دورۂ نیوزی لینڈ کڑی آزمائش
کمزور حریف سری لنکا کو چاروں شانوں چت کرنے کے بعد اب پلیئرز کو قطعی مختلف کنڈیشنز کا سامنا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کیلئے 2017 بہت یادگار ثابت ہوا، سب سے بڑی کامیابی چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں ملی، اب نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے، کھلاڑیوں سے شائقین کی توقعات بھی بڑھ چکی ہیں، شاہینوں کا پہلا دورہ ہی نیوزی لینڈ کا ہے جو سخت امتحان ثابت ہوگا۔
یو اے ای میں گذشتہ سیریز میں کمزور حریف سری لنکا کو چاروں شانوں چت کرنے کے بعد اب پلیئرز کو قطعی مختلف کنڈیشنز کا سامنا ہے، کیویز کے دیس میں اچھا پرفارم کرنا آسان نہیں ہوتا، بڑی بڑی ٹیمیں یہاں جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں، گرین شرٹس کو 2015ء میں مصباح الحق کی زیرقیادت دونوں میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، گذشتہ برس ایک میچ بارش کی نذر ہوا۔ دیگر 2 میں ناکامی ہی ہاتھ آئی، اظہر علی نے قیادت کے فرائض نبھائے، ٹیم کو آخری فتح 2011ء میں شاہد آفریدی کی کپتانی میں ملی جب 6 میچز کی ون ڈے سیریز 3-2 سے اپنے نام کی، اب گرین شرٹس کو نوجوان کندھوں نے سنبھالا ہوا ہے۔
ٹیم کی حالیہ کارکردگی شاندار اور امید ہے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے گا،ان دنوں کیویز نے ویسٹ انڈیز کا تیا پانچا کیا ہوا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنی کنڈیشنز میں وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے، البتہ کیریبئن اور پاکستانی ٹیم میں بہت فرق ہے لہٰذا کانٹے کے مقابلے کی توقع ظاہرکر دی گئی ہے، اسکواڈ کی روانگی میں چند روز ہی باقی ہیں مگر حیران کن طور پر سلیکٹرز نے اب تک منتخب کھلاڑیوں کا اعلان ہی نہیں کیا، ان دنوں لاہور میں فٹنس ٹیسٹ کا سلسلہ جاری ہے، اس کے بعد ہی علم ہو سکے گا کہ کون کون نیوزی لینڈ جانے والے طیارے میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
بدقسمتی سے انجری کے سبب جنید خان ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں، وہ بنگلہ دیش لیگ کے دوران مسائل کا شکار ہوئے، پی سی بی جو کھلاڑیوں کو بڑی تعداد میں غیرملکی لیگز کیلئے ریلیز کر دیتا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے، دیگر چند پلیئرز کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ مکمل فٹ نہیں، خیر فٹنس ٹیسٹ سے علم ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے،اس اہم دورے کی تیاری کیلئے کوئی طویل کیمپ میں بھی لگ سکا کیونکہ کھلاڑی بنگلہ دیش لیگ اور پھر ٹی ٹین لیگ میں مصروف رہے، البتہ انھیں پہلے ون ڈے سے چند روز قبل نیوزی لینڈ پہنچ کر کنڈیشنز سے ہم آہنگی کا موقع مل جائے گا۔
اس سے قبل انگلش پچز پر پاکستان نے رواں سال ہی چیمپئنز ٹرافی جیتی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھلاڑی ہرقسم کی کنڈیشنز میں اچھا پرفارم کرنے کے اہل ہیں، البتہ انھیں کیوی پچز کو ذہن پر سوار کرنے سے بچنا ہوگا، ویسٹ انڈیز سے سیریز کے دوران اندازہ ہو گیا کہ گوکہ وکٹوں سے فاسٹ بولرز کو مدد ملتی ہے مگر اچھے بیٹسمین بھی بڑا اسکور کر سکتے ہیں، فخر زمان چیمپئنز ٹرافی کے بعد بجھے بجھے دکھائی دیے، البتہ اب اچھے باؤنس والی پچز پر دوبارہ سے ان کی جانب سے بڑی اننگز دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
