آکاس بیل عشق پیچاں اور طفیلی
عشق کی بات کی جائے تو یقیناً امر بیل ایک مُثبَت استعارہ ہے۔ اسے ’عشق پیچاں‘ بھی کہتے ہیں۔
اس جہان رنگ و بو میں بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو ہَر دِل و نگاہ کے لیے بہ یک وقت دل کش، دل چسپ اور اہم نہیں ہوتیں مگر اہل دل اس میں بھی خالق کی قدرت کاملہ اور مصلحت خاصّہ تلاش کرکے خوش ہوتے ہیں۔
اللہ کی قدرت کے مظاہر بھی عجب ہیں۔ کہیں تو کھمبی جیسے خودرَو پودے اپنی افادیت کے سبب اہم سمجھے جاتے ہیں، کہیں قسم قسم کی بیلیں یا عجیب وغریب گھاس جیسے نباتات تو کہیں بط۔ چونچ ] Duck-billed Platipus [ جیسے پرندے نما ممالیہ ہیں جو اپنی برقی لہروں سے شکار پکڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ اور پھر آبی حیات کی بات کریں تو ایک عجیب و غریب دنیا، عقل انسانی کو دَنگ کرنے کے لیے موجود ہے۔ لاتعداد پودے نما جانور اور جانورنما پودے اپنی دل کش اور منفرد بناوٹ کے سبب، پوری دنیا کے زمینی نباتات و حیوانات کے لیے گویا مجسم چیلینج ہیں کہ ہم سا ہوتو سامنے آئے۔
کافی پہلے اس خاکسار نے اپنے کالم میں تھُوہر اور اسی قبیل کے پودوں، درختوں اور پھولوں کا ذکر کیا تھا، جنھیں اِن دنوں کیکٹس کے مغربی نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ آج بات ہوگی آکاس بیل کی جسے ''اَمرَبیل'' بھی کہا جاتا ہے۔ (بعض لوگ اسے آکاش بیل بھی کہتے ہیں)۔ کسی ناگِن کی طرح بل کھائی ہوئی، بغیر جڑ اور پتوں کے پھلنے پھولنے والی یہ بیل سائنسی اصطلاح میں ایک 'طُفیلی' [Parasite]پودہ ہے۔
انگریزی میں یہ مرکب لفظ ایک لاطینی اور ایک یونانی لفظ کے اتصال سے بنا ہے اور اس کی وضاحت میں یہ مثال بھی دل چسپ ہے کہ سولھویں صدی عیسوی میں ایسے شخص کو parasitos (پاراسی تو) کہا جاتا تھا جو (اپنی بجائے) دوسروں کی میز پر جاکر کھانا کھائے۔ ویسے علم نباتات کی رُو سے یہParasite ایک ایسی قسم کے پودے ہوتے ہیں جو اپنی غذا، آپ تیار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پودے سے حاصل کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔
زبان فرنگی کے محاورے میں ایسے شخص کو بھی Parasite کہا جاتا ہے جو دوسروں پر انحصار کرتا ہے یا اُن سے بلامعاوضہ و صلہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہماری پیاری زبان میں ایسے شخص کو مطلب شناس، مطلب پرست اور ابن الوقت کہا جاتا ہے اور موقع کے لحاظ سے طفیلی یا طفیلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے یہاں کا سب سے مشہور طفیلی پودہ یا بیل، آکاس بیل ہی ہے، جو خطہ برصغیر پاک وہند میں پایا جاتا ہے۔ زرد رنگ کا حامل یہ طفیلی انگریزی میںCassytha Filiformis,
Cuscuta reflexa, The giant dodder, The Love vine کہلاتا ہے اور Family Convolvulaceae/Lauraceaکی Genus Cuscuta کی سیکڑوں اقسام میں شامل ہے۔ اس کے دیگر انگریزی ناموں سے پتا چلتا ہے کہ اسے خواہ مخواہ شیطان اور بھکاری سے بھی نسبت دی جاتی ہے۔ آکاس بیل کا استعمال بھی طبی لحاظ سے مفید ہے۔ اسے طبی زبان میں اقاقیا بھی کہتے ہیں، جب کہ عربی زبان کے مختلف زبانوں کا استعمال اس پر مستزاد ہے۔ آکاس بیل کوٹ پیس کر سر میں لگانے سے، اور اس کے پانی سے سر دھونے سے، بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس کا استعمال پیٹ کی صفائی، ریاح کے موزوں اخراج، خون کی صفائی، وَرموں کے علاج ، ہچکیاں روکنے اور یرقان کے سدباب کے ساتھ ساتھ مردانہ و زنانہ قوت کے لیے بھی مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ سر درد، دردِ زہ ، ہڈیوں کی شکست و ریخت، بخار، گردے کا درد، جگر کے امراض، اسہال، ذیابیطس، پیٹ کا درد، پیٹ کے کیڑے اور جوڑوں کا دردنیز زخموں کو جلد مندمل کرنے میں یہ مفید بیل استعمال ہوتی ہے۔ یہ بیل جس پودے پر اگتی ہے، اُسے تو زندگی سے محروم کردیتی ہے، مگر اس کے ننھے ننھے سفید، گھنٹی نما پھول، اسے بیج اور پھل فراہم کرتے ہیں جن کا بہ طور دوائی استعمال حکمت میں ہوتا ہے۔
عشق کی بات کی جائے تو یقیناً امر بیل ایک مُثبَت استعارہ ہے۔ اسے 'عشق پیچاں' بھی کہتے ہیں۔ لغات کشوری میں مولوی تصدق حسین رضوی نے لفظ 'عشق' کے ذیل میں لکھا ہے:''عربی۔ کسی شئے کو نہایت دوست رکھنا۔ بعض طبیب کہتے ہیں کہ عشق ایک مرض ہے، قسم جنون سے جو شکل ِ حسیِن دیکھنے سے پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ ماخوذ ہے عشقہ سے جس کو لبلاب اور عشق پیچاں بھی کہتے ہیں اور اس نبات کا قاعدہ ہے کہ جس درخت پر لپٹتی ہے، اس کو خش کردیتی ہے۔
پس یہی حالت عشق کی بھی ہے کہ جس کو ہوتا ہے، اس کو خشک اور زرد کردیتا ہے۔'' اسی طرح انھوں نے عشق پیچاں اور عشقہ کے ذیل میں لکھا ہے: ''ایک نبات مشہور ہے جو درخت پر پھیلتی ہے۔ اس کا پھول سرخ ہوتا ہے۔''{یہاں دو وضاحتیں: الف۔ عشق پیچاں کا نام بعض دیگر بیلوں جیسے Ivyاور English Ivyکے لیے بھی مستعمل ہے۔ ب۔ اس بیل کی اقسام کے فرق سے پھولوں کا رنگ بھی مختلف ہوتا ہے}۔
اردو میں عام مفہوم یہی ہے کہ کسی بھی شوق یا لگائو کی انتہاء اور شدت کو بالعموم اور محبت کی انتہاء کو علی الخصوص (بالخصوص غلط ہے) عشق کہا جاتا ہے۔ یہی معاملہ حمدونعت ومنقبت گوئی میں بھی رَوا رکھا گیا اور آج تک چلا آتا ہے، مگر معروف سیرت نگار قاضی محمد سلیمان سلمانؔ منصورپوری نے اس ضمن میں نہایت چشم کُشا حقیقت بیان کی ہے جو عصرحاضر کے علمائے کرام کو بھی ازسرنو دیکھنی چاہیے تاکہ آگے بیان ہوسکے۔
