پاکستان میں اب بھی دہشتگردوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں افغان وزیر داخلہ
دہشتگردوں کیخلاف پاکستانی آپریشنزکی قدر کرتے ہیں، ویس برمق
افغان وزیرداخلہ ویس احمد برمق نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد ابھی بھی پاکستان سے افغانستان آتے ہیں جب کہ ان کے تربیتی مراکز پاکستان میں موجود ہیں۔
ویس احمد برمق نے ایکسپریس نیوز کے اینکر رحمان اظہر کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں جاری جنگ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے اور یہ کسی طور بھی جائز نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات میں ایک اہم سنگ میل یہ ثابت ہوا ہے کہ ہم کافی عرصے سے کوشش کررہے تھے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس جنگ کو فساد قراردیا جائے۔
افغان وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اب پاکستان نے افغان صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی علما اور مذہبی رہنماؤں کو اس کے لیے تیارکیا جا رہا ہے، پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جاری جنگ کو فساد قرار دلوانا ان معاہدوں میں سے ایک ہے جو پاکستان سے طے پائے ہیں۔
ویس برمق نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان حکومت کو پاکستانی سرزمین پر موجود طالبان دہشتگردوں کی تفصیلات دی تھیں جو مسترد کردی گئیں مگر بعد میں کئی افغان طالبان کمانڈر ان جگہوں پر مارے گئے، انھوں نے دہشتگردوں کیخلاف پاکستانی آپریشنز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پاکستان کی ان کوششوں کی قدر کرتا ہے مگر کیا اتنا کافی ہے، کیا اسی پر بس ہوگی، پاکستان میں دہشتگرد ابھی بھی فعال ہیں۔
احمد برمق نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد ابھی بھی پاکستان سے افغانستان آتے ہیں اور اپنے ساتھ گولہ بارود لاتے ہیں، ان کے تربیتی مراکز پاکستان میں موجود ہیں، اس حوالے سے میں کتابوں، مقالہ جات، تحقیقات، یا مختلف صحافیوں کی رپورٹس کے حوالے نہیں دینا چاہتا، اب نکتہ یہ ہے کہ ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے بغیرہم اور ہمارے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ خطے میں امن اور دونوں ملکوں کے درمیان امن و استحکام کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل مدتی امن معاہدہ بہت ضروری ہے تاکہ دونوں ملک خطے اور اپنی عوام کے لیے ملکر کام کریں، ہم بہت سے شعبوں میں تعاون کرسکتے ہیں، ہم خطے میں ان ٹریڈیشنل روابط کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
افغان وزیر داخلہ نے کہا کہ افغانستان نے کبھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کیا اور نہ ہی دہشتگردی کو فنانس کیا ہے، ہم نے کبھی کسی دہشت گرد گروپ یا نیٹ ورک کو اپنی زمین نہیں دی ہے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں، وزارات داخلہ، وزارت دفاع کوئی اس میں شامل نہیں، اس وقت ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں، ہم دہشت گردوں، دہشتگرد تنظیموں سے لڑ رہے ہیں، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ایک ساتھ ملکر اس مقامی اور عالمی دہشتگردی کیخلاف لڑنا پڑیگا، مولوی فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی کے حواے سے میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایک سوال پر ویس برمق نے کہا کہ بھارت افغان تعلقات کے حوالے سے ہم نے کئی بار کہا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے تشویش کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، ہر خودمختار ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تعلقات کسی بھی ملک کیساتھ اپنی مرضی کے مطابق قائم کرے، ہم ہمیشہ پاکستان سے واپس آنیوالے افغان مہاجرین کو خوش آٓمدید کہیں گے اور ان کو واپس بسائیں گے جہاں سے وہ نکالے گئے تھے۔
ویس احمد برمق نے ایکسپریس نیوز کے اینکر رحمان اظہر کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں جاری جنگ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے اور یہ کسی طور بھی جائز نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات میں ایک اہم سنگ میل یہ ثابت ہوا ہے کہ ہم کافی عرصے سے کوشش کررہے تھے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس جنگ کو فساد قراردیا جائے۔
افغان وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اب پاکستان نے افغان صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی علما اور مذہبی رہنماؤں کو اس کے لیے تیارکیا جا رہا ہے، پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جاری جنگ کو فساد قرار دلوانا ان معاہدوں میں سے ایک ہے جو پاکستان سے طے پائے ہیں۔
ویس برمق نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان حکومت کو پاکستانی سرزمین پر موجود طالبان دہشتگردوں کی تفصیلات دی تھیں جو مسترد کردی گئیں مگر بعد میں کئی افغان طالبان کمانڈر ان جگہوں پر مارے گئے، انھوں نے دہشتگردوں کیخلاف پاکستانی آپریشنز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پاکستان کی ان کوششوں کی قدر کرتا ہے مگر کیا اتنا کافی ہے، کیا اسی پر بس ہوگی، پاکستان میں دہشتگرد ابھی بھی فعال ہیں۔
احمد برمق نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد ابھی بھی پاکستان سے افغانستان آتے ہیں اور اپنے ساتھ گولہ بارود لاتے ہیں، ان کے تربیتی مراکز پاکستان میں موجود ہیں، اس حوالے سے میں کتابوں، مقالہ جات، تحقیقات، یا مختلف صحافیوں کی رپورٹس کے حوالے نہیں دینا چاہتا، اب نکتہ یہ ہے کہ ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے بغیرہم اور ہمارے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ خطے میں امن اور دونوں ملکوں کے درمیان امن و استحکام کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل مدتی امن معاہدہ بہت ضروری ہے تاکہ دونوں ملک خطے اور اپنی عوام کے لیے ملکر کام کریں، ہم بہت سے شعبوں میں تعاون کرسکتے ہیں، ہم خطے میں ان ٹریڈیشنل روابط کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
افغان وزیر داخلہ نے کہا کہ افغانستان نے کبھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کیا اور نہ ہی دہشتگردی کو فنانس کیا ہے، ہم نے کبھی کسی دہشت گرد گروپ یا نیٹ ورک کو اپنی زمین نہیں دی ہے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں، وزارات داخلہ، وزارت دفاع کوئی اس میں شامل نہیں، اس وقت ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں، ہم دہشت گردوں، دہشتگرد تنظیموں سے لڑ رہے ہیں، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ایک ساتھ ملکر اس مقامی اور عالمی دہشتگردی کیخلاف لڑنا پڑیگا، مولوی فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی کے حواے سے میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایک سوال پر ویس برمق نے کہا کہ بھارت افغان تعلقات کے حوالے سے ہم نے کئی بار کہا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے تشویش کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، ہر خودمختار ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تعلقات کسی بھی ملک کیساتھ اپنی مرضی کے مطابق قائم کرے، ہم ہمیشہ پاکستان سے واپس آنیوالے افغان مہاجرین کو خوش آٓمدید کہیں گے اور ان کو واپس بسائیں گے جہاں سے وہ نکالے گئے تھے۔