ایک امت کی سربراہی کے لیے

مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے ماڈرن لوگ اب کس مذہبی رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔


Shehla Aijaz December 23, 2017
[email protected]

او آئی سی سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے والے اعلیٰ اسلامی ممالک کے سربراہان کی غیر موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بات اب صرف سیاسی بھیڑ چال کی رہ گئی ہے، سیاست میں کون کس قدر مضبوط اور مصروف ہے کون کس قدر اہمیت رکھتا ہے، گویا ظاہری طور پر جو معاملات سب دیکھ رہے ہیں بس اسی سے غرض ہے، اس سے درپیش، جذبات، احساسات، مذہبی جوش و جذبے کے علاوہ ایمان اور یقین کامل۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سی باتیں فرسودگی کی زد میں آکر ادھر ادھر ہوجاتی ہوں لیکن پھر بھی ظاہری طور پر بھی مسلمان ہونے کے ناتے ایک بڑے ایشو پر ایک نہ ہونا عقلمندی نہیں ہے۔

اس بات کو خاصے برس گزر چکے ہیں جب فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس وقت انھوں نے مسئلہ فلسطین کو حل کرانے کے بجائے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی بات کی تھی۔ ان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ فلسطین کے نہیں بلکہ اسرائیل کے نمایندے ہوں، گو ان کا موقف امن بقائے باہمی کے اصول پر یقین رکھنا تھا لیکن اس وقت جس قدر اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کرچکی تھی اس قسم کی زبان کو انھیں سمجھانا عقل سے باہر تھا۔ پر اس وقت وہی محمود عباس بھی کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن نہیں آسکتا اور امریکی صدر کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے امریکا کو امن بات چیت کے لیے نااہل بھی قرار دے ڈالا اور اسے پرتعصب بھی کہہ ڈالا۔ دس بارہ برس پہلے محمود عباس کی کیا سیاست تھی کہ انھوں نے عرب کے ازلی دشمن اسرائیل کے وجود کو انکار نہیں بلکہ تسلیم کرانے کی حمایت کی تھی اور اب اس کروٹ سے ان کے سیاسی رخ پر کیا نقشہ بنتا ہے، لیکن یہ بات تو اسرائیل کی جانب سے پہلے ہی طے تھی کہ اس نے اپنی حدود کو بڑھاتے بڑھاتے اپنی حکمت عملی وضع کرنی ہے اور آج کے دور میں امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا دینے کی فرمائش بلاوجہ نہیں ہے۔ یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد ہے، جو یہودی لابی امریکا میں اپنے اس ناپاک خواب کو عملی طور پر دیکھنے کی خواہاں رہی ہے۔

ذرا ماضی میں جائیے تو دیکھیے جب اسرائیل کے قیام کے دن اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے کیا کہا تھا جب مصر کے صدر حسنی مبارک نے انھیں مبارکباد بھیجی تھی۔ شیرون کا کہنا تھا کہ مصر کے صدر حسنی مبارک کی طرف سے قیام اسرائیل کے دن مبارکباد کا پیغام عربوں کی طرف سے بارش کا پہلا قطرہ ہے، جلد ہی مبارکبادوں کا سیلاب آئے گا، جب اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو ہمارے لیے سلامتی کونسل کا رکن بننا مسئلہ نہیں رہے گا۔ امریکا کے ایک اشارے پر اسرائیل ویٹو کا حق حاصل کرلے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اسی برس واشنگٹن میں پانچ ہزار یہودی دانشوروں، صحافیوں اور پالیسی سازوں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ القدس کے مسئلے پر کوئی مذاکرات نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی فلسطینی مہاجر کو واپس فلسطین آنے کی اجازت دی جائے گی، سرحدیں مستقل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں رہیں گی ۔

