ناطقہ سر بہ گریباں ہے
خرابی ہر شعبے میں ہے لیکن نظام تعلیم کی خرابی اور کرپشن بڑھ چڑھ کر ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مریض سے پوچھا ''بابا جی! آپ کو شوگر ہے؟'' وہ بولے ''جی ہاں''۔ جواب میں ڈاکٹر نے پھر پوچھا ''شوگر اور بلڈ پریشر بھی ہے؟'' جواب میں انھوں نے گردن ہلائی اور جیب سے ایک معروف اسپتال کا نسخہ نکال کر انھوں نے ڈاکٹر کی طرف بڑھادیا۔ نسخہ لیٹر ہیڈ پر تھا اور یہ بھی کراچی کے معروف اسپتالوں میں سے ایک ہے، خاص کر شوگر کے حوالے سے۔ انھوں نے دواؤں پر اور لیٹر ہیڈ پر نظر ڈالی اور بولیں ''یہ سب دوائیں غلط ہیں جو آپ کو دی جا رہی ہیں، اگر آپ کو علاج کروانا ہے تو ہمارے بتائے ہوئے طریقے کو اپنانا ہوگا۔ آپ کو شوگر ہے تو کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر ہونا لازمی ہے، لیکن آپ کو تو کولیسٹرول کی کوئی دوا نہیں دی گئی۔''
جواب میں بابا جی کی اہلیہ نے کہا کہ ''جو آپ کہیں گی ویسا ہی کریں گے۔'' تب ڈاکٹر نے ایک اور نسخہ تجویز کیا اور ان کے حوالے کیا۔ دل کے امراض کے حوالے سے یہ اسپتال کراچی کے بڑے اسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے بعد میری باری آئی۔ ای سی جی کی رپورٹ میرے پاس تھی جوکہ بالکل نارمل تھی۔ میں نے وہ رپورٹ ان کے سامنے رکھی اور بتایا کہ مجھے ''ایکو'' ٹیسٹ کروانا ہے۔ میرے ڈاکٹر نے ایڈوائس کی ہے۔'' اس پر انھوں نے پوچھا ''آپ کو شوگر ہے؟''، ''بالکل ہے مگر کنٹرول میں ہے۔''
میں نے رینڈم اور فاسٹنگ کی رپورٹ انھیں بتائی، کیونکہ میں ہر دوسرے دن اپنی شوگر خود چیک کرکے نوٹ کرلیتی ہوں۔ پھر انھوں نے ہائی بلڈ پریشر کا پوچھا اور ان میڈیسن کے نام پوچھے، جو میں لے رہی تھی۔ شوگر کی دوا اور بلڈ پریشر کی دونوں ایک اسپیشلسٹ کی تجویز کردہ تھیں۔ انھوں نے فوراً کہا ''جو دوا آپ B.P کے لیے لے رہی ہیں وہ تو اس کی ہے ہی نہیں، یہ تو ہارٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔ شوگر کی دواؤں سے بھی وہ مطمئن نہیں تھیں۔ بہرحال انھوں نے پانچ چھ قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ مجھے لکھ کر دیے اور فرمایا کہ ''جب ان ٹیسٹ کی رپورٹس آجائیں گی تب نسخہ تجویز ہوگا۔ خاص مہربانی انھوں نے یہ کی کہ بغیر کسی سفارش کے میری استدعا پر ''ایکو'' (Ecco) کے ٹیسٹ کی قریب ترین تاریخ دینے کے لیے اپنے دستخط کردیے۔ میں نے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی ان سے کہا کہ ایک عام آدمی کی اتنی نالج نہیں ہوتی کہ وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا کے بارے میں فیصلہ کرسکے کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ جنرک نام ایک ہی ہوتے ہیں لیکن مختلف کمپنیاں مختلف ناموں سے دوا بازار میں لاتی ہیں۔ اس لیے مریض کو الزام دینا درست نہیں۔ اس پر وہ مسکرائیں اور بولیں کہ ''ڈاکٹر کو اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ ہارٹ بیٹ کم کرنے کی دوا اور بلڈ پریشر کی دوائیں الگ الگ ہوتی ہیں۔''
تب میں نے ان سے کہا کہ ''معاف کیجیے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب جعلی ڈگریوں پر ڈاکٹرز کو اپائنمنٹ مل جائیں گے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔'' ساتھ ہی میں نے ان کی توجہ اخبار میں چھپنے والی اس خبر کی طرف کروائی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ''جامعہ کراچی میں رقم لے کر فیل طلبا کو پاس کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایم بی بی ایس میں ناکام طلبا کو فی پرچہ 4 لاکھ روپے، ایم بی بی ایس کے لیے اور بی ڈی ایس کے لیے 3 لاکھ فی پرچہ کے عوض پاس کردیا گیا ہے۔'' ڈاکٹر صاحبہ کے پاس اب کوئی جواب نہ تھا۔
جامعہ کراچی میں میڈیکل کی ڈگریوں اور ناکام طلبا کو چند لاکھ کے عوض پاس کرنے کا یہ ''آفیشل کرپشن'' پچھلے دنوں منظر عام پر آیا ہے۔ امتحان میں فیل ہونیوالے طلبا کا دوبارہ امتحان لینے کے بجائے ''فائن'' کے نام پر رقم لی گئی اور نتائج تبدیل کرکے انھیں پاس کردیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ طلبا اب ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور اپنے کیسز کی تصدیق کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ یہ فیل شدہ طلبا جو ہاؤس جاب کر رہے ہیں، مریضوں کا کیا علاج کرینگے؟ جگر کے علاج کے لیے گردوں کی دوا دینگے اور امراض قلب کے لیے اپھارہ اور گیس کی دوا دے کر فارغ کردینگے۔
