قائداعظمؒ جائے پیدائش سے مزارِ قائد تک

افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے بہت جلد ہی اپنے اُس محسن کو بھلا دیا جس نے ہمیں پاکستان جیسا خوبصورت اور انمول تحفہ دیا۔


مختار احمد December 25, 2017
قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے اپنی جرأت مندی اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

سر زمینِ کراچی کو اس بات پر فخر حاصل ہے کہ اس کی کوکھ سے کئی نامور شخصیات نے نہ صرف جنم لیا بلکہ بین الا اقوامی سطح پر شہرت بھی حاصل کی۔ انہی شخصیات میں بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نام سرِفہرست ہے۔ انہوں نے اپنی جرأت مندی اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا؛ برصغیر کا موجودہ بدلا ہوا نقشہ بھی انہی کی مرہونِ منت ہے۔ اپنی انہی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر انہوں نے نہ صرف برِصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ دیا بلکہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کےلیے مسلمانوں کے واسطے علیحدہ وطن بھی حاصل کیا۔

قائدِاعظمؒ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے بہت جلد ہی اپنے اس محسن کو بھلا دیا جس نے ہمیں پاکستان جیسا خوبصورت اور انمول تحفہ دیا۔ مقامِ افسوس ہے کہ آج تک ہم اپنے قائد کی تاریخِ پیدائش تک پر متفق نہیں ہوسکے۔ بعض لوگ ان کا یومِ ولادت 20 اکتوبر قرار دیتے ہیں تو بیشتر لوگ 25 دسمبر کو ان کی سالگرہ مناتے ہیں۔ قائدِاعظمؒ کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی اب تک ٹھوس شواہد کے ساتھ مقام کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ اس سلسلے میں ان کی ابتدائی درس گاہوں کرسچن مشن اسکول اور سندھ مدر سۃ الاسلام میں بھی ان کی تاریخِ پیدائش کا اندراج ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اب تک ہم اس بات پر بھی اتفاق نہیں کرسکے کہ وہ جھرک میں پیدا ہوئے یا کراچی میں۔ اسی طرح ہم میں سے بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی آخری آرام گاہ کب اور کیسے تعمیر ہوئی۔

ہم سب مل کر ہر سال یومِ آزادی، یومِ دفاع اور دیگر قومی تہواروں پر ''اے قائدِاعظمؒ ترا احسان ہے احسان'' کے ملی نغمے گا کر ان گِنے چُنے دنوں میں قائد کا احسان چکاتے نظر آتے ہیں، مگر ہم میں سے اکثر بابائے قوم کے حیات و افکار سے نا بلد ہیں؛ حتیٰ کہ ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو پورا کرنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔

اب جہاں تک قائد اعظمؒ کی یادوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کھارادر کے علاقے میں ان کی جائے پیدائش ''وزیر مینشن،'' فاطمہ جناح روڈ پر ان کا ذاتی گھر ''قائدِاعظم ہاؤس میوزیم'' اور کلفٹن کے علاقے میں ''موہٹہ پیلس'' موجود ہے، جبکہ ان کی آخری آرام گاہ نمائش چورنگی پر واقع ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کا انتقال ہوا تو اس وقت اس بات کی پریشانی ہوئی کہ قائد اعظم کو شہر کے کس مقام پر سپرد خاک کیا جائے جو ان کے شایانِ شان ہو۔ اس سلسلے میں متعلقہ کمیٹی نے 5 مقامات کا تعین کیا مگر مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح کو مذکورہ جگہیں سمجھ نہ آئیں جس پر قائد کی تدفین کی ذمہ داری اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر کراچی ہاشم رضا کو سونپی گئی۔ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی مشاورت سے شہر کے عین وسط میں ایک بلند مقام پر، جہاں مہاجرین کی بستیاں آباد تھیں، جگہ کا انتخاب کیا۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے اپنے محبوب قائد کےلیے فوری طور پر جگہ خالی کردی جس کے بعد قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کو اس مقام پر سپردِ خاک کر دیا گیا۔

21 جنوری 1956 کو وفاقی کابینہ نے مزارِ قائد کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ مزار کے ڈیزائن کےلیے ایک بین الا قوامی مقابلہ منعقد کروایا گیا جس میں یحییٰ مرچنٹ کے پیش کردہ ڈیزائن کی منظوری دے دی گئی۔ تعمیراتی کام کا با قاعدہ آغاز 8 فروری 1960 کو کیا گیا اور 31 مئی 1966 کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کر لیا گیا۔ 12 جون 1970 کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔

پھر دسمبر 1970 میں چینی مسلمانوں کی ایسوسی ایشن کی جانب سے 81 فٹ لمبا خوبصورت فانوس کا خوبصورت تحفہ دیا گیا جسے مزارِ قائد کے گنبد میں نصب کر دیا گیا۔ فانوس میں 41 طاقتور برقی قمقمے نصب تھے۔

l_119175_125923_updates

مزار کی تعمیر پر آنے والے تمام اخراجات، جو 1 کروڑ 48 لاکھ روپے تھے، عوام کے چندوں اور وفاقی و صوبائی حکومت کے عطیات سے پورے کیے گئے۔ مزارِ قائد کی اونچائی سطح سمندر سے 91 فٹ بلند رکھی گئی، اس کا کل رقبہ 131.58 ایکڑ ہے جس پر بعد میں خوبصورت باغات لگائے گئے، راہ داریاں بنائی گئیں اور فوارے و آبشاریں نصب کی گئیں۔

15 جنوری 1971 کو مزارِ قائد باضابطہ طور پر شہریوں کےلیے کھول دیا گیا جس کے بعد سے عوام کا ایک جم غفیر روزانہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کےلیے آتا ہے۔

1995 میں مزار کو مزید خوبصورت اور سرسبز بنانے کی منظوری دی گئی اور اس کا نام ''باغِ قائد اعظم'' رکھ دیا گیا۔ مزار کے احاطے میں لینڈ لائٹس، ٹاپ لائٹس اور زیرِ آب لائٹس کا جال بچھا دیا گیا جس کے بعد مزار قائد مکمل طور پر ایک جدد باغ بن گیا۔ مزار میں داخل ہونے کےلیے مختلف ناموں سے 5 دروازے بنائے گئے ہیں جنہیں بابِ جناح، بابِ قائدین، بابِ تنظیم، بابِ امام اور بابِ اتحاد کا نام دیا گیا۔

تعمیرات اور تزئین و آرائش کے پورے مرحلے میں تقریباً 4 لاکھ 28 ہزار مربع فٹ سنگِ مرمر، 4 ہزار ٹن سیمنٹ، 565 ٹن فولاد، 64 ہزار فٹ پائپ، 248 زیرِ زمین روشنیاں، 69 راستوں کی روشنیاں اور 64 چبوترے کی فلڈ لائٹس کا استعمال کیا گیا جس پر 33 کروڑ روپے کی لاگت آئی۔ باغ کو مزید خوبصورت بنانے کےلیے 36 اقسام کے 5 ہزار درخت، 46749 مربع فٹ گھاس اور ڈھائی ہزار بینچیں بنوائی گئیں جس کے سبب اسے آج کراچی کے سب سے پُررونق اور حسین باغ کا درجہ دیا جاتا ہے۔

اس کا انتظام ''مزارِقائد مینجمنٹ بورڈ'' چلاتا ہے۔ اس سلسلے میں مزار مینجمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر عارف حسن سے ان کے دفتر میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ باغ قائد اعظمؒ محبتوں کا امین ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ نہ صرف مزار پر حاضری دیتے ہیں بلکہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مزارِ قائد مختلف ممالک کے درمیان پاکستان کے تعلقات کے فروغ کےلیے بھی خدمات انجام دیتا ہے۔

چین نے پاکستان سے دوستی مضبوط کرنے کےلیے آج سے 46 سال قبل مزارِ قائد کو ایک فانوس کا تحفہ پیش کیا تھا۔ 46 سال گزر جانے کے بعد چین نے فانوس پرانا ہوجانے کے پیش نظر گزشتہ سال ایک اور فانوس کا تحفہ دیا جس کا وزن 2 من اور قطر 28 مربع میٹر ہے؛ جبکہ اس میں 48 برقی قمقمے اور 8.3 کلو گرام سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس فانوس کو نصب کرنے کےلیے چین سے انجینئروں اور ٹیکنیشنز کی 13 رکنی ٹیم پاکستان آئی جس نے پچھلے سال 5 نومبر کو فانوس کی تنصیب کا کام مکمل کیا۔ پرانے فانوس کو مزارِقائد کے احاطے میں ہی بطور یادگار رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں فانوس چین اور پاکستام کی دوستی کو مزید مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔



اس موقع پر چین سے فانوس نصب کرنے کےلیے آنے والے ٹیکنیکل ہیڈ، مسٹر چاؤنگ اور مسٹر ڈیوڈ سے بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ قائدِاعظمؒ ایک عالمی لیڈر تھے جن کی شخصیت کو چین میں بھی پورے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزار قائد پر فانوس کی تنصیب ان کےلیے نہ صرف ایک یادگار لمحہ تھا بلکہ ایک ایسا اعزاز تھا جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فانوس کی تنصیب سے دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے اور ان کے درمیان محبتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں