اقوام متحدہ میں امریکا کی شکست

مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے

مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔فوٹو: فائل

اقوام متحدہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے امریکی اعلان کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میں واقع ہیڈ کوارٹرز میں ہوا جس میں امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اجلاس میں امریکی فیصلے کے خلاف قرار داد پیش کی گئی۔

پاکستان، یمن، مصر اور ایران کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو ارکان ممالک نے بھاری اکثریت سے منظور کرلیا،قرارداد کے حق میں 128 اور مخالفت میں محض9 ووٹ پڑے جب کہ 35 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نکی ہیلے نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت بدلنے والا کوئی فیصلہ قبول نہیں،کشمیر اور فلسطین کے عوام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں،سلامتی کونسل کی تمام قراردادوں پر بلا امتیاز عملدرآمد ہونا چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری یقیناً خوش آیند اقدام ہے۔ امریکا کے اتحادی سمجھے جانے والے ممالک برطانیہ' جاپان' فرانس اور جرمنی نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال کر امن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جنرل اسمبلی سے اس قرار داد کی منظوری کے خلاف امریکا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹ گیا ہے۔ اپنی اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نکی ہیلے نے معاشی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کو فنڈ دینے والا سب سے بڑا ملک امریکا ہے لہٰذا اقوام متحدہ امریکی فیصلوں کا احترام کرے۔


اس صورت حال کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو اپنا تنخواہ دار ملازم یا خیراتی ادارہ تصور کرتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ جو بھی جائز و ناجائز فیصلہ کرے اقوام متحدہ اس پر بلا چوں و چرا عمل کرے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بالکل بجا کہا کہ وہ امریکا کو بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا برائے فروخت نہیں' مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے' اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس سے امریکا کے غیرقانونی فیصلے کے خلاف واضح پیغام جائے گا' فلسطینیوں سے آزادی کا حق نہیں چھینا جا سکتا' سیکیورٹی کونسل کی قرارداد ویٹو کرنا امریکا کی بڑی غلطی تھی۔

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد امریکا ثالث کی حیثیت کھو چکا ہے' اس کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں' سلامتی کونسل میں امریکا نے قرار داد ویٹو کر دی تھی' 15میں سے14ارکان نے قرارداد کی حمایت کی تھی' فلسطین کا مسئلہ حل کرنا تمام ممالک کی ذمے داری ہے' القدس مشرق وسطیٰ میں امن اور جنگ کی کنجی ہے۔ جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کی منظوری اور امریکی ہٹ دھرمی کے باعث القدس کے معاملے پر دو بڑی قوتیں واضح حصوں میں تقسیم ہو گئی ہیں۔ امریکا چند ممالک کے ساتھ ایک جانب اور پوری دنیا دوسری جانب کھڑی ہے۔

نکی ہیلے نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کی ووٹنگ سے امریکی فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا' امریکا اپنا سفارتخانہ یروشلم میں منتقل کرے گا' آزاد ملک کی حیثیت سے وہ اپنا سفارتخانہ کہیں بھی قائم کر سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنی قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے میں کامیاب ہوتی ہے یا امریکا کی امداد لینے والی بے بس خیراتی تنظیم کی صورت میں اس کے ناانصافی پر مبنی فیصلے کے سامنے جھک جاتی ہے۔ اگر امریکا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر دیتا ہے تو اس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اقوام متحدہ مبنی بر انصاف فیصلے کرنے میں اپنی حیثیت اور اختیار کھو چکی ہے' دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی صورت حال بگڑنے کے جس خدشے کا بار بار اظہار کیا جا رہا ہے اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔

اقوام متحدہ کی حالیہ قرارداد کی منظوری اور امریکی فیصلے کا ٹکرائو پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو دنیا کی پارلیمنٹ کہا جاتا ہے وقت آ گیا ہے کہ جہاں اس نے امریکی فیصلے کو مسترد کر کے اسے ایک ٹھوس سیاسی پیغام دیا ہے وہاں اسے اپنی قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے امریکا کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا ہو گا۔
Load Next Story