آخر وہ کون ہے

قومی سلامتی کے امور پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صرف سرحدوں کی حفاظت کا تصور اب پرانا ہوچکا۔

1980ء کی دہائی کے دوران کراچی میں بجلی کی طلب و رسد میں فرق کی شرح اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوگیا۔

کے ای ایس سی نے مشرف دور میں مختصر دورانیے کے لیے سنبھالا لیا جب اعلیٰ انتظامیہ میں فوج سے افسران لائے گئے۔ غیر قانونی کنکشن اور قابل ادائیگی بلوں کی وصولی جیسے اہداف حاصل کرنے کے لیے کی گئی تعیناتیوں کے لیے بجا طور پر مالی ترغیبات رکھی گئیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیوں (اور کس کی ایما پر) ان ''مالی ترغیبات'' کا بڑا حصہ اعلیٰ انتظامیہ ہی کو دیا گیا اور نقد رقوم کی منتقلی کا ریکارڈ کیوں نہیں رکھا گیا؟ کثیر مالی فوائد حاصل کرنے والوں نے کیا اس پر ٹیکس ادا کیا؟

صورت حال 2005ء میں مزید گمبھیر ہوگئی جب نجکاری کے خلاف لیبر یونینز نے پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ نئے مالکان نے آپریشنز کا شعبہ تھرڈ پارٹی کے سپرد کیا، اور یہ فیصلہ تباہ کُن ثابت ہوا۔

2009ء تک کراچی پر انتشار اور بدعنوانی کا راج تھا، غیر اعلانیہ اور مسلسل لوڈ شیڈنگ نے حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کیا۔ امن ومان کی بدترین صورتحال کئی علاقوں میں قائم نوگو ایریاز کی وجہ سے بلوں کی وصولی میں رکاوٹیں حائل تھیں اور لائن لاسز بلند ترین سطح پر پہنچ چکے تھے۔ دوسری جانب آبادی میں تیزی سے اضافے اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی بے ہنگم تعمیر کی وجہ سے شہر میں بجلی کی طلب کے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تاہم اسی دور میں دبئی کی ایک ملٹی نیشنل نے کے ای ایس سی کے ''بلیک ہول'' کو منافع بخش ادارہ بنانے کی توقع سے انتہائی محتاط انداز میں کمپنی چلانے کا رسک لیا۔ نئے مالکان نے اس کا نام کے ای ایس سی سے تبدیل کرکے ''کے الیکٹرک'' کردیا۔

نئے مالکان نے ڈیوڈینڈ، فیس یا چارجز کا ایک پیسہ نکالے بغیر کے الیکٹرک کی ریکارڈ ٹرن اراؤنڈ حاصل کیا۔ آج کراچی کے 62 فی صد علاقے لوڈ شیڈینگ سے مستثنیٰ ہیں۔ لوڈ شیڈنگ میں کمی کی وجہ سے کراچی کا بڑا صنعتی شعبہ دوبارہ مسابقت کی دوڑ میں شامل ہوا۔ کے الیکٹرک کی کارکردگی نے پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں کردار ادا کیا۔ کے ای کے ٹرن اراؤنڈ کو عالمی بینک نے ہارورڈ بزنس اسکول اور ہارورڈ کینیڈی اسکول کے مابین ہونے والی اسٹڈی میں بطور مثال پیش کیا۔

کے ای کی کام یابیوں سے حاصل ہونے والے اعتماد کے باعث شنگھائی الیکٹرک پاؤر (ایس ای پی) نے اکتوبر 2016ء میں، قاعدے کی کارروائی اور حکومتی منظوری کی شرط پر، کے ای میں حصے داری کا معاہدہ کیا۔ ایس ای پی کی جانب سے کراچی میں بجلی کے مسائل حل کرنے اور اقتصادی ترقی کے لیے حکومت اور ریگولیٹر کو 9 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی۔ چودہ ماہ گزرنے کے باوجود یہ سرمایہ کاری تکمیل کے مراحل میں داخل نہیں ہو سکی۔ قواعد میں مطلوبہ تبدیلیاں اور بیورو کریسی کے مراحل اس غیر معمولی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہیں۔