یہی وجہ ہے کہ عام طور پر لوگ تجربہ کار اور پختہ عمر کے ڈاکٹروں سے علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید ان طلبا کو نقل کا موقع نہیں ملا ہوگا ورنہ ایسے بھی ڈاکٹرز موجود ہیں جو نقل کرکے پاس ہوئے اور انھیں نقل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ ایم بی بی ایس کے علاوہ بی ڈی ایس والے دانتوں کے علاج کے لیے کیا کمال دکھائیں گے، اس کا اندازہ بھی بہت سے ان لوگوں کو ہے جو نجی اور سرکاری اسپتالوں میں دانتوں کے علاج کے لیے جاتے ہیں، دانتوں کا علاج بہت مہنگا علاج ہے۔
لوٹ کھسوٹ میڈیکل کے شعبے میں عام سی بات ہے۔ مریض کی بات سنے بغیر نسخہ تھما دینا، کسی ایک ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں ترک کرکے دوسری دوائیں دینا اور نئے ٹیسٹ کروانا ایک معمول کا رویہ ہے۔ فارمولا ایک ہی ہوتا ہے، کمپنیاں الگ الگ ہوتی ہیں، 90 فیصد ڈاکٹرز اپنی من پسند کمپنیوں کی دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ میڈیکل کے نمایندے جو صبح صبح ہر کلینک پر اور ہر اسپتال میں اپنا اپنا لٹریچر اور سیمپل لے کر آتے ہیں، ڈاکٹرز کو پرکشش مراعات بھی دیتے ہیں۔ بعض ڈاکٹرز کی اپنی لیبارٹریز ہیں اور بعض کا ان میں شیئر ہے اسلیے وہ من پسند لیب کے ٹیسٹ ہی قبول کرتے ہیں۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
خرابی ہر شعبے میں ہے لیکن نظام تعلیم کی خرابی اور کرپشن بڑھ چڑھ کر ہے۔ طب جیسے حساس شعبے میں جعلی ڈگریوں، اور پیسے دیکر فیل ہوجانیوالے طلبا کو پاس کردینا اور انھیں ہاؤس جاب کرنے دینا عام آدمی کے ساتھ ایک ناروا سلوک، بے ایمانی اور گھناؤنا جرم ہے۔ آئے دن ڈاکٹروں کی نااہلی اور مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کبھی اسپتالوں کے کوریڈور میں ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے بچے جنم لیتے ہیں، کبھی متاثرہ دانت کی جگہ دوسرا صحت مند دانت نکال دیا جاتا ہے۔ کبھی روٹ کینال کی صفائی مکمل طور پر نہیں کی جاتی اور اسے بند کردیا جاتا ہے۔ چند دن بعد دانت میں پھر درد شروع ہوجاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اناڑی ڈاکٹر نے کام دکھادیا ہے۔ اب دوبارہ روٹ کینال ہوگی۔ دوبارہ صفائی ہوگی، اور دوبارہ ایک موٹی رقم آپ کی جیب سے جائے گی۔
جامعہ کراچی کا ''آفیشل اسکینڈل'' تو اب سامنے آیا ہے، لیکن شعبہ تعلیم سے منسلک پروفیسرز اور ٹیچرز جانتے ہیں کہ کون کون سے چور راستے ہیں جہاں سے نمبر بڑھوائے جاتے ہیں۔ امتحانی کاپیوں کے ذریعے، اساتذہ پہ دباؤ ڈال کر یا شعبہ امتحانات کے افسران اور عملے کی ملی بھگت سے، پھر اسکروٹنی کے ذریعے اور ٹیبولیشن رجسٹر میں مارکس کی تبدیلی کے ذریعے جس میں دونوں ٹیبولیٹر حضرات اور عملے کی مدد سے نمبروں میں تبدیلی کرکے جس میں 47 کو 74، 49 کو 94 اور 56 کو 65 بنانا بہت آسان ہے۔ مارکس شیٹ ٹیبولیشن کے بعد ہی بنتی ہے۔ کاپیاں چیک کرنے والے اساتذہ پر اور ہیڈ ایگزامنر پر کیسے کیسے دباؤ پڑتے ہیں کہ جان کر آپ حیران ہوجائیں۔
جو اساتذہ 28 کو 48 کرنے سے انکار کردیں، ان کو کاپیاں چیک کرنے کو نہیں دی جاتیں یا پھر انھیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ مطلوبہ کاپی پر نمبر ہر صورت میں بڑھانے ہیں۔ اسی لیے شعبہ تعلیم سب سے زیادہ روبہ زوال ہے۔ نااہل ڈاکٹرز، انجینئرز اور ناکام اساتذہ جو سفارشوں اور رشوت کی بنیاد پر دھڑلے سے کام کر رہے ہیں، قومی خزانے سے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
جن شعبوں کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ طب اور تعلیم کا شعبہ ہے بدقسمتی سے سب سے زیادہ کرپشن انھی دو شعبوں میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے انٹرنیٹ سے مواد چوری کرکے مقالہ جمع کروادیا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک ہی شعبے کا استاد اپنے ہی سینئر کا مقالہ چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلیتا ہے، تاکہ تنخواہ میں اضافہ ہوسکے۔ طرفہ تماشا یہ کہ گائیڈ اس مقالے کو تسلیم بھی کرلیتا ہے۔ کیونکہ اب پی ایچ ڈی کا کام ٹھیکوں کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ مواد کو پڑھے بغیر آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مقالوں پر تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دی جا رہی ہیں۔ بس ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے۔