ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ہر سازش کے یہ دانشور چشم دید گواہ رہے ہیں۔


سیدہ شہلا رضا December 24, 2017

COPENHAGEN: اپنے قیام کے روز اول سے لے کر آج تک پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی میڈیا کی پسندیدہ جماعت نہیں رہی، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر بھی نہیں ہوتا تھا اس کا ذکر ہر دور میں میڈیا اتنے زور و شور سے کرتا رہا کہ وہ سچ دکھائی دینے لگتا تھا۔

1970 میں کفر کے فتوے سے لے کر کشتی سے بیس ارب روپے برآمد ہونے تک کا پروپیگنڈا کیا گیا، لیکن گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں ایک نہایت ہی نیا الزام عائد کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عوام سے اپنا رابطہ توڑ دیا۔ جس دانشور نے یہ الزام عائد کیا انھوں نے بتایا کہ ''گزشتہ دنوں میں وہ شندور کے میلے میں تشریف لے گئے، وہاں انھوں نے ایک گھر میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر دیکھی، دریافت کیا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے تو جواب ملا کہ ''نہیں ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں''۔

سوال کیا کہ پھر یہ بھٹو کی تصویر کیوں؟ تو انھیں جواب ملا کہ بھٹو صاحب چترال آئے تھے یہ تب کی تصویر ہے اور ان کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت میں سے کسی نے چترال کا دورہ نہیں کیا''۔ اس ایک واقعے کو بنیاد بنا کر یہ طے کرلیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی بھٹو کے بعد کی قیادت نے عوام سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔

یہ تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے ان چالیس برسوں میں پیپلز پارٹی پر ہونے والے مظالم کی داستان کو یکسر نظرانداز کردیا۔ انھوں نے فراموش کردیا کہ عدالتوں سمیت ریاستی اداروں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا۔ 1979 کے عدالتی قتل سے لے کر 22 سیکنڈ کے توہین عدالت کے جرم میں وزیراعظم کی برطرفی تک ظلم کی ایک داستان ہے جو شاید دنیا کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دو صاحبزادوں کے قتل کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا تھی کہ وہ بھٹو کے بیٹے تھے۔

ناصر بلوچ، ایاز سموں، ادریس طوطی، رزاق جھرنا، عثمان غنی اور حمید بلوچ سمیت دیگر کارکنوں کا جرم بھی اس کے علاوہ کیا تھا کہ وہ ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں'' کے نظریے کو مانتے تھے۔ 86482 کوڑوں کی سزا پیپلز پارٹی کو اس جرم پر ہی تو دی گئی کہ وہ کہتے تھے کہ ''جمہوریت ہماری سیاست ہے''۔ جن جرائم کے مرتکب یہ تمام افراد ہوئے تھے وہی جرم ان ہزاروں کارکنوں کا بھی تھا جنھیں پچاس پچاس برس تک کی سزائیں دی گئیں۔

شاہی قلعہ لاہور کی اذیت ناک سزاؤں سے لے کر خواتین کی گرفتاریوں تک ظلم کا کون سا پہاڑ تھا جو پیپلزپارٹی پر نہیں توڑا گیا۔ ذاتی طور پر مجھ پر اگر ڈبل مرڈر کیس بنایا گیا تو سندھ کے قائم علی شاہ پر کیس بنا کہ انھوں نے 22 اگست 1990 میں ایم کیو ایم کے استقبالیہ کیمپوں پر فائرنگ کروائی۔ یہ سب کچھ کسی ایک دور میں نہیں ہوا۔ پہلا دور اگر 1977 سے 1988 کے فضائی حادثہ تک رہا تو 1990 سے ایک نیا دور شروع ہوا اور پھر 1999 سے تیسرے دور کا آغاز ہوا۔

ضیائی آمریت میں بے نظیر بھٹو کو ساڑھے پانچ برس پابند سلاسل اسی لیے رکھا گیا کہ وہ عوام اور کارکنوں سے رابطہ نہ رکھ سکیں۔ بیگم نصرت بھٹو کو شدید ترین بیماری کی حالت میں بھی علاج کے لیے بیرون ملک جانے سے اسی لیے روکا گیا کہ وہ بیرون ملک پاکستان میں ہونے والے ظلم کو دنیا کے سامنے پیش نہ کرسکیں۔ دنیا کا طویل ترین سنسر بھی تو اسی لیے تھا کہ نہ تو قرآن شریف پڑھنے والوں پر بکتر بند گاڑیوں سے کچلنے کی داستان باہر آئے اور نہ ہی گوٹھ طیب تھیم میں ایک ایک گھر کو مسمار کرنے کا کہیں ذکر ہو، بلکہ یہ ذکر بھی کہیں نہ ہو کہ بھٹو شہید کی قبر پر ایک برس تک وردی والوں کا پہرہ رہا تھا۔

یہ سب ظلم کی داستان کا ایک حصہ تھا جس کے ذریعے دہشت کی فضا بنائی گئی کہ عوام کو پیپلز پارٹی سے دور کیا جائے، دوسری جانب پیپلز پارٹی کو تقسیم کرنے کے لیے کبھی پروگریسیو پیپلزپارٹی اور پاکستان مساوات جیسی سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہوئی تو کبھی سندھی، بلوچ، پختون فرنٹ بنا کر کنفیڈریشن کا نعرہ لگوایا گیا اور نیشنل پیپلز پارٹی جیسی بغل بچہ تنظیموں پر ہاتھ رکھا گیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے نام پر فرقہ پرستی اور برادری کو پروان چڑھانے سے جب بات نہیں بنی تو تعصب زدہ نعروں پر قوم کو تقسیم کیا گیا۔

1985 میں جب ''لاڈلے'' ہر طرح کی امداد کے باوجود ناکام ہوئے تو آئی جے آئی کے نام پر بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا۔ یہ تجربہ بھی ناکام ہوا تو چھانگامانگا کا بازار سجایا گیا۔ سازش کے دوسرے دور دہشت گرد اسامہ بن لادن اور ڈوگر مافیا کے سرمائے سے تحریک عدم اعتماد کے نام پر لوٹوں کا نیلام گھر سجایا گیا اور ناکامی کے بعد 58 ٹوبی کا سہارا لے کر بیس ماہ کی حکومت کو ختم کیا گیا۔

1990 کے بعد سے پیپلز پارٹی کی قیادت پر صرف کیس اور ریفرنس ہی نہیں بنائے گئے بلکہ پروپیگنڈا کا ایک نیا دور شروع ہوا، کبھی دو من سونا برآمد کیا جاتا، کبھی گھوڑوں کو مربہ کھلانے کی خبریں چھاپی جاتیں۔ بیرون ملک زیورات اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات دینا اس کے علاوہ تھیں، اغوا برائے تاوان اور پیر میں بم باندھ کر رقم وصول کرنے سے لے کر قتل تک کے کیس بنائے گئے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت تو جیل میں تھی یا مقدمات بھگتا رہی تھی، ایک دن لاہور تو اگلے دن ملتان اور پھر اسلام آباد اور کراچی۔ یہ سب کیوں تھا؟ اسی لیے کہ قیادت کو کارکنوں اور عوام سے دور رکھا جائے۔ آصف علی زرداری کی ساڑھے گیارہ برس قید صرف اس لیے نہیں تھی کہ محترمہ بے نظیربھٹو پر دباؤ بڑھایا جائے بلکہ اس لیے بھی تھی کہ دوسری صف کے رہنماؤں کے حوصلے توڑے جائیں اور پنجاب میں وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔

1985 سے چھانگا مانگا میں مصر کا بازار سجانے سے لے کر 2017 تک ایک خاندان کی سرپرستی کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو کمزور سے کمزور تر کیا جائے۔ بات تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ میڈیا اور عدلیہ اس میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ میڈیا ایک جانب شادیوں کے شوقین وزیروں اور وزیراعلیٰ سے صرف نظر کرتے رہے اور بغیر تحقیق کے اس دعوے کو فخریہ نشر کرتے رہے کہ ایک جھوٹی عورت جو دعوے کر رہی ہے وہ صحیح نہیں بلکہ مستفید ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ہر سازش کے یہ دانشور چشم دید گواہ رہے ہیں۔ وہ انتظامیہ کے مظالم ہوں یا عدلیہ کے ایسے فیصلے، جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہو یا پھر میڈیا کا تعصبی رویہ، یہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ لیکن تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ''قصور پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا ہے، اس کے سوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔''

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