قاضی صاحب نے لکھا: ''پس جب عشق کے معنی قسمے ازجنون ہوئے تو ضرور تھا کہ خدا اور رسول (ﷺ) کے پاک کلام میں اس لفظ کا استعمال نہ کیا جاتا اور اسے فضائل ِ محمودہ ۔یا۔ محاسن ِ جمیلہ سے شمار نہ کیا جاتا۔ بے شک قرآن حکیم اور احادیث رسول کریم (ﷺ) میں لفظ محبت کا استعمال ہوا ہے جس سے ثابت ہوا کہ محبت ہی صفت ِ کمال انسانی ہے۔'' (رحمۃ للعالمین ﷺ)]قاضی صاحب کا تخلص سلمان تھا، جب کہ اُنھی کے معاصر عالِم علامہ سیدسلیمان ندوی کے فرزند کا نا م ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہے[۔ مصباح اللغات (عربی۔اردو) میں مؤلف ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی نے لفظ 'لبلاب ' کے ذیل میں لکھا ہے: ''عشق پیچہ ۔ ایک پھول دار بیل جو جھاڑیوں پر پھیلتی ہے ۔ اس کا پتّہ لوبیا کے پتّے کے مُشابہ ہوتا ہے۔''
عشق سے امربیل یا آکاس بیل کی نسبت کا بیان تو ہوا، مگر یہاں ایک اور بات یاد آگئی۔ عشق کا ایک جداگانہ مفہوم بہت پہلے کبھی اسی خاکسار کی تحریروں میں پیش کیا گیا تھا، وہ بھی لگے ہاتھوں قند مکرر کے طور پر حاضر ہے۔
جب ہَرنی کو اُس کے بچے سے جُدا کیا جائے تو بچہ اپنی ماں کے فراق میں بگٹٹ بھاگتے ہوئے جو آواز نکالتا ہے، اس پُرسوز آواز کو بھی عربی میں عشق کہتے ہیں مگر قربان جائیے ہمارے ناقدین ادب و مدرسین ادب کے جو اپنے شاگردوں کو پہلی بات یہی بتاتے ہیں کہ بھئی عشق کا مطلب ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔ اب شاگرد اگر کسی اور مزاج کا یا کسی اور خیال میں ہو، شرمیلا ہو، شرمیلی ہو، دین دار ہو .......وغیرہ تو بہت مشکل ہوجاتا ہے آگے سمجھانا۔ ہاں اگر کوئی اس قدیم سوچ کا حامل ہو کہ میاں غزل میں تو صرف عشق، مشک کا ذکر ہی ہووے ہے۔
باقی سب کہنا فضول ہے......تو پھر معاملہ بالکل اُسی طرح چوپٹ جیسے کہ جوش ملیح آبادی کی مخصوص سوچ کے تحت جسمانی ملاپ اور پیار ہی درحقیقت پیار، محبت اور عشق ہے، باقی سقراطی عشق یا افلاطونی عشق[Socraric love] کوئی چیز نہیں۔ اب ہر کوئی Sigmund Freud نہیں بن سکتا نہ ہی پیار کے جذبے کو صرف اُس آنچ تک محدود کیا جاسکتا ہے جو وَصل کے بعد قدرے بھڑک کر بجھ جاتی ہے اور ہر ایسے موقع پر تڑ پ کر پھر راکھ سے شعلہ اور شعلہ مستعجل سے شعلہ جوّالہ اور پھر بھیانک تاریکی۔
کہیے کیسی شاعری ہوگئی نثر میں......بات کی بات ہے کہ کینیڈا میں مقیم ہمارے ایک نہایت محترم کرم فرما کی فرمائش ہے کہ میاں اس نثری نظم کی بدعت پر بھی لکھیے۔ دیکھئے کب تعمیل ممکن ہو۔ اچھا موضوع پر واپس آتے ہیں ۔ بانوقدسیہ کا ناول ''امربیل'' اس عجیب جملے سے شروع ہوتا ہے:''محبت کی امربیل میں ہمیشہ ہائی سنتھ [Hyacinth] کے پھول لگتے ہیں۔'' یہاں خاصی بے ادبی کی جسارت کرتے ہوئے ایک نامور ادیبہ کی تحریر کا 'پوسٹ مارٹم' کرنا پڑرہا ہے کہ کہیں عام آدمی کچھ اور نہ سمجھ لے۔ انھوں نے تو کسی خاص پس منظر میں اس پھول کا ایک طفیلی پودے میں لگنا بیان کیا ہے۔
ادیب اور شاعر پر کوئی پابندی نہیں کہ بقول میر انیسؔ
؎ تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملادوں
قطرے کو جو دُوں آب تو گوہر سے ملادوں
مگر ہائی سنتھ کے پودے اور خوب صورت پھول کا اَمَر بیل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ جب لفظ آکاس بیل استعمال ہوتا ہے تو اسے نحوست اور اداسی کا استعارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات، ایک ہی چیز کے دو مختلف ناموں کا دو مختلف مفاہیم میں استعمال۔ سائنسی ادب کی تخلیق میں مشغول، عصر حاضر کی ممتاز شاعرہ محترمہ آمنہ عالم کی عنایت سے ہمیں یہ شعر نصیب ہوا:
جس پر بھی مہرباں ہوئے، اُس نے دیا ہے روگ
آکاس بیل بن کے ملے ہم سے یار لوگ
طفیلی پودوں کے متعلق اُن کی یہ نظم بھی دل چسپ ہے:
''طفیلی پودے''
آئو چلو کچھ پودوں کا
تم کو حال سناتے ہیں
انساں اور اِن پودوں میں
شاید کچھ کچھ ناتے ہیں
اس باعث ہی یہ پودے
محسن کُش کہلاتے ہیں
گرچہ اُن کی کئی اقسام
جَڑ کا اُن میں نہیں ہے کام
بیج میں کونپل آتے ہی
جو بھی پیڑ ملے یہ اُس سے
اپنا پیار جتاتے ہیں
لپٹے چمٹے جاتے ہیں
اپنا آپ بڑھاتے ہیں
اُن کا رس پی جاتے ہیں
جاں کو روگ لگاتے ہیں
اُن کو جیون دینے والے
رفتہ رفتہ سارے پودے
چُپکے سے مرجاتے ہیں
اور صاحبو! آکاس بیل کی مذمت میں لکھی گئی یہ منفرد ہائیکو بھی محترمہ آمنہ عالم ہی کی عطا ہے:
شاخ جو پھیلی ہے
پیڑ ہی سارا کھالے گی
بیل طفیلی ہے
آپ نے دیکھا کہ جب ایک حساس ذہن اپنا خیال بذریعہ قلم، صفحہ قرطاس پر لاتا ہے تو کیا کیا نکتہ آرائی ہوتی ہے۔ میں اس بہانے دعوت دیتا ہوں اپنے ہم عصر شعرائے کرام کو کہ اسی موضوع پر کوئی ایسی نظم کہہ دکھائیں جس میں تمام مثبت و منفی پہلوئوں کا احاطہ ہوسکے۔
طفیلی پودوں خصوصاً بیلوں میں صرف امربیل کو ہی شہرت اور رسوائی ملی ہے، ورنہ فہرست تو خاصی طویل ہے۔ کچھ ایسے پودوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:Nuytsia floribunda (Western Australian Christmas tree), Rhinanthus (e.g. Yellow rattle),Mistletoe, Hydnora
Mistletoes کے متعلق ہول ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ طفیلی پودے جنگلوں کو معاشی لحاظ سے تباہ کردیتے ہیں اور آرائشی درخت اِن کا ہدف ہوتے ہیں۔ Strigaکی بعض اقسام سے افریقہ سمیت متعدد مقامات پر ہر سال کھربوں ڈالر مالیت کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں جن میں مکئی، چاول اور جُوار[Sorghum]بھی شامل ہیں۔Rafflesia arnoldii وہ طفیلی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا پھول Rafflesiaپیدا کرتا ہے جس کا قُطر ایک میٹر کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ پھول دار پودوں کی چارسو اقسام کے ساتھ Fungi جڑی ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں بہت سارے پودے ایسے بھی ہیں جن کے فوائد اُن کی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔
اللہ کی قدرت کے مظاہر بھی عجب ہیں۔ کہیں تو کھمبی جیسے خودرَو پودے اپنی افادیت کے سبب اہم سمجھے جاتے ہیں، کہیں قسم قسم کی بیلیں یا عجیب وغریب گھاس جیسے نباتات تو کہیں بط۔ چونچ ] Duck-billed Platipus [ جیسے پرندے نما ممالیہ ہیں جو اپنی برقی لہروں سے شکار پکڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ اور پھر آبی حیات کی بات کریں تو ایک عجیب و غریب دنیا، عقل انسانی کو دَنگ کرنے کے لیے موجود ہے۔ لاتعداد پودے نما جانور اور جانورنما پودے اپنی دل کش اور منفرد بناوٹ کے سبب، پوری دنیا کے زمینی نباتات و حیوانات کے لیے گویا مجسم چیلینج ہیں کہ ہم سا ہوتو سامنے آئے۔
کافی پہلے اس خاکسار نے اپنے کالم میں تھُوہر اور اسی قبیل کے پودوں، درختوں اور پھولوں کا ذکر کیا تھا، جنھیں اِن دنوں کیکٹس کے مغربی نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ آج بات ہوگی آکاس بیل کی جسے ''اَمرَبیل'' بھی کہا جاتا ہے۔ (بعض لوگ اسے آکاش بیل بھی کہتے ہیں)۔ کسی ناگِن کی طرح بل کھائی ہوئی، بغیر جڑ اور پتوں کے پھلنے پھولنے والی یہ بیل سائنسی اصطلاح میں ایک 'طُفیلی' [Parasite]پودہ ہے۔
انگریزی میں یہ مرکب لفظ ایک لاطینی اور ایک یونانی لفظ کے اتصال سے بنا ہے اور اس کی وضاحت میں یہ مثال بھی دل چسپ ہے کہ سولھویں صدی عیسوی میں ایسے شخص کو parasitos (پاراسی تو) کہا جاتا تھا جو (اپنی بجائے) دوسروں کی میز پر جاکر کھانا کھائے۔ ویسے علم نباتات کی رُو سے یہParasite ایک ایسی قسم کے پودے ہوتے ہیں جو اپنی غذا، آپ تیار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پودے سے حاصل کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔
زبان فرنگی کے محاورے میں ایسے شخص کو بھی Parasite کہا جاتا ہے جو دوسروں پر انحصار کرتا ہے یا اُن سے بلامعاوضہ و صلہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہماری پیاری زبان میں ایسے شخص کو مطلب شناس، مطلب پرست اور ابن الوقت کہا جاتا ہے اور موقع کے لحاظ سے طفیلی یا طفیلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے یہاں کا سب سے مشہور طفیلی پودہ یا بیل، آکاس بیل ہی ہے، جو خطہ برصغیر پاک وہند میں پایا جاتا ہے۔ زرد رنگ کا حامل یہ طفیلی انگریزی میںCassytha Filiformis,
Cuscuta reflexa, The giant dodder, The Love vine کہلاتا ہے اور Family Convolvulaceae/Lauraceaکی Genus Cuscuta کی سیکڑوں اقسام میں شامل ہے۔ اس کے دیگر انگریزی ناموں سے پتا چلتا ہے کہ اسے خواہ مخواہ شیطان اور بھکاری سے بھی نسبت دی جاتی ہے۔ آکاس بیل کا استعمال بھی طبی لحاظ سے مفید ہے۔ اسے طبی زبان میں اقاقیا بھی کہتے ہیں، جب کہ عربی زبان کے مختلف زبانوں کا استعمال اس پر مستزاد ہے۔ آکاس بیل کوٹ پیس کر سر میں لگانے سے، اور اس کے پانی سے سر دھونے سے، بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس کا استعمال پیٹ کی صفائی، ریاح کے موزوں اخراج، خون کی صفائی، وَرموں کے علاج ، ہچکیاں روکنے اور یرقان کے سدباب کے ساتھ ساتھ مردانہ و زنانہ قوت کے لیے بھی مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ سر درد، دردِ زہ ، ہڈیوں کی شکست و ریخت، بخار، گردے کا درد، جگر کے امراض، اسہال، ذیابیطس، پیٹ کا درد، پیٹ کے کیڑے اور جوڑوں کا دردنیز زخموں کو جلد مندمل کرنے میں یہ مفید بیل استعمال ہوتی ہے۔ یہ بیل جس پودے پر اگتی ہے، اُسے تو زندگی سے محروم کردیتی ہے، مگر اس کے ننھے ننھے سفید، گھنٹی نما پھول، اسے بیج اور پھل فراہم کرتے ہیں جن کا بہ طور دوائی استعمال حکمت میں ہوتا ہے۔
عشق کی بات کی جائے تو یقیناً امر بیل ایک مُثبَت استعارہ ہے۔ اسے 'عشق پیچاں' بھی کہتے ہیں۔ لغات کشوری میں مولوی تصدق حسین رضوی نے لفظ 'عشق' کے ذیل میں لکھا ہے:''عربی۔ کسی شئے کو نہایت دوست رکھنا۔ بعض طبیب کہتے ہیں کہ عشق ایک مرض ہے، قسم جنون سے جو شکل ِ حسیِن دیکھنے سے پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ ماخوذ ہے عشقہ سے جس کو لبلاب اور عشق پیچاں بھی کہتے ہیں اور اس نبات کا قاعدہ ہے کہ جس درخت پر لپٹتی ہے، اس کو خش کردیتی ہے۔
پس یہی حالت عشق کی بھی ہے کہ جس کو ہوتا ہے، اس کو خشک اور زرد کردیتا ہے۔'' اسی طرح انھوں نے عشق پیچاں اور عشقہ کے ذیل میں لکھا ہے: ''ایک نبات مشہور ہے جو درخت پر پھیلتی ہے۔ اس کا پھول سرخ ہوتا ہے۔''{یہاں دو وضاحتیں: الف۔ عشق پیچاں کا نام بعض دیگر بیلوں جیسے Ivyاور English Ivyکے لیے بھی مستعمل ہے۔ ب۔ اس بیل کی اقسام کے فرق سے پھولوں کا رنگ بھی مختلف ہوتا ہے}۔
اردو میں عام مفہوم یہی ہے کہ کسی بھی شوق یا لگائو کی انتہاء اور شدت کو بالعموم اور محبت کی انتہاء کو علی الخصوص (بالخصوص غلط ہے) عشق کہا جاتا ہے۔ یہی معاملہ حمدونعت ومنقبت گوئی میں بھی رَوا رکھا گیا اور آج تک چلا آتا ہے، مگر معروف سیرت نگار قاضی محمد سلیمان سلمانؔ منصورپوری نے اس ضمن میں نہایت چشم کُشا حقیقت بیان کی ہے جو عصرحاضر کے علمائے کرام کو بھی ازسرنو دیکھنی چاہیے تاکہ آگے بیان ہوسکے۔
قاضی صاحب نے لکھا: ''پس جب عشق کے معنی قسمے ازجنون ہوئے تو ضرور تھا کہ خدا اور رسول (ﷺ) کے پاک کلام میں اس لفظ کا استعمال نہ کیا جاتا اور اسے فضائل ِ محمودہ ۔یا۔ محاسن ِ جمیلہ سے شمار نہ کیا جاتا۔ بے شک قرآن حکیم اور احادیث رسول کریم (ﷺ) میں لفظ محبت کا استعمال ہوا ہے جس سے ثابت ہوا کہ محبت ہی صفت ِ کمال انسانی ہے۔'' (رحمۃ للعالمین ﷺ)]قاضی صاحب کا تخلص سلمان تھا، جب کہ اُنھی کے معاصر عالِم علامہ سیدسلیمان ندوی کے فرزند کا نا م ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہے[۔ مصباح اللغات (عربی۔اردو) میں مؤلف ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی نے لفظ 'لبلاب ' کے ذیل میں لکھا ہے: ''عشق پیچہ ۔ ایک پھول دار بیل جو جھاڑیوں پر پھیلتی ہے ۔ اس کا پتّہ لوبیا کے پتّے کے مُشابہ ہوتا ہے۔''
عشق سے امربیل یا آکاس بیل کی نسبت کا بیان تو ہوا، مگر یہاں ایک اور بات یاد آگئی۔ عشق کا ایک جداگانہ مفہوم بہت پہلے کبھی اسی خاکسار کی تحریروں میں پیش کیا گیا تھا، وہ بھی لگے ہاتھوں قند مکرر کے طور پر حاضر ہے۔
جب ہَرنی کو اُس کے بچے سے جُدا کیا جائے تو بچہ اپنی ماں کے فراق میں بگٹٹ بھاگتے ہوئے جو آواز نکالتا ہے، اس پُرسوز آواز کو بھی عربی میں عشق کہتے ہیں مگر قربان جائیے ہمارے ناقدین ادب و مدرسین ادب کے جو اپنے شاگردوں کو پہلی بات یہی بتاتے ہیں کہ بھئی عشق کا مطلب ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔ اب شاگرد اگر کسی اور مزاج کا یا کسی اور خیال میں ہو، شرمیلا ہو، شرمیلی ہو، دین دار ہو .......وغیرہ تو بہت مشکل ہوجاتا ہے آگے سمجھانا۔ ہاں اگر کوئی اس قدیم سوچ کا حامل ہو کہ میاں غزل میں تو صرف عشق، مشک کا ذکر ہی ہووے ہے۔
باقی سب کہنا فضول ہے......تو پھر معاملہ بالکل اُسی طرح چوپٹ جیسے کہ جوش ملیح آبادی کی مخصوص سوچ کے تحت جسمانی ملاپ اور پیار ہی درحقیقت پیار، محبت اور عشق ہے، باقی سقراطی عشق یا افلاطونی عشق[Socraric love] کوئی چیز نہیں۔ اب ہر کوئی Sigmund Freud نہیں بن سکتا نہ ہی پیار کے جذبے کو صرف اُس آنچ تک محدود کیا جاسکتا ہے جو وَصل کے بعد قدرے بھڑک کر بجھ جاتی ہے اور ہر ایسے موقع پر تڑ پ کر پھر راکھ سے شعلہ اور شعلہ مستعجل سے شعلہ جوّالہ اور پھر بھیانک تاریکی۔
کہیے کیسی شاعری ہوگئی نثر میں......بات کی بات ہے کہ کینیڈا میں مقیم ہمارے ایک نہایت محترم کرم فرما کی فرمائش ہے کہ میاں اس نثری نظم کی بدعت پر بھی لکھیے۔ دیکھئے کب تعمیل ممکن ہو۔ اچھا موضوع پر واپس آتے ہیں ۔ بانوقدسیہ کا ناول ''امربیل'' اس عجیب جملے سے شروع ہوتا ہے:''محبت کی امربیل میں ہمیشہ ہائی سنتھ [Hyacinth] کے پھول لگتے ہیں۔'' یہاں خاصی بے ادبی کی جسارت کرتے ہوئے ایک نامور ادیبہ کی تحریر کا 'پوسٹ مارٹم' کرنا پڑرہا ہے کہ کہیں عام آدمی کچھ اور نہ سمجھ لے۔ انھوں نے تو کسی خاص پس منظر میں اس پھول کا ایک طفیلی پودے میں لگنا بیان کیا ہے۔
ادیب اور شاعر پر کوئی پابندی نہیں کہ بقول میر انیسؔ
؎ تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملادوں
قطرے کو جو دُوں آب تو گوہر سے ملادوں
مگر ہائی سنتھ کے پودے اور خوب صورت پھول کا اَمَر بیل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ جب لفظ آکاس بیل استعمال ہوتا ہے تو اسے نحوست اور اداسی کا استعارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات، ایک ہی چیز کے دو مختلف ناموں کا دو مختلف مفاہیم میں استعمال۔ سائنسی ادب کی تخلیق میں مشغول، عصر حاضر کی ممتاز شاعرہ محترمہ آمنہ عالم کی عنایت سے ہمیں یہ شعر نصیب ہوا:
جس پر بھی مہرباں ہوئے، اُس نے دیا ہے روگ
آکاس بیل بن کے ملے ہم سے یار لوگ
طفیلی پودوں کے متعلق اُن کی یہ نظم بھی دل چسپ ہے:
''طفیلی پودے''
آئو چلو کچھ پودوں کا
تم کو حال سناتے ہیں
انساں اور اِن پودوں میں
شاید کچھ کچھ ناتے ہیں
اس باعث ہی یہ پودے
محسن کُش کہلاتے ہیں
گرچہ اُن کی کئی اقسام
جَڑ کا اُن میں نہیں ہے کام
بیج میں کونپل آتے ہی
جو بھی پیڑ ملے یہ اُس سے
اپنا پیار جتاتے ہیں
لپٹے چمٹے جاتے ہیں
اپنا آپ بڑھاتے ہیں
اُن کا رس پی جاتے ہیں
جاں کو روگ لگاتے ہیں
اُن کو جیون دینے والے
رفتہ رفتہ سارے پودے
چُپکے سے مرجاتے ہیں
اور صاحبو! آکاس بیل کی مذمت میں لکھی گئی یہ منفرد ہائیکو بھی محترمہ آمنہ عالم ہی کی عطا ہے:
شاخ جو پھیلی ہے
پیڑ ہی سارا کھالے گی
بیل طفیلی ہے
آپ نے دیکھا کہ جب ایک حساس ذہن اپنا خیال بذریعہ قلم، صفحہ قرطاس پر لاتا ہے تو کیا کیا نکتہ آرائی ہوتی ہے۔ میں اس بہانے دعوت دیتا ہوں اپنے ہم عصر شعرائے کرام کو کہ اسی موضوع پر کوئی ایسی نظم کہہ دکھائیں جس میں تمام مثبت و منفی پہلوئوں کا احاطہ ہوسکے۔
طفیلی پودوں خصوصاً بیلوں میں صرف امربیل کو ہی شہرت اور رسوائی ملی ہے، ورنہ فہرست تو خاصی طویل ہے۔ کچھ ایسے پودوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:Nuytsia floribunda (Western Australian Christmas tree), Rhinanthus (e.g. Yellow rattle),Mistletoe, Hydnora
Mistletoes کے متعلق ہول ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ طفیلی پودے جنگلوں کو معاشی لحاظ سے تباہ کردیتے ہیں اور آرائشی درخت اِن کا ہدف ہوتے ہیں۔ Strigaکی بعض اقسام سے افریقہ سمیت متعدد مقامات پر ہر سال کھربوں ڈالر مالیت کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں جن میں مکئی، چاول اور جُوار[Sorghum]بھی شامل ہیں۔Rafflesia arnoldii وہ طفیلی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا پھول Rafflesiaپیدا کرتا ہے جس کا قُطر ایک میٹر کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ پھول دار پودوں کی چارسو اقسام کے ساتھ Fungi جڑی ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں بہت سارے پودے ایسے بھی ہیں جن کے فوائد اُن کی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