مالی خسارہ زیادہ،برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا،ترقی کیلیے سنجیدگی دکھاناہو گی،پہلی سہ ماہی کی تجزیاتی رپورٹ جاری۔ فوٹو: فائل
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے متنبہ کیا ہے کہ معیشت بحالی کے باوجود سنگین خطرات سے دوچار ہے جب کہ بہت زیادہ بیرونی قرضہ لینے کے باوجود غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے ہیں۔
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تاستمبر) سے متعلق تجزیاتی رپورٹ جاری کردی جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ معیشت بحالی کے باوجود سنگین خطرات سے دوچار ہے، ترقی زیادہ تر مینوفیکچرنگ اور زراعت میں ہوئی۔ ٹیکس ریونیواور پبلک فنانس کی کارکردگی بہترین رہی لیکن اس کے باوجود ملک کے اندر بیرونی سرمایہ کاری اور فنانسنگ بہت بڑے چیلنجز ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی کا 4.4فیصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ گزشتہ سال سے 120 فیصد زیادہ ہے، بہت زیادہ بیرونی قرضہ لینے کے باوجود غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے ہیں، حکومت دعوی کرتی ہے کہ یہ خسارہ مشینری کی درآمدات کی وجہ سے ہے جبکہ اس سہ ماہی میں مشینری کی درآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا نیز بجلی پیدا کرنے کے آلات کی درآمد میں بھی 17فیصد کمی ہوئی جب کہ آئی پی آر نے بیرونی قرضوں پر سخت تنقید کی اور مستقبل کیلیے ان کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق مالی خسارہ ہدف سے بہت زیادہ آگے چلا گیا ہے، میکر واکنامک فیکٹر نے ملک کی پائیدار اور طویل مدتی ترقی پر قدغن لگا رکھی ہے، یہ تمام مسائل سالہا سال سے معیشت کے معاملے میں فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، انہی مسائل کی وجہ سے معاشی ڈھانچہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا اور نہ ہی معیشت میں پائیداری آئی نیز سرمایہ کاری بھی نہ بڑھ پائی۔
رپورٹ میں کہا گیاکہ پاکستان کے اندر اتنی قابلیت ہے کہ وہ معیشت کو بدل دے اور اس میں تیزی سے بہتری لائی جائے لیکن اس کیلیے سنجیدگی دکھانا ہو گی، پہلی سہ ماہی میں بجلی کی بہتر پیداوار، اچھی سیکیورٹی اور کم شرح سود کی وجہ سے بڑے پیمانے کی صنعت کاری میں 8.4 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ زرعی شعبے نے بھی اچھی خاصی ترقی کی اس لیے جی ڈی پی کی نمو زیادہ ہو گی۔
پبلک سیکٹر پروگرام میں سرمایہ کاری اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کی بہترین فضا قائم ہو گئی ہے، پہلی سہ ماہی میں برآمدات میں 10.8فیصد اضافہ ہوا، بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم 2فیصد بڑھیں تاہم مسابقت کی وجہ سے برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو سکا جب کہ برآمدات 18فیصد کے حساب سے بڑھنی چاہئیں کیونکہ ایکسپورٹ میں بہتری لائے بغیر ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