بطور اوپنر احمد شہزاد کے انتخاب کی بھی باتیں ہو رہی ہیں مگر دیکھنا ہوگا کہ وہ ماضی جیسی فارم کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اظہر علی فٹ ہو کر واپس آ گئے ہیں، ان جیسے ثابت قدم بیٹسمین کا ساتھ ٹیم کیلئے بیحد ضروری ہے، ہماری بیٹنگ ناقابل اعتبار کہلاتی ہے، پلیئرز عادتاً کچھ جلد باز بھی واقع ہوئے ہیں، ایسے میں اظہر علی جیسے کھلاڑی ایک اینڈ روکے رہتے ہیں جس کا بیحد فائدہ ہوتا ہے، شعیب ملک کا تجربہ بھی مفید ثابت ہوگا، بطور کپتان سرفراز احمد اب خاصے میچور ہو چکے، انھیں نیوزی لینڈ میں بھی اپنی قائدانہ صلاحتیں منوانے کا اچھا موقع ملے گا۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق نے یو اے ای کی آسان کنڈیشنز میں سری لنکا جیسی کمزور ٹیم کیخلاف تو ڈیبیو پر سنچری بنا دی مگر اب دیکھنا ہو گا کہ غیرسازگار پچز پر وہ کیسا کھیل پیش کرتے ہیں،محمد حفیظ پابندی کے سبب گوکہ بطور بولر ٹیم کو دستیاب نہیں ہوں گے، البتہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کی خوبیاں ٹیم میں ان کی جگہ تو بناتی ہیں، حسن علی نے چیمپئنز ٹرافی میں شاندار بولنگ سے پاکستان کو ٹرافی کا حقدار بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، نیوزی لینڈ کی پچز پر بھی وہ حریف بیٹنگ لائن کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹرینٹ بولٹ کی 7 وکٹوں نے ان میں نیا جوش بھر دیا ہوگا اور وہ بھی سازگار پچز پر عمدہ بولنگ کیلئے بے چین ہوںگے، انھیں محمد عامر کی معاونت بھی حاصل ہو گی، اسپنر شاداب خان آسٹریلیا میں بگ بیش کھیل کر تجربہ حاصل کر رہے ہیں جس کا انھیں نیوزی لینڈ میں بہت فائدہ ہو گا، پاکستانی ٹیم میں کئی ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو کیویز کے دیس میں اچھا پرفارم کر سکیں ، ہمیں بھی اچھے نتائج کی امید رکھنی چاہیے۔
یو اے ای میں گذشتہ سیریز میں کمزور حریف سری لنکا کو چاروں شانوں چت کرنے کے بعد اب پلیئرز کو قطعی مختلف کنڈیشنز کا سامنا ہے، کیویز کے دیس میں اچھا پرفارم کرنا آسان نہیں ہوتا، بڑی بڑی ٹیمیں یہاں جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں، گرین شرٹس کو 2015ء میں مصباح الحق کی زیرقیادت دونوں میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، گذشتہ برس ایک میچ بارش کی نذر ہوا۔ دیگر 2 میں ناکامی ہی ہاتھ آئی، اظہر علی نے قیادت کے فرائض نبھائے، ٹیم کو آخری فتح 2011ء میں شاہد آفریدی کی کپتانی میں ملی جب 6 میچز کی ون ڈے سیریز 3-2 سے اپنے نام کی، اب گرین شرٹس کو نوجوان کندھوں نے سنبھالا ہوا ہے۔
ٹیم کی حالیہ کارکردگی شاندار اور امید ہے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے گا،ان دنوں کیویز نے ویسٹ انڈیز کا تیا پانچا کیا ہوا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنی کنڈیشنز میں وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے، البتہ کیریبئن اور پاکستانی ٹیم میں بہت فرق ہے لہٰذا کانٹے کے مقابلے کی توقع ظاہرکر دی گئی ہے، اسکواڈ کی روانگی میں چند روز ہی باقی ہیں مگر حیران کن طور پر سلیکٹرز نے اب تک منتخب کھلاڑیوں کا اعلان ہی نہیں کیا، ان دنوں لاہور میں فٹنس ٹیسٹ کا سلسلہ جاری ہے، اس کے بعد ہی علم ہو سکے گا کہ کون کون نیوزی لینڈ جانے والے طیارے میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
بدقسمتی سے انجری کے سبب جنید خان ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں، وہ بنگلہ دیش لیگ کے دوران مسائل کا شکار ہوئے، پی سی بی جو کھلاڑیوں کو بڑی تعداد میں غیرملکی لیگز کیلئے ریلیز کر دیتا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے، دیگر چند پلیئرز کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ مکمل فٹ نہیں، خیر فٹنس ٹیسٹ سے علم ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے،اس اہم دورے کی تیاری کیلئے کوئی طویل کیمپ میں بھی لگ سکا کیونکہ کھلاڑی بنگلہ دیش لیگ اور پھر ٹی ٹین لیگ میں مصروف رہے، البتہ انھیں پہلے ون ڈے سے چند روز قبل نیوزی لینڈ پہنچ کر کنڈیشنز سے ہم آہنگی کا موقع مل جائے گا۔
اس سے قبل انگلش پچز پر پاکستان نے رواں سال ہی چیمپئنز ٹرافی جیتی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھلاڑی ہرقسم کی کنڈیشنز میں اچھا پرفارم کرنے کے اہل ہیں، البتہ انھیں کیوی پچز کو ذہن پر سوار کرنے سے بچنا ