سیاستداں کام کریں
سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے اصل کام کے بجائے کرپشن میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ISLAMABAD:
ایک ایسے وقت میں جب کہ ملکی جمہوری نظام کو لپیٹنے اور کسی پلان پر عملدرآمد کی افواہوں کا بازار گرم ہے، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایوان بالا سینیٹ میں جا کر اراکین کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال پر اعتماد میں لینا اور مختلف سوالات کا بڑے تحمل اوراطمینان سے جواب دینا جمہوری نظام کے لیے نیک شگون اور تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔
چیئرمین سینیٹ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے بند کمرہ اجلاس کی تفصیلات کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا کیوں کہ یہ بریفنگ آف دا ریکارڈ قرار دی گئی تھی ان کیمرہ بریفنگ کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ بند کمرے میں کی جانی والی گفتگو باہر نہیں کی جائے گی۔ تاہم اراکین سینیٹ کی میڈیا سے گفتگو میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق آرمی چیف نے سینیٹرز کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال خصوصاً سعودی اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں لیا۔
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ عسکری قیادت نے سینیٹ ہول کمیٹی کو ایک گھنٹہ بریفنگ دی جب کہ تین گھنٹے سے زائد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ اجلاس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پر کھل کر بات چیت ہوئی اور پاکستان کو لاحق تمام خطرات اور دہشتگردی کا ملکر مقابلہ کرنے پر اتفاق ہوا۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ کوئی فوجی سربراہ ایوان کو کسی اہم معاملے پر آگاہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آیا ہے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ سینیٹ میں آنیوالے پہلے فوجی سربراہ ہیں۔ اس سے قبل 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے تناظر میں اْس وقت کی عسکری قیادت نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کو بریفنگ دی تھی۔
اس موقع پر جنرل اشفاق پرویز کیانی موجود تو تھے تاہم ڈی جی آئی ایس آئی نے عوامی نمایندگان کو بریفنگ دی تھی۔ آرمی چیف کا پارلیمان میں آنا بلاشبہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ ان کے اس اقدام کو گرینڈ قومی ڈائیلاگ کے آغاز سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ 4ماہ قبل اگست میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے تمام ریاستی اداروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی تھی، جسکے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا تھا کہ اگر ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز ہوا تو فوج اس میں شامل ہو گی، اب چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر آرمی چیف نے ایوان بالا میں جاکر گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کردیا ہے۔
ویسے بھی ملک کو درپیش خطرات اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، سیاستدان بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ تاثر پیدا کررہے تھے کہ مقتدر ادارے ملک میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیلی چاہتے ہیں اور کسی پلان پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، صدارتی نظام لانے کی باتیں گردش کررہی تھیں، یہ بھی قیاس آرائیاں تھیں کہ ایسی عبوری حکومت لائی جائے گی جو طویل عرصے تک کام کرکے اصلاحات کریگی، بعض حلقوں کی رائے تھی کہ فوج صدارتی نظام کے حق میں ہے مگر آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ ہم صدارتی نظام نہیں چاہتے، ہم وہی چاہتے ہیں جو عوام چاہتے ہیں۔
عوام نے اگر پارلیمانی نظام کو اختیار کیا ہے تو سیاستدان اس نظام کے تحت کام کریں اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں، ہمیں موقع فراہم نہ کریں۔ یہ تاثر بھی عام تھا کہ فوج خارجہ پالیسی بالخصوص امریکا، بھارت اور افغانستان کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے مگر آرمی چیف نے یہ کہہ کر اس کی بھی نفی کردی کہ پارلیمنٹ خارجہ و دفاع کی پالیسی بناکردے ، عمل ہم کرینگے۔ آرمی چیف نے بڑی صراحت سے تمام تر خدشات اور تاثرات کو زائل کرکے واضح کردیا کہ پارلیمنٹ بالا دست ہے اور فوج آئین سے ماورا کسی کردار کی خواہشمند نہیں، ماضی میں جانیکا فائدہ نہیں۔
ماضی میں سویلین حکومت کو فوج سے متعلق جو شکایات اور تحفظات تھے ہوسکتا ہے کہ وہ درست ہوں مگر موجودہ حقائق تصدیق کررہے ہیں کہ فوج کا سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں، سیاستدانوں کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بناکر ثابت کریں کہ وہ ملکی نظام کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ ماضی میں فوج کی مداخلت کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سویلین اداروں کی ناقص کارکردگی بھی رہی ہے، سیاستدانوں نے اپنی ذمے داریوں کو احسن انداز سے پورا نہیں کیا جسکے نتیجے میں ملک میں خلفشار اور بے چینی پیدا ہوئی، جسکا فائدہ اٹھاکر غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنیکا موقع ملا۔
اب جب کہ مقتدر حلقے ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں تو سیاستدانوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسا ماحول یا ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں جو جمہوریت کے لیے خطرات کا سبب بنے۔ اصل میں جمہوریت کو کسی سے خطرہ نہیں بلکہ جمہوریت کو حقیقی خطرات سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویوں سے رہتے ہیں۔
اس کا تازہ ثبوت نئی مردم شماری کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے انتخابی ترمیمی بل 2017ء کا تاخیر سے منظور ہونا ہے، یہ بل 3بار سینیٹ میں پیش کیا گیا، مگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کے باعث منظور نہیں ہوسکا، بل کے منظور نہ ہونے سے بروقت انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ سکتا تھا، اس کے باوجود اس کی منظوری میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، یہ چیز واضح کرتی ہے کہ سیاستدان جمہوری نظام کے تسلسل میں اور اپنے کام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ اسی طرح فاٹا اصلاحات سے متعلق بل پر سیاستدانوں کا رویہ بھی قابل غور ہے اور ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
عام آدمی سوچتا ہے کہ آیا ہمارے ملک میں سیاست صرف چالبازی، چرب زبانی یا پھر سیاسی دائو پیچ پر عبور حاصل کرنے کا نام رہ گیا ہے۔ سیاستدان اگر مطالعے، مشاہدے اور محنت کے ذریعے اپنی اہلیت کو بہتر نہیں بنائینگے اور میرٹ کی بنیاد پر مناصب دے کر ملکی اداروں کو صحیح سمت میں نہیں چلائینگے توان کی آئینی اور اخلاقی اتھارٹی کو بار بار چیلنج کیے جانے کا خطرہ برقراررہے گا ۔ سیاستدان سویلین حکومت کی بالا دستی کی بات تو کرتے ہیں جس سے اصولی طور پر کسی کو اختلاف بھی نہیں ہو سکتا لیکن جب یہی سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے اصل کام کے بجائے کرپشن میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
لوگ انھیں ووٹ دیکر حکومت کرنیکا اختیار اس لیے دیتے ہیں کہ یہ ایوان میں جاکر ایسے اقدامات اور ایسی قانون سازی کرینگے جس سے عوام کی فلاح و بہبود کی راہیں کھلیں گی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا مگر ان کی زیادہ تر توجہ ذاتی کاروبار کو فروغ دینے اور اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب کو نوازنے پر ہوتی ہے اور یہی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے کٹاس راج مندر کے تالاب سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ ہم ریاست کا حصہ ہیں، اپنے دائرہ اختیار سے باہر نہیں جائیں گے لیکن جہاں فرائض میں غفلت ہوگی وہاں مداخلت کریں گے، جہاں انتظامی خلا ہو گا ہم پر کریں گے۔
ملک کے ادا ر و ں کو قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر چلایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بلاشبہ سویلین حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ؟ سائنسی اصول بھی یہ ہے کہ ہوا کا دبائو جہاں کم ہوجاتا ہے، دوسری طرف سے ہوا آتی ہے اور دبائو یا خلاء کو پر کرتی ہے۔ اسی طرح سماجی معاملات میں بھی ہوتا ہے کہ اگر حکومت پرفارم نہیں کریگی تو پھر لازمی امر ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط ہونے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
یہ بات کسی حد تک یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جس دن پاکستان میں سویلین حکومت کی کارکردگی بہتر ہونا شروع ہوجائے گی اور وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ دینا شروع کردیگی تو اسی دن سے غیر جمہوری قوتوں کی گاڑی کو بریک لگ جائے گا اور ان کی گاڑی کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت چلنے لگے گا۔
عسکری قیادت نے غیر مشروط طور پر آئین و پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے کا بلیغ عندیہ دیا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان ڈیلیور کریں، وسیع تر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عدلیہ کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے تاکہ اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو دور کیا جاسکے۔ اداروں کو آئینی و قانونی حدود میں رہ کر فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمان اور سیاسی حکمرانوں کو بھی آئینی رول میں ہی رہنا چاہیے، اگر آئین و قانون کی پاسداری ہو گی تو ملک ترقی کرے گا اور جمہوری نظام پھلے پھولے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر ایک دوسرے کو طعنہ دینے کی روش ترک کر دی جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ ملکی جمہوری نظام کو لپیٹنے اور کسی پلان پر عملدرآمد کی افواہوں کا بازار گرم ہے، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایوان بالا سینیٹ میں جا کر اراکین کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال پر اعتماد میں لینا اور مختلف سوالات کا بڑے تحمل اوراطمینان سے جواب دینا جمہوری نظام کے لیے نیک شگون اور تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔
چیئرمین سینیٹ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے بند کمرہ اجلاس کی تفصیلات کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا کیوں کہ یہ بریفنگ آف دا ریکارڈ قرار دی گئی تھی ان کیمرہ بریفنگ کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ بند کمرے میں کی جانی والی گفتگو باہر نہیں کی جائے گی۔ تاہم اراکین سینیٹ کی میڈیا سے گفتگو میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق آرمی چیف نے سینیٹرز کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال خصوصاً سعودی اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں لیا۔
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ عسکری قیادت نے سینیٹ ہول کمیٹی کو ایک گھنٹہ بریفنگ دی جب کہ تین گھنٹے سے زائد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ اجلاس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پر کھل کر بات چیت ہوئی اور پاکستان کو لاحق تمام خطرات اور دہشتگردی کا ملکر مقابلہ کرنے پر اتفاق ہوا۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ کوئی فوجی سربراہ ایوان کو کسی اہم معاملے پر آگاہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آیا ہے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ سینیٹ میں آنیوالے پہلے فوجی سربراہ ہیں۔ اس سے قبل 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے تناظر میں اْس وقت کی عسکری قیادت نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کو بریفنگ دی تھی۔
اس موقع پر جنرل اشفاق پرویز کیانی موجود تو تھے تاہم ڈی جی آئی ایس آئی نے عوامی نمایندگان کو بریفنگ دی تھی۔ آرمی چیف کا پارلیمان میں آنا بلاشبہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ ان کے اس اقدام کو گرینڈ قومی ڈائیلاگ کے آغاز سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ 4ماہ قبل اگست میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے تمام ریاستی اداروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی تھی، جسکے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا تھا کہ اگر ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز ہوا تو فوج اس میں شامل ہو گی، اب چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر آرمی چیف نے ایوان بالا میں جاکر گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کردیا ہے۔
ویسے بھی ملک کو درپیش خطرات اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، سیاستدان بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ تاثر پیدا کررہے تھے کہ مقتدر ادارے ملک میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیلی چاہتے ہیں اور کسی پلان پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، صدارتی نظام لانے کی باتیں گردش کررہی تھیں، یہ بھی قیاس آرائیاں تھیں کہ ایسی عبوری حکومت لائی جائے گی جو طویل عرصے تک کام کرکے اصلاحات کریگی، بعض حلقوں کی رائے تھی کہ فوج صدارتی نظام کے حق میں ہے مگر آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ ہم صدارتی نظام نہیں چاہتے، ہم وہی چاہتے ہیں جو عوام چاہتے ہیں۔
عوام نے اگر پارلیمانی نظام کو اختیار کیا ہے تو سیاستدان اس نظام کے تحت کام کریں اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں، ہمیں موقع فراہم نہ کریں۔ یہ تاثر بھی عام تھا کہ فوج خارجہ پالیسی بالخصوص امریکا، بھارت اور افغانستان کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے مگر آرمی چیف نے یہ کہہ کر اس کی بھی نفی کردی کہ پارلیمنٹ خارجہ و دفاع کی پالیسی بناکردے ، عمل ہم کرینگے۔ آرمی چیف نے بڑی صراحت سے تمام تر خدشات اور تاثرات کو زائل کرکے واضح کردیا کہ پارلیمنٹ بالا دست ہے اور فوج آئین سے ماورا کسی کردار کی خواہشمند نہیں، ماضی میں جانیکا فائدہ نہیں۔
ماضی میں سویلین حکومت کو فوج سے متعلق جو شکایات اور تحفظات تھے ہوسکتا ہے کہ وہ درست ہوں مگر موجودہ حقائق تصدیق کررہے ہیں کہ فوج کا سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں، سیاستدانوں کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بناکر ثابت کریں کہ وہ ملکی نظام کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ ماضی میں فوج کی مداخلت کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سویلین اداروں کی ناقص کارکردگی بھی رہی ہے، سیاستدانوں نے اپنی ذمے داریوں کو احسن انداز سے پورا نہیں کیا جسکے نتیجے میں ملک میں خلفشار اور بے چینی پیدا ہوئی، جسکا فائدہ اٹھاکر غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنیکا موقع ملا۔
اب جب کہ مقتدر حلقے ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں تو سیاستدانوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسا ماحول یا ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں جو جمہوریت کے لیے خطرات کا سبب بنے۔ اصل میں جمہوریت کو کسی سے خطرہ نہیں بلکہ جمہوریت کو حقیقی خطرات سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویوں سے رہتے ہیں۔
اس کا تازہ ثبوت نئی مردم شماری کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے انتخابی ترمیمی بل 2017ء کا تاخیر سے منظور ہونا ہے، یہ بل 3بار سینیٹ میں پیش کیا گیا، مگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کے باعث منظور نہیں ہوسکا، بل کے منظور نہ ہونے سے بروقت انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ سکتا تھا، اس کے باوجود اس کی منظوری میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، یہ چیز واضح کرتی ہے کہ سیاستدان جمہوری نظام کے تسلسل میں اور اپنے کام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ اسی طرح فاٹا اصلاحات سے متعلق بل پر سیاستدانوں کا رویہ بھی قابل غور ہے اور ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
عام آدمی سوچتا ہے کہ آیا ہمارے ملک میں سیاست صرف چالبازی، چرب زبانی یا پھر سیاسی دائو پیچ پر عبور حاصل کرنے کا نام رہ گیا ہے۔ سیاستدان اگر مطالعے، مشاہدے اور محنت کے ذریعے اپنی اہلیت کو بہتر نہیں بنائینگے اور میرٹ کی بنیاد پر مناصب دے کر ملکی اداروں کو صحیح سمت میں نہیں چلائینگے توان کی آئینی اور اخلاقی اتھارٹی کو بار بار چیلنج کیے جانے کا خطرہ برقراررہے گا ۔ سیاستدان سویلین حکومت کی بالا دستی کی بات تو کرتے ہیں جس سے اصولی طور پر کسی کو اختلاف بھی نہیں ہو سکتا لیکن جب یہی سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے اصل کام کے بجائے کرپشن میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
لوگ انھیں ووٹ دیکر حکومت کرنیکا اختیار اس لیے دیتے ہیں کہ یہ ایوان میں جاکر ایسے اقدامات اور ایسی قانون سازی کرینگے جس سے عوام کی فلاح و بہبود کی راہیں کھلیں گی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا مگر ان کی زیادہ تر توجہ ذاتی کاروبار کو فروغ دینے اور اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب کو نوازنے پر ہوتی ہے اور یہی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے کٹاس راج مندر کے تالاب سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ ہم ریاست کا حصہ ہیں، اپنے دائرہ اختیار سے باہر نہیں جائیں گے لیکن جہاں فرائض میں غفلت ہوگی وہاں مداخلت کریں گے، جہاں انتظامی خلا ہو گا ہم پر کریں گے۔
ملک کے ادا ر و ں کو قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر چلایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بلاشبہ سویلین حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ؟ سائنسی اصول بھی یہ ہے کہ ہوا کا دبائو جہاں کم ہوجاتا ہے، دوسری طرف سے ہوا آتی ہے اور دبائو یا خلاء کو پر کرتی ہے۔ اسی طرح سماجی معاملات میں بھی ہوتا ہے کہ اگر حکومت پرفارم نہیں کریگی تو پھر لازمی امر ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط ہونے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
یہ بات کسی حد تک یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جس دن پاکستان میں سویلین حکومت کی کارکردگی بہتر ہونا شروع ہوجائے گی اور وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ دینا شروع کردیگی تو اسی دن سے غیر جمہوری قوتوں کی گاڑی کو بریک لگ جائے گا اور ان کی گاڑی کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت چلنے لگے گا۔
عسکری قیادت نے غیر مشروط طور پر آئین و پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے کا بلیغ عندیہ دیا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان ڈیلیور کریں، وسیع تر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عدلیہ کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے تاکہ اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو دور کیا جاسکے۔ اداروں کو آئینی و قانونی حدود میں رہ کر فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمان اور سیاسی حکمرانوں کو بھی آئینی رول میں ہی رہنا چاہیے، اگر آئین و قانون کی پاسداری ہو گی تو ملک ترقی کرے گا اور جمہوری نظام پھلے پھولے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر ایک دوسرے کو طعنہ دینے کی روش ترک کر دی جائے۔