کو معلوم ہوا کہ وہ اُن کے ماحول ہی کے لیے نہیں خود اُن کے لیے بھی تباہی کا براہِ راست سفر ثابت ہوئیں۔
یہ ہے عہدِ جدید اور اُس کے انسان کی ترقی کے لیے تگ و تاز کا حاصل۔
یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اب تک اس گفتگو میں جن دلائل و براہین سے کام لیا گیا ہے، وہ تو سب کے سب فکر و فلسفہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں، اہلِ ادب کے اس باب میں افکار و تصورات سامنے آئے ہی نہیں۔ درست بات ہے، سو آئیے کچھ اس طرف بھی نگاہ ڈال لی جائے۔یوں تو بیسویں صدی کا کم و بیش سارا ہی ادب خواہ وہ یورپ میں تخلیق ہوا یا امریکا میں یا پھر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں- انسانی احساس کی شکست، وجود کی پائمالی اور روح کی ابتری کی ایسی داستان سناتا ہے کہ اس امر کا یقین دل سے اٹھتا محسوس ہوتا ہے کہ اس ارضِ موعود پر انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت سے اتارا گیا ہوگا۔
بالخصوص بیسویں صدی کے دوسرے نصف اور اُس کی بھی آخری دہائیوں کا ادب تو انسانی زندگی کو ایک ڈرائونے خواب کے طور پر اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس میں دل دہلا دینے والی چیخوں تک کو سنا جاسکتا ہے۔ گیبریئل گارشیا مارکیز، میلان کنڈیرا، نجیب محفوظ، گنتر گراس، ہوزے سارا ماگو، وسلاوا سمبورِسکا، ڈیرک والکاٹ، اوکٹوویو پاز، کنیزا بورا اوئے- غرض بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے کسی بھی نمائندہ ادیب شاعر کو اٹھا کر پڑھ لیجیے، معلوم ہوگا کہ اصل میں آشفتگانِ حیات اور افتادگانِ زمین و زماں کا نوحہ گر ہے اور تحریر کو دُکھ سے کاڑھتا اور آنسوئوں سے گوندھتا ہے۔
اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے، بچھڑے ہوئے زمانے، چھوٹی ہوئی زمینیں اور ٹوٹے ہوئے رشتے ہمیشہ ہی لکھنے والوں کے دلوں کو گودتے رہے ہیں، لیکن اس صدی کی اختتامی دہائیوں میں جو ادب تخلیق ہوا ہے، اس کو پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ انسان کی تقدیر میں صرف اور صرف کرب و اندوہ لکھا گیا ہے اور وہ بھی ہزار صورتوں میں۔ جدید ادب کی اس کیفیت کو دیکھ کر اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انسان کی ترقی، خوشی اور خوش حالی کا وہ سارا اعلامیہ جو عہدِ جدید سے منسوب ہے، یکسر کذب و افترا ہے۔ ترقی اور سرفرازی کا یہ دعویٰ سراسر انسانی زندگی پر بہتان باندھنے کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ انسانی روح کی ابتلا کا جو احوال جدید ادب نے ریکارڈ کیا ہے، اس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عہد کی زندگی دُکھ اور آزمائش کی ماری ہوئی نظر آتی ہے اور اس تناظر میں اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیرہ چارہ نہیں کہ مغرب کا کم و بیش سارا ہی جدید ادب اُس کے منحرف گواہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب کہنے کو تو یہ بات بے دھڑک کہہ دی گئی، لیکن ہمیں اس مقام سے یوں ہی سرسری نہیں گزرنا چاہیے، بلکہ گھڑی بھر کو رُک کر یہ سمجھنا چاہیے کہ جدید مغربی ادب کو جو ہم اُس کی تہذیب کا منحرف گواہ کہے دیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں- ایک یہ کہ جدید ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا جس میں آج ہم جی رہے ہیں، اس کی ماہیت کیا ہے، حقیقت کیا ہے، اصلیت کیا ہے۔
جدید ادب ہمیں بتاتا ہے کہ آج ہمارے ساتھ، ہمارے دائیں بائیں یا خود ہمارے اندر جینے والے انسان کی محرومی، ناسپاسی، واماندگی، مایوسی اور اضمحلال کا اظہار کن کن شکلوں میں ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اُس کے اندر سے تہذیب و معاشرت کا دیا ہوا یقین اور وابستگی کا احساس کیسے ماند پڑتا ہے، فطرت کا ودیعت کیا ہوا تطہیر کا عمل کس طرح رُکتا ہے اور پھر جذبہ کیسے جبلت کی سطح پر اتر آتا ہے اور اس سے بھی آگے جبلت کے تاریک اور گھنے جنگلوں میں اتر آنے کے بعد انسان کس طرح اپنی روح کو جہنم بنالیتا ہے۔
مغرب کے اس جدید ادب میں اس سارے مسئلے اور انسانی احساس کی مجروح صورتوں کو بڑی صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ چناںچہ انسانی اعمال و احوال کی ابتری کا یہ نقشہ دیکھنے کے لیے ہمیں بہت پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، بلکہ جدید عہد کے ہر بڑے ادیب کے یہاں ہمیں اس کیفیت کا کوئی نہ کوئی نشان بہ آسانی مل جاتا ہے- اور ہاں، یاد رکھنے کی بات اس وقت یہ ہے کہ ہم اُن لکھنے والوں کا کوئی ذکر نہیں کر رہے جنھیں cult of ugliness کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے، یعنی جو صرف اور صرف بدی اور بدصورتی پر ہی نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ وہ تو ویسے ہی اس وقت ہماری گفتگو کے دائرے سے خارج ہیں۔
فی الحال تو صرف اُن ادیبوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کے یہاں ادب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی درجے میں بہرطور حسن، خیر اور سچائی پر منحصر ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے یہاں انسان کے تہذیبی سفر کی نفی مقصود و منشا نہیں ہے، لیکن وہ اپنے عہد کے حقائق اور انسانی سماج کی سچائیوں سے منہ موڑ کر اور خود فریبی کا پردہ تان کر بھی زندگی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ولیم گولڈنگ کا ناول Rites of Passage، نجیب محفوظ کا Children of Gebelwi، ناڈین گورڈیمیر کا My Son's Story، ٹونی موری سن کا Song of Solomon، کنیزا بورو اوئے کا The Silent Cry، مارکیز کا Hundred Years of Solitude، میلان کنڈیرا کا Unbearable Lightness of Being اور The Book of Laughter and Forgetting جیسی کتابیں ہمیں تاریخ، تہذیب اور سیاست کے سیاق و سباق میں انسانی استحصال، تحقیر اور بے قیمتی کی وہ شکلیں دکھاتی اور ایسی رُوداد سناتی ہیں کہ رگوں میں دوڑتے خون کے خلیوں کی کیفیت و کمیت بدل کر رہ جائے۔ ولیم گولڈنگ کا تو اصرار اسی بات پر ہے کہ انسانی سماج میں شر یا بدی کے مظاہر کچھ اور نہیں دراصل انسان کے اندر کا وہ سیاہ عنصر اور تاریک منطقہ ہے جو فساد، سفاکی اور بربریت کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے اور اس عہد کی انسانی زندگی میں جس کا کردار اور اثرات نمایاں طور سے سامنے آتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ پورے جدید ادب کا مسئلہ ہے کہ اس نے اپنی عصری انسانی حقیقتوں اور اُن کے پیداکردہ سارے ارتعاشات کو سماجی روابط یا انسان سے انسان کے تعلق کی مد میں ریکارڈ کرلیا ہے۔ اب اس کے افسردہ کردینے والے تجربات اپنی جگہ، لیکن ہمیں اس ادب کو ضرور داد دینی چاہیے کہ اس نے اپنے لیے اس پیکیجنگ کو قبول کرنے سے انکار کردیا جو کہ عہدِجدید نے اپنی تہذیب و معاشرت اور اخلاق و اطوار کی ابتری کو چھپانے کے لیے ترقی کے نام پر کی ہے۔ مغرب کا جدید ادب ہمارے لیے تکلیف اور تشویش کے کئی پہلو رکھتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ادب نے مغرب کی ترقی کا پردہ فاش کیا اور ذمے داری سے اس کے خلاف اپنی گواہی ریکارڈ کرائی ہے۔
تاہم یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ اب آئیے دوسرے پہلو کی طرف۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج دنیا سے خیر کو مکمل طور پر اٹھا لیا گیا ہے اور ہم کامل بدی کی عمل داری میں جی رہے ہیں؟ اقتداری اور سیاسی نظام کی اس یونی پولر دنیا کے بارے میں میلکم بریڈبری کے اس خیال کی تردید تو بے شک ہم نہیں کرسکتے کہ نیو ورلڈ آرڈر دراصل جلد ہی نیو ورلڈ ڈس آرڈر ثابت ہوا، لیکن اس کے باوجود یہ مان لینا کہ خیر کا عنصر اس دنیا سے مکمل اور مستقل طور پر اٹھا لیا گیا، کسی طور ممکن نہیں۔ یہی نہیں، ہمیں دیانت اور جرأت کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ سچ اور خیر عصرِحاضر کی۔
اس دنیا میں محض علامتی سطح پر یعنی غیرمؤثر انداز میں یا صرف ہمارے ذہنوں میں نہیں، بلکہ روز و شب ہمارے تجربے میں آنے والی حقیقی دُنیا میں اپنی اصل اور مؤثر صورت میں اب بھی قائم ہیں۔ اس کا اظہار سیاست میں آج کی سیاسی مقتدرہ کے اندھے اقدامات اور ننگی جارحیت کے خلاف ہونے والے مختلف اقوام اور ملکوں کی طرف سے مظاہروں اور اٹھائی جانے والی آوازوں سے ہوتا ہے تو اخلاقی سطح پر اُس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب آفاتِ ارضی و سماوی میں رنگ، نسل، قوم، زبان اور مذہب کے تمام امتیازات کو پسِ پشت ڈال کر مختلف افراد و اقوام کی طرف سے محض انسانی حوالے کو بنیاد بنا کر دستِ تعاون اور دامنِ دل کی کشادگی کے مناظر سامنے آتے ہیں۔ یہ سب بھی ہمارے زمانے کی ناقابلِ تردید سچائیاں ہیں اور ان کو دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری یہ دُنیا خیر سے یکسر خالی ہوچکی ہے یا انسانوں میں سے انسانیت اب ختم ہوگئی ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ جدید ادب نے انسان کے بنیادی خیر کے عنصر کو فراموش کرکے آخر بار بار اُس کے شر کو ہی کیوں اپنا موضوع بنایا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو پورے جدید ادب کے خلاف ناقابلِ رد استغاثہ بن جاتا ہے اور یوں اُس کی سچائی اور بے باکی سے لے کر فکر و نظر اور معنی آفرینی تک سب کچھ معرضِ تشکیک میں آجاتا ہے۔ یہی اس تہذیب کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہ جس جوہر اور ہنر کو اپنا نشانِ امتیاز بناتی ہے (یعنی ترقی اور خوش حالی)، اُس کی تکذیب و بطلان کا جواز بھی خود اسی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو مغرب کے اُس فکری سفر کی منطقی منزل یہی ہے جس کا آغاز خدا کی معزولی سے ہوا تھا۔
خدا کے خلا کو فلسفوں، نظریوں اور انسان کی خود مکتفی برتری کے احساس سے پُر کرنے کی مغرب نے اپنی سی تو پوری کوشش کی، لیکن تا بہ کے۔ جس منصب پر خدا کی الوہیت اپنا جواز قائم نہ رکھ سکی آخر وہاں انسان کی انسانیت کا چلن کب تک رہ سکتا تھا۔ ایک نہ ایک دن تو اس انسانیت کا جنازہ اٹھنا ہی تھا۔ اب وہ مرحلہ جب آیا اور انسان بھی اس خدائی منصب سے معزول ہوا تو اس کے عیب کھلنے لگے اور پھر تو کھلتے ہی چلے گئے۔ دُنیا تضادات کی آماج گاہ بن کر رہ گئی۔ پہلے علوم و ادبیات ایک وسیع اور مربوط بنیاد پر قائم تھے اور ایک integrated vision کو سامنے لاتے تھے۔ مذہبیات و اخلاقیات سے جمالیات و لسانیات تک ہمیں ایک بنیادی اصول اور ایک اساسی فکر ہر جگہ کارفرما نظر آتی تھی۔ جدید دُنیا میں وہ اصول اور فکر دونوں معدوم ہوگئے۔
سو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ عالمی گائوں دراصل تضادات کی دنیا ہے جس میں اخلاقیات، جمالیات اور لسانیات کی سرحدیں تحلیل ہوتے ہوئے آپس میں مدغم ہوکر اس طرح سامنے آرہی ہیں کہ اُن سے کسی امید کی کوئی کرن نہیں پھوٹتی۔ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی سے ایک طرف انسان کے اردگرد چکاچوند کا مشاہدہ ہوتا ہے تو دوسری طرف خود اس کے اندر اندھیرا گھٹاٹوپ ہوگیا ہے۔ تاریخ کے دوسرے ادوار کی طرح عہدِ جدید سے اُس کے لکھنے والے کا بھی ایک داخلی ربط ہے جسے وہ اپنی تحریر میں چھپانا بھی چاہے تو چھپا نہیں پاتا۔ چناںچہ اس کی تحریروں میں اپنے عہد کے انسان کی سچائی کا اظہار جس طرح ہو رہا ہے، اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور خیر سے اس کا یقین اٹھ چکا ہے، اس لیے کہ اب انسان اُس کے نزدیک غلطی کا نہیں سراسر بدی کا پتلا ہے۔ یہ ہے وہ پہلو جو ہمیں بتاتا ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کی روح، اُس کا اعماقِ جاں دراصل جہنم بن چکا ہے اور آج یہ حقیقت اپنی پوری سفاکی کے ساتھ اُس کے شعور پر منکشف ہے۔
عہدِ جدید کے افکار و ادبیات کی اس سرسری سیاحی کے بعد آئیے اب اپنے ادب کی طرف آتے ہیں کہ جس کے بہانے اس سیر کا موقع نکل آیا۔ آج ہم سب ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جسے گلوبل ولیج کہا جاتا ہے۔ اس عالمی گائوں میں اوّل تو جغرافیائی سرحدوں کا بھی وہ تصور برقرار نہیں رہا، لیکن پھر بھی چلیے ظاہراً ہی سہی، کم سے کم وہ کسی حد تک تو نظر آتا ہے، لیکن اقوام و ملل کا شناختی نشان تو دراصل اُن کی تہذیب ہوا کرتی تھی۔
گلوبل ولیج نے سب سے کاری ضرب اسی امتیازی نشان پر لگائی ہے۔ اب ہم سب کولا، پیزا اور نیٹ کی ڈور سے بندھے ہوئے ایک عالمی گائوں میں مغائرت، بے یقینی، بے حسی، خوف اور رائگانی کے جان لیوا احساسات کی اندوہ ناک خاموشی کے اسیر ہیں۔ اس گفتگو کی ابتدا میں ہم کہہ آئے ہیں کہ تہذیبی اقدار کا ڈھانچا اوّل تو کم و بیش سارے ہی معاشروں میں ختم ہوچکا اور اگر کسی جگہ نہیں ہوا تو وہاں بھی اس قدر کم زور بہرحال ہوگیا ہے کہ اب انسان کی ذہنی ساخت اور سماجی معاملات پر پہلے کی طرح اپنی اثر پذیری کی قوت بہرحال نہیں رکھتا۔ اس عصری حقیقت کے اثرات اپنے معاشرے پر بھی صاف صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔
اجمالاً ہی سہی لیکن اپنی معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی صورتِ حال کا یہ نقشہ اپنے سامنے رکھتے ہوئے، اب سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں ہم اپنے ادب سے کیا مطالبہ کرتے ہیں؟ اب یوں تو ایک مطالبہ نہیں، مطالبات کی نامختتم فہرست اس سوال کے جواب میں یار لوگ ترتیب دے سکتے ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے سوال کے جواب میں اس اصولی مؤقف کا اظہار کرنا چاہیے جو اپنے عصر کے تقاضے اور تہذیب کی روح سے بہ یک وقت کلام کرتا ہو- اور وہ بھی نہایت categorically اور بے حد concisely۔ تو اپنے ادب سے ہمارا مطالبہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف اُسے اپنے عصر کی حقیقی انسانی کیفیت کا نباض ہونا چاہیے، اپنے نوعی معیار اور داخلی استدلال کے ساتھ، اور دوسری طرف اُسے ہماری تہذیبی، اخلاقی اور جمالیاتی قدروں کی پاس داری اس طور کرنی چاہیے کہ ان پر ہمارا اعتبار قائم رہے تاکہ وقت کے اس بہائو میں وہ دست بردِ زمانہ کی نذر نہ ہوں۔ سو، اگر ہمارا معاصر ادب اس مطالبے کو پورا کرتا ہے تو وہ اپنی داخلی قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے تو ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا ادب زوال آمادہ ہے۔ (جاری ہے)
عہدِجدید اور اس کے انسان کی صورتِ حال کو ہم نے دیکھ لیا اور اب یہ حقیقت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہی کہ آج کی انسانی زندگی اکائی کی اس کیفیت سے محروم ہوچکی ہے جو اُسے پہلے کے مربوط اور روایتی معاشرے میں حاصل تھی۔
انسان کا اپنے معاشرے، پھر اس کائنات اور خدا کے ساتھ جو ربط تھا، وہ ٹوٹ چکا ہے، اور جن معاشروں میں وہ بظاہر ٹوٹا ہوا نظر نہیں آتا، وہاں بھی اس میں اتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ وہ غیرمؤثر اور بے معنیٰ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی لیے عہدِ جدید کا انسان یقین، ارتباط اور تسکین کے احساسات سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اب وہ جس سمت رواں ہے، صاف نظر آتا ہے کہ اُس راستے پر آگے چل کر تو وہ ان احساسات کے تصور تک سے نابلد ہوجائے گا۔ گویا یہ اُس کے معاشرتی اور تہذیبی سفر کی کامل نفی کا مرحلہ ہوگا۔
معروف ایرانی اسکالر سیّد حسین نصر نے اپنی کتاب Islam and the Plight of Modern Man میں مغرب کے اہلِ دانش کے احساسات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں سوچنے والے ذہنوں کے پیشِ نظر جو سب سے اہم سوال رہا، وہ یہ تھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ صنعتی ترقی کے حامل ممالک میں نشاۃِ ثانیہ کے بعد انسانوں کے لیے جو راہیں ترقی کی منزلوں کو جانے والی سمجھی گئیں، بعد کو معلوم ہوا کہ وہ اُن کے ماحول ہی کے لیے نہیں خود اُن کے لیے بھی تباہی کا براہِ راست سفر ثابت ہوئیں۔
یہ ہے عہدِ جدید اور اُس کے انسان کی ترقی کے لیے تگ و تاز کا حاصل۔
یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اب تک اس گفتگو میں جن دلائل و براہین سے کام لیا گیا ہے، وہ تو سب کے سب فکر و فلسفہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں، اہلِ ادب کے اس باب میں افکار و تصورات سامنے آئے ہی نہیں۔ درست بات ہے، سو آئیے کچھ اس طرف بھی نگاہ ڈال لی جائے۔یوں تو بیسویں صدی کا کم و بیش سارا ہی ادب خواہ وہ یورپ میں تخلیق ہوا یا امریکا میں یا پھر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں- انسانی احساس کی شکست، وجود کی پائمالی اور روح کی ابتری کی ایسی داستان سناتا ہے کہ اس امر کا یقین دل سے اٹھتا محسوس ہوتا ہے کہ اس ارضِ موعود پر انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت سے اتارا گیا ہوگا۔
بالخصوص بیسویں صدی کے دوسرے نصف اور اُس کی بھی آخری دہائیوں کا ادب تو انسانی زندگی کو ایک ڈرائونے خواب کے طور پر اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس میں دل دہلا دینے والی چیخوں تک کو سنا جاسکتا ہے۔ گیبریئل گارشیا مارکیز، میلان کنڈیرا، نجیب محفوظ، گنتر گراس، ہوزے سارا ماگو، وسلاوا سمبورِسکا، ڈیرک والکاٹ، اوکٹوویو پاز، کنیزا بورا اوئے- غرض بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے کسی بھی نمائندہ ادیب شاعر کو اٹھا کر پڑھ لیجیے، معلوم ہوگا کہ اصل میں آشفتگانِ حیات اور افتادگانِ زمین و زماں کا نوحہ گر ہے اور تحریر کو دُکھ سے کاڑھتا اور آنسوئوں سے گوندھتا ہے۔
اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے، بچھڑے ہوئے زمانے، چھوٹی ہوئی زمینیں اور ٹوٹے ہوئے رشتے ہمیشہ ہی لکھنے والوں کے دلوں کو گودتے رہے ہیں، لیکن اس صدی کی اختتامی دہائیوں میں جو ادب تخلیق ہوا ہے، اس کو پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ انسان کی تقدیر میں صرف اور صرف کرب و اندوہ لکھا گیا ہے اور وہ بھی ہزار صورتوں میں۔ جدید ادب کی اس کیفیت کو دیکھ کر اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انسان کی ترقی، خوشی اور خوش حالی کا وہ سارا اعلامیہ جو عہدِ جدید سے منسوب ہے، یکسر کذب و افترا ہے۔ ترقی اور سرفرازی کا یہ دعویٰ سراسر انسانی زندگی پر بہتان باندھنے کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ انسانی روح کی ابتلا کا جو احوال جدید ادب نے ریکارڈ کیا ہے، اس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عہد کی زندگی دُکھ اور آزمائش کی ماری ہوئی نظر آتی ہے اور اس تناظر میں اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیرہ چارہ نہیں کہ مغرب کا کم و بیش سارا ہی جدید ادب اُس کے منحرف گواہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب کہنے کو تو یہ بات بے دھڑک کہہ دی گئی، لیکن ہمیں اس مقام سے یوں ہی سرسری نہیں گزرنا چاہیے، بلکہ گھڑی بھر کو رُک کر یہ سمجھنا چاہیے کہ جدید مغربی ادب کو جو ہم اُس کی تہذیب کا منحرف گواہ کہے دیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں- ایک یہ کہ جدید ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا جس میں آج ہم جی رہے ہیں، اس کی ماہیت کیا ہے، حقیقت کیا ہے، اصلیت کیا ہے۔
جدید ادب ہمیں بتاتا ہے کہ آج ہمارے ساتھ، ہمارے دائیں بائیں یا خود ہمارے اندر جینے والے انسان کی محرومی، ناسپاسی، واماندگی، مایوسی اور اضمحلال کا اظہار کن کن شکلوں میں ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اُس کے اندر سے تہذیب و معاشرت کا دیا ہوا یقین اور وابستگی کا احساس کیسے ماند پڑتا ہے، فطرت کا ودیعت کیا ہوا تطہیر کا عمل کس طرح رُکتا ہے اور پھر جذبہ کیسے جبلت کی سطح پر اتر آتا ہے اور اس سے بھی آگے جبلت کے تاریک اور گھنے جنگلوں میں اتر آنے کے بعد انسان کس طرح اپنی روح کو جہنم بنالیتا ہے۔
مغرب کے اس جدید ادب میں اس سارے مسئلے اور انسانی احساس کی مجروح صورتوں کو بڑی صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ چناںچہ انسانی اعمال و احوال کی ابتری کا یہ نقشہ دیکھنے کے لیے ہمیں بہت پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، بلکہ جدید عہد کے ہر بڑے ادیب کے یہاں ہمیں اس کیفیت کا کوئی نہ کوئی نشان بہ آسانی مل جاتا ہے- اور ہاں، یاد رکھنے کی بات اس وقت یہ ہے کہ ہم اُن لکھنے والوں کا کوئی ذکر نہیں کر رہے جنھیں cult of ugliness کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے، یعنی جو صرف اور صرف بدی اور بدصورتی پر ہی نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ وہ تو ویسے ہی اس وقت ہماری گفتگو کے دائرے سے خارج ہیں۔
فی الحال تو صرف اُن ادیبوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کے یہاں ادب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی درجے میں بہرطور حسن، خیر اور سچائی پر منحصر ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے یہاں انسان کے تہذیبی سفر کی نفی مقصود و منشا نہیں ہے، لیکن وہ اپنے عہد کے حقائق اور انسانی سماج کی سچائیوں سے منہ موڑ کر اور خود فریبی کا پردہ تان کر بھی زندگی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ولیم گولڈنگ کا ناول Rites of Passage، نجیب محفوظ کا Children of Gebelwi، ناڈین گورڈیمیر کا My Son's Story، ٹونی موری سن کا Song of Solomon، کنیزا بورو اوئے کا The Silent Cry، مارکیز کا Hundred Years of Solitude، میلان کنڈیرا کا Unbearable Lightness of Being اور The Book of Laughter and Forgetting جیسی کتابیں ہمیں تاریخ، تہذیب اور سیاست کے سیاق و سباق میں انسانی استحصال، تحقیر اور بے قیمتی کی وہ شکلیں دکھاتی اور ایسی رُوداد سناتی ہیں کہ رگوں میں دوڑتے خون کے خلیوں کی کیفیت و کمیت بدل کر رہ جائے۔ ولیم گولڈنگ کا تو اصرار اسی بات پر ہے کہ انسانی سماج میں شر یا بدی کے مظاہر کچھ اور نہیں دراصل انسان کے اندر کا وہ سیاہ عنصر اور تاریک منطقہ ہے جو فساد، سفاکی اور بربریت کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے اور اس عہد کی انسانی زندگی میں جس کا کردار اور اثرات نمایاں طور سے سامنے آتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ پورے جدید ادب کا مسئلہ ہے کہ اس نے اپنی عصری انسانی حقیقتوں اور اُن کے پیداکردہ سارے ارتعاشات کو سماجی روابط یا انسان سے انسان کے تعلق کی مد میں ریکارڈ کرلیا ہے۔ اب اس کے افسردہ کردینے والے تجربات اپنی جگہ، لیکن ہمیں اس ادب کو ضرور داد دینی چاہیے کہ اس نے اپنے لیے اس پیکیجنگ کو قبول کرنے سے انکار کردیا جو کہ عہدِجدید نے اپنی تہذیب و معاشرت اور اخلاق و اطوار کی ابتری کو چھپانے کے لیے ترقی کے نام پر کی ہے۔ مغرب کا جدید ادب ہمارے لیے تکلیف اور تشویش کے کئی پہلو رکھتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ادب نے مغرب کی ترقی کا پردہ فاش کیا اور ذمے داری سے اس کے خلاف اپنی گواہی ریکارڈ کرائی ہے۔
تاہم یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ اب آئیے دوسرے پہلو کی طرف۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج دنیا سے خیر کو مکمل طور پر اٹھا لیا گیا ہے اور ہم کامل بدی کی عمل داری میں جی رہے ہیں؟ اقتداری اور سیاسی نظام کی اس یونی پولر دنیا کے بارے میں میلکم بریڈبری کے اس خیال کی تردید تو بے شک ہم نہیں کرسکتے کہ نیو ورلڈ آرڈر دراصل جلد ہی نیو ورلڈ ڈس آرڈر ثابت ہوا، لیکن اس کے باوجود یہ مان لینا کہ خیر کا عنصر اس دنیا سے مکمل اور مستقل طور پر اٹھا لیا گیا، کسی طور ممکن نہیں۔ یہی نہیں، ہمیں دیانت اور جرأت کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ سچ اور خیر عصرِحاضر کی۔
اس دنیا میں محض علامتی سطح پر یعنی غیرمؤثر انداز میں یا صرف ہمارے ذہنوں میں نہیں، بلکہ روز و شب ہمارے تجربے میں آنے والی حقیقی دُنیا میں اپنی اصل اور مؤثر صورت میں اب بھی قائم ہیں۔ اس کا اظہار سیاست میں آج کی سیاسی مقتدرہ کے اندھے اقدامات اور ننگی جارحیت کے خلاف ہونے والے مختلف اقوام اور ملکوں کی طرف سے مظاہروں اور اٹھائی جانے والی آوازوں سے ہوتا ہے تو اخلاقی سطح پر اُس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب آفاتِ ارضی و سماوی میں رنگ، نسل، قوم، زبان اور مذہب کے تمام امتیازات کو پسِ پشت ڈال کر مختلف افراد و اقوام کی طرف سے محض انسانی حوالے کو بنیاد بنا کر دستِ تعاون اور دامنِ دل کی کشادگی کے مناظر سامنے آتے ہیں۔ یہ سب بھی ہمارے زمانے کی ناقابلِ تردید سچائیاں ہیں اور ان کو دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری یہ دُنیا خیر سے یکسر خالی ہوچکی ہے یا انسانوں میں سے انسانیت اب ختم ہوگئی ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ جدید ادب نے انسان کے بنیادی خیر کے عنصر کو فراموش کرکے آخر بار بار اُس کے شر کو ہی کیوں اپنا موضوع بنایا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو پورے جدید ادب کے خلاف ناقابلِ رد استغاثہ بن جاتا ہے اور یوں اُس کی سچائی اور بے باکی سے لے کر فکر و نظر اور معنی آفرینی تک سب کچھ معرضِ تشکیک میں آجاتا ہے۔ یہی اس تہذیب کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہ جس جوہر اور ہنر کو اپنا نشانِ امتیاز بناتی ہے (یعنی ترقی اور خوش حالی)، اُس کی تکذیب و بطلان کا جواز بھی خود اسی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو مغرب کے اُس فکری سفر کی منطقی منزل یہی ہے جس کا آغاز خدا کی معزولی سے ہوا تھا۔
خدا کے خلا کو فلسفوں، نظریوں اور انسان کی خود مکتفی برتری کے احساس سے پُر کرنے کی مغرب نے اپنی سی تو پوری کوشش کی، لیکن تا بہ کے۔ جس منصب پر خدا کی الوہیت اپنا جواز قائم نہ رکھ سکی آخر وہاں انسان کی انسانیت کا چلن کب تک رہ سکتا تھا۔ ایک نہ ایک دن تو اس انسانیت کا جنازہ اٹھنا ہی تھا۔ اب وہ مرحلہ جب آیا اور انسان بھی اس خدائی منصب سے معزول ہوا تو اس کے عیب کھلنے لگے اور پھر تو کھلتے ہی چلے گئے۔ دُنیا تضادات کی آماج گاہ بن کر رہ گئی۔ پہلے علوم و ادبیات ایک وسیع اور مربوط بنیاد پر قائم تھے اور ایک integrated vision کو سامنے لاتے تھے۔ مذہبیات و اخلاقیات سے جمالیات و لسانیات تک ہمیں ایک بنیادی اصول اور ایک اساسی فکر ہر جگہ کارفرما نظر آتی تھی۔ جدید دُنیا میں وہ اصول اور فکر دونوں معدوم ہوگئے۔
سو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ عالمی گائوں دراصل تضادات کی دنیا ہے جس میں اخلاقیات، جمالیات اور لسانیات کی سرحدیں تحلیل ہوتے ہوئے آپس میں مدغم ہوکر اس طرح سامنے آرہی ہیں کہ اُن سے کسی امید کی کوئی کرن نہیں پھوٹتی۔ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی سے ایک طرف انسان کے اردگرد چکاچوند کا مشاہدہ ہوتا ہے تو دوسری طرف خود اس کے اندر اندھیرا گھٹاٹوپ ہوگیا ہے۔ تاریخ کے دوسرے ادوار کی طرح عہدِ جدید سے اُس کے لکھنے والے کا بھی ایک داخلی ربط ہے جسے وہ اپنی تحریر میں چھپانا بھی چاہے تو چھپا نہیں پاتا۔ چناںچہ اس کی تحریروں میں اپنے عہد کے انسان کی سچائی کا اظہار جس طرح ہو رہا ہے، اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور خیر سے اس کا یقین اٹھ چکا ہے، اس لیے کہ اب انسان اُس کے نزدیک غلطی کا نہیں سراسر بدی کا پتلا ہے۔ یہ ہے وہ پہلو جو ہمیں بتاتا ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کی روح، اُس کا اعماقِ جاں دراصل جہنم بن چکا ہے اور آج یہ حقیقت اپنی پوری سفاکی کے ساتھ اُس کے شعور پر منکشف ہے۔
عہدِ جدید کے افکار و ادبیات کی اس سرسری سیاحی کے بعد آئیے اب اپنے ادب کی طرف آتے ہیں کہ جس کے بہانے اس سیر کا موقع نکل آیا۔ آج ہم سب ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جسے گلوبل ولیج کہا جاتا ہے۔ اس عالمی گائوں میں اوّل تو جغرافیائی سرحدوں کا بھی وہ تصور برقرار نہیں رہا، لیکن پھر بھی چلیے ظاہراً ہی سہی، کم سے کم وہ کسی حد تک تو نظر آتا ہے، لیکن اقوام و ملل کا شناختی نشان تو دراصل اُن کی تہذیب ہوا کرتی تھی۔
گلوبل ولیج نے سب سے کاری ضرب اسی امتیازی نشان پر لگائی ہے۔ اب ہم سب کولا، پیزا اور نیٹ کی ڈور سے بندھے ہوئے ایک عالمی گائوں میں مغائرت، بے یقینی، بے حسی، خوف اور رائگانی کے جان لیوا احساسات کی اندوہ ناک خاموشی کے اسیر ہیں۔ اس گفتگو کی ابتدا میں ہم کہہ آئے ہیں کہ تہذیبی اقدار کا ڈھانچا اوّل تو کم و بیش سارے ہی معاشروں میں ختم ہوچکا اور اگر کسی جگہ نہیں ہوا تو وہاں بھی اس قدر کم زور بہرحال ہوگیا ہے کہ اب انسان کی ذہنی ساخت اور سماجی معاملات پر پہلے کی طرح اپنی اثر پذیری کی قوت بہرحال نہیں رکھتا۔ اس عصری حقیقت کے اثرات اپنے معاشرے پر بھی صاف صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔
اجمالاً ہی سہی لیکن اپنی معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی صورتِ حال کا یہ نقشہ اپنے سامنے رکھتے ہوئے، اب سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں ہم اپنے ادب سے کیا مطالبہ کرتے ہیں؟ اب یوں تو ایک مطالبہ نہیں، مطالبات کی نامختتم فہرست اس سوال کے جواب میں یار لوگ ترتیب دے سکتے ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے سوال کے جواب میں اس اصولی مؤقف کا اظہار کرنا چاہیے جو اپنے عصر کے تقاضے اور تہذیب کی روح سے بہ یک وقت کلام کرتا ہو- اور وہ بھی نہایت categorically اور بے حد concisely۔ تو اپنے ادب سے ہمارا مطالبہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف اُسے اپنے عصر کی حقیقی انسانی کیفیت کا نباض ہونا چاہیے، اپنے نوعی معیار اور داخلی استدلال کے ساتھ، اور دوسری طرف اُسے ہماری تہذیبی، اخلاقی اور جمالیاتی قدروں کی پاس داری اس طور کرنی چاہیے کہ ان پر ہمارا اعتبار قائم رہے تاکہ وقت کے اس بہائو میں وہ دست بردِ زمانہ کی نذر نہ ہوں۔ سو، اگر ہمارا معاصر ادب اس مطالبے کو پورا کرتا ہے تو وہ اپنی داخلی قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے تو ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا ادب زوال آمادہ ہے۔ (جاری ہے)