نیپرا (سات برس کے لیے) نرخ متعین کر چکی ہے، بیس ٹیرف کو 22.5 فی صد کم کرکے نرخ کا ڈھانچا بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ کے ای کا مؤقف ہے کہ جاری کردہ نئے نرخ غیر حقیقی ہیں، ان کے نتیجے میں کمپنی کو اگلے سات برس میں 140ارب روپے کا نقصان ہو گا اور کمپنی دہائیوں پیچھے چلی جائے گی۔ طویل المیعاد اسٹرٹیجک سرمایہ کار کے طور پر ایس ای پی پاکستان کے پاور سیکٹر کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایس ای پی کی اس غیر معمولی سرمایہ کاری کو نظر انداز کرنے سے مستقبل میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔ ملٹی ایئر ٹیرف (ایم وائے ٹی) پر لازماً نظر ثانی ہونی چاہیے اور اگر موزوں ہو تو کارکردگی کی بنیاد پر نرخ کمپنی کے سابقہ ایم وائے ٹی کے ڈھانچے اور معیار کے مطابق متعین کردیے جائیں۔ کسی بھی تنازعے سے بچنے کے لیے کسی آزاد بین الاقوامی کنسلٹنٹ سے نرخ کا تعین کروانے میں ہرج ہی کیا ہے؟

ایس ای پی آپریشنز اور معاشی اعتبار سے بڑے اہداف رکھتی ہے اور یہ پاکستان میں آج تک ہونے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ نیپرا اپنے فیصلے پر بضد ہے اور پاکستان میں یہ سرمایہ کاری نہ آنے کا خدشہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ ایس ای پی ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن لاسز کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اکوپمنٹ متعارف کروانے کا عزم رکھتی ہے۔ یورپی ملک استونیا میں اسی طریقے سے ایک سال کے عرصے میں سسٹم لاسز کو 14فی صد سے 9فی صد کم کیا گیا۔گزشتہ پیر کو اسلام آباد میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز( سی پی این ای) کی ملاقات میں توانائی کے شعبے میں بہتری اور نفاذ قانون کی صورت حال میں بہتری کے مابین ربط زیر بحث رہا۔ سی پی این ای کے ارکان نے کے الیکٹرک کے نرخوں میں غیر معمولی کمی پر اظہار تشویش کیا، کیونکہ مستقبل میں یہ کمی کمپنی کی آپریشنل اور پاور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرے گی۔

سی پی این ای کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق: ''وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کراچی کے پاور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت اور کراچی کے معمولات زندگی اور پاکستان کی معیشت پر اس کے اثرات سے آگاہ ہے۔ کے الیکٹریک کو درپیش امور سے بھی واقف ہے۔ انھوں نے یقین دہانی کروائی کہ حکومت کے ای کے لیے موزوں نرخ کی حمایت کرے گی، جو حکومتی پالیسیوں کے تسلسل کارکردگی میں بہتری کے لیے ترغیبات کی فراہمی اور معقول منافعے کی پیش کش کو یقینی بنائے گا۔

ایس ای پی کی پیش کش کسی بھی واحد کمپنی کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے، جس سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور یہ ملکی شعبۂ توانائی میں ایک گیم چینجر ثابت ہوگی۔ ایک اسٹرٹیجک پاؤر آپریٹر کے طور پر ایس ای پی کی آمد سے کراچی میں بجلی کی فراہمی کے نظام اور اس کے اعتبار میں بہتری آئے گی۔ انھوں نے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ حکومت پاکستان کے ای میں 24فی صد حصص کی ملکیت رکھتی ہے اور حصے دار کی حیثیت سے اس کمپنی میں حکومتی مفادات بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر بجلی کی ہموار انداز میں تواتر سے فراہمی حکومت پاکستان کے لیے سب سے اہم ہے۔''

قومی سلامتی کے امور پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صرف سرحدوں کی حفاظت کا تصور اب پرانا ہوچکا۔ قومی سلامتی کے تقاضے تبدیل ہوچکے ہیں۔ ملکی دفاع کو دشمن عناصر کی غیر اعلانیہ ''خفیہ'' جنگ کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ لڑائی کسی بھی ملک کی نظریاتی اساس، سماجی و معاشی ڈھانچے کی تباہی، معیشت کی ناکامی، میڈیا اور میڈیا کے افراد کار کے سمجھوتوں، فوج اور عدلیہ جیسے بنیادی ریاستی ستونوں پر حملہ آور ہو کر لڑی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اعدادوشمار میں جعل سازی کرکے وہ کون ہے جو کراچی میں آنے والی اس غیر معمولی سرمایہ کاری کا راستہ روک رہا ہے، جس کی اس شہر کو نہ صرف بے حد ضرورت ہے بلکہ اگر بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر نہیں ہوتا تو کراچی ایک بار پھر انتشار کے نرغے میں ہوگا۔ آخر وہ کون ہے؟

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story