آنکھوں والے بھی اندھے ہوتے ہیں
اب جب کہ ہم نے جہالت اور لاعلمی کے جنگل میں راہ بنا لی ہے اور ہم اسی راہ پر چلنے میں خوب لطف اٹھا رہے ہیں۔
''کوئی نابینا شخص کار میں بیٹھا ہو، اس کی بیوی کار چلا رہی ہو تو کیا وہ جان سکتا ہے کہ بیگم صاحبہ غلط سمت میں کار چلا رہی ہیں؟ اگر وہ جان لیتا ہے تو ہم پوچھیں گے کہ ایسا کیونکر ہوا۔
آئیے ہم ایک مثال لیں، آرتھر ماس نابینا ہیں، ایک سہ پہر کو وہ کار میں کہیں جارہے تھے اور ان کی بیوی ''الین'' ڈرائیو کررہی تھیں، دونوں شمال میں واقع رج ٹائون جارہے تھے، راستے میں ایک چوراہے پر الین کو اشارہ سمجھنے میں غلطی ہوئی اور انھوں نے شمال کے بجائے جنوب کی طرف سفر شروع کردیا، چند منٹوں کے بعد آرتھر ماس کو اپنے دائیں بازو پر دھوپ کا احساس ہوا، چنانچہ انھوں نے فوراً ہی اپنی بیوی کو ٹوکا کہ وہ غلط سمت میں جارہی ہیں۔ بیگم صاحبہ کہاں ماننے والی تھیں، آخر یہ اندھا شوہر ان کی رہنمائی کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن نو دس میل آگے جانے کے بعد انھیں غلطی کا احساس ہوگیا، چنانچہ الین نے گاڑی موڑی اور مخالف سمت میں روانہ ہوگئیں۔
آرتھر ماس کو غلطی کا احساس کس طرح ہوا؟ آئیے ہم دیکھیں کہ مشاہدے میں آنے والے اور حافظے میں محفوظ حقائق کی مدد سے صحیح نتیجے تک پہنچے میں ان کا استدلال کن کن مراحل سے گزرا۔ ماس صاحب کار میں دائیں ہاتھ کی اگلی نشست پر بیٹھے تھے، ماضی کے تجربے سے انھیں معلوم تھا کہ جب دھوپ ان کے جسم پر پڑتی ہے تو وہ گرم ہوجاتا ہے، چونکہ اب ان کا دایاں کندھا گرم ہوگیا تھا، لہٰذا انھوں نے سوچا کہ دھوپ کار کے دائیں حصے پر پڑرہی ہے، گویا کار پہلے سے طے شدہ شمال کی جانب نہیں جارہی تھی۔
جب ماس نے اپنی بیوی کو ٹوکا تو بیگم کو یقین نہ آیا تھا کہ ان کا نابینا شوہر راستے کے انتخاب میں ان کی غلطی کی نشاندہی کرسکتا ہے، اس لیے وہ غلط راستے پر نو میل تک کار چلاتی گئیں۔ اس کے بعد انھیں غلطی کا احساس ہوا کیونکہ انھیں ایسے حقائق دکھائی دیے جو ان کے فیصلے کو غلط ظاہر کررہے تھے، شاید راستہ بہت طویل ہوگیا تھا یا پھر مناظر نامانوس محسوس ہونے لگے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ انھیں راستے پر کوئی ایسا روڈ سائن نظر آیا ہو جس پر یہ ظاہر ہوا کہ وہ جنوب کی طرف جارہی تھیں۔ بہرطور اس قسم کے تضادات نے بیگم کو آخرکار یقین دلادیا کہ انھوں نے راستے کا انتخاب غلط کیا ہے، تب ہی انھوں نے اپنے شوہر کی بات کو درست تسلیم کیا''۔
یاد رکھیے، تضاد ایک چیختا ہوا اشارہ دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ''رک جائیے''۔ اگر دو حقائق یا نتائج ایک دوسرے سے متضاد ہوں تو وہ دونوں درست نہیں ہوسکتے، ان میں سے ایک غلط ہوگا۔ ایک لحاظ سے تمام آنکھوں والے بھی دنیا میں رونما ہونے والے اکثر واقعات کے معاملے میں ''اندھے'' ہوتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں اپنے ملک کی جانب۔ عقل و سمجھ رکھنے والے، سوچ بچار سے کام لینے والے دور اندیش برسوں سے چلا چلا کر حکمرانوں سے کہہ رہے تھے کہ آپ ملک کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں، یہ راستہ ترقی، خوشحالی، آزادی کی جانب کسی صورت نہیں جاتا ہے، آگے چل کر آپ ایسے دوراہے پر آکر پھنس جائیں گے کہ آپ نہ آگے جاسکیں گے اور نہ آپ واپس پلٹ سکیں گے۔
وہ بار بار کہہ رہے تھے خدارا ''رک جائیے، رک جائیے''۔ لیکن ہمارے حکمران اپنے آپ کو دنیا کا سب سے ذہین، سمجھ دار شخص سمجھے بیٹھے ہوئے تھے اور آخرکار ہمارے حکمرانوں نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی ''اندھے'' تھے۔ حالانکہ تضادات مسلسل چیختے ہوئے اشارے پر اشارے دے رہے تھے، حقائق روئے جارہے تھے، واقعات گریہ کررہے تھے، مناظر ماتم کررہے تھے، لیکن پھر بھی ہمارے ڈرائیور فل اسپیڈ سے گاڑی غلط سمت میں چلانے میں مگن اور مست تھے۔
ملک مفروضوں، خواہشوں پر کبھی نہیں چلتے اور نہ ہی چند شخصیات کے ان دعوئوں پر چلتے ہیں کہ انھیں ملک چلانے کی مہارت حاصل ہے یا انھیں چلانے کا لائسنس حاصل ہے۔ ہمارے ان اناڑی ڈرائیوروں کو جنھیں باربار روکا اور ٹوکا جارہا تھا، لیکن جو مسلسل یہ کہہ کہہ کر کہ ہمیں ملک کے عوام نے ملک چلانے کا ووٹ کے ذریعے حق دیا ہے اور وہ ان روکنے اور ٹوکنے والوں کی ان سنی کرتے رہے۔ ہمارے حکمرانوں کی عقل صرف اتنی ہے کہ انھیں جانور کہا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں اور اگر شیر کہا جائے تو خوش ہوجاتے ہیں۔
فرانسس بیکن نے ہمیں سکھایا ہے کہ سچائی کی تحقیق سے پہلے بہت سے مغالطوں کو تلف کردینا چاہیے، اس نے ان مغالطوں کو ''بت'' کا عنوان دیا ہے۔ یہ وہ بت ہوتے ہیں جو انسانی ذہن کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ ان کی کئی اقسام ہیں، سب سے پہلے تو ''قبیلے کے بت'' ہوتے ہیں۔ بیکن نے پوری انسانیت کو ایک قبیلہ قرار دیا ہے، انسانیت کا دنیا کے اسرار و رموز پرکھنے کا اپنا ہی انداز ہے، تمام انسان اپنی ''عینک'' سے ہی دنیا کے بارے میں انتشار پر مبنی اندازے لگاتے ہیں۔ ایک جملے میں اس عینک کو انسانی فطرت کہا جاسکتا ہے۔ بتوں کی دوسری قسم کو ''غار کے بتوں'' کا نام دیا گیا ہے۔
بات یہ ہے کہ ہر فرد کی اپنی کوئی نہ کوئی غار یا کھوہ ہوا کرتی ہے جو فطرت کی روشنی کو مسخ کردیتی ہے۔ بعض اذہان تحلیلی ہوتے ہیں، وہ دنیا کو اس کے اختلافات کے حوالے سے تقسیم کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔ بعض دوسرے اذہان ترکیبی ہوتے ہیں، وہ دنیا کو ایک ہم آہنگ ڈھانچے میں منظم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ بتوں کی تیسری قسم کو '' منڈی کے بت'' کہا گیا ہے، یہ بت لین دین اور انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ سے وجود میں آتے ہیں۔
بیکن کادعویٰ ہے کہ ''الفاظ کی خراب اور غیر موزوں تشکیل سے ذہن کی راہ میں عجیب و غریب رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں''۔ چوتھی قسم کے بتوں کو اس نے ''تھیٹر کے بت'' بتایا ہے۔ یہ بت فلاسفے کے کٹر قسم کے عقیدوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب جب کہ ہم نے جہالت اور لاعلمی کے جنگل میں راہ بنا لی ہے اور ہم اسی راہ پر چلنے میں خوب لطف اٹھا رہے ہیں، اس لیے سچائی اور علم کی طرف جانے والی نئی شاہراہ کی تعمیر میں لاکھوں رکاوٹیں حائل ہوگئی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ جب کہ ڈرائیور اپنے خوابوں اور خواہشوں میں مست ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ خوفناک سفر اور کتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ اس سفر کے انجام سے سب ہی واقف ہیں۔