یہ اعلیٰ سطح کی کانفرنس تھی جس کا انعقاد امریکن یہودی اتحاد کی تنظیم اے آئی پی اے سی نے کیا تھا اور یہ کانفرنس اس وقت امریکا کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کی سربراہی میں ہوئی تھی۔ یہ محترمہ پہلے سے ہی کئی رخوں پر کام کرتی رہی تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے انتہائی دوغلے پن سے کام لیا، ایک جانب مسلمان سربراہان سے اپنی دوستیاں استوار کرتیں تو دوسری جانب مسلمانوں کے لیے اس طرح کام کرتیں گویا پیٹھ میں چھرا ہی گھونپ دیتیں۔ یہ سیاہ فام خاتون یہودی تنظیموں کے ساتھ روابط رکھتی۔ شیرون کے ساتھ امریکا میں بسنے والے یہودیوں اور امریکی اتحاد کو بڑھاوا دینے میں یہ خاصی آگے رہتی تھی، اسی موقع پر اس خاتون نے جو اے آئی پی اے سی کی سربراہ بھی تھیں اس اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا، انھوں نے کہا کہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ یہودی ہی یہودیوں کو انخلا پر مجبور کر رہے ہیں۔

2008 میں اسرائیل سے جارحیت کے ذریعے عرب مقبوضہ علاقوں کو خالی کرانے کے لیے صدربش نے بہت زور دیا تھا لیکن اسرائیل نے اس وقت امریکی صدر کی کسی بات پر کان نہیں دھرا تھا کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتا تھا اور آج بھی وہ ایسا ہی کر رہا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت بھی بڑی عرب طاقتیں اسرائیل کی اس جارحیت پر خاموش تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس وقت صدر بش اسرائیل کے وحشیانہ اقدام پر بظاہر ناراض تھے لیکن پھر بھی عرب طاقتوں کے سربراہان کا خاموش رہنا عجیب سا تھا۔ کیا ایسا تھا کہ امریکا سیاسی انداز میں بیان بازی کر رہا تھا تاکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ تاثر دیا جائے کہ امریکا مسلمانوں کے ساتھ ہے، لیکن عرب طاقتوں کے سربراہان کا خاموش رہنا کسی سیاست کی علامت ہے اور آج جب کہ صدر ٹرمپ کا جھکاؤ باقاعدہ ہونے والی سیاسی بساط کے مطابق اسرائیل کی جانب ہے کھلم کھلا یروشلم کو دارالحکومت قرار دینے کا عندیہ اور ایک بار پھر عرب طاقتوں کے سربراہان کی خاموشی کس بات کو ہوا دے رہی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا سپرپاور کا رول ادا کر رہا ہے، وہ اپنی طاقت کو استعمال کر رہا ہے اور یہ طاقت صدر ٹرمپ جیسے متضاد امریکی صدر کے نصیب میں آئی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی کھل کر اپنے پرتعصب ہونے کے دعوے کرچکے ہیں، ان کی تقرری ہی اس بات کی گواہی ہے، اب جب کہ دشمن کھل کر سامنے آچکا ہے تو بڑی اسلامی طاقتوں کے سربراہان کو اپنی کمزوریاں کھل کر سامنے آنے لگی ہیں، ان کا خیال ہے کہ امریکا مسلم اتحاد کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا اور اس کی ناراضی ان کے لیے اچھا پیغام لے کر نہیں آئے گی۔ فلسطینی عوام کے خون سے مشرق وسطیٰ کی زمین سرخ ہوتی رہی ہے، یہ اذیت وہ برسوں سے برداشت کرتے رہے ہیں لیکن بیت المقدس سے متعلق یہودیوں کے عزائم جس قدر اذیت ناک ہیں اسے برداشت کرنا اس قدر آسان نہیں ہے۔ بات ہر جانب سے گھوم کر مذہبی اعتقاد کے پلو سے بندھ جاتی ہے۔

مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے ماڈرن لوگ اب کس مذہبی رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، بیت المقدس تک جس انداز سے رسائی یہودیوں کا پلان ہے اسے مکمل کرنے میں اپنی غرض میں مصروف مسلمان بھی شامل ہیں، جن کے ایک اشارے پر ساری دنیا کے مسلمان متحد ہوکر نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیر اور روہنگیا سمیت تمام مظلوم مسلمانوں کو آزادی اور سکھ کی فضا میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ خدا امت مسلمہ کو نیک ہدایت دے، آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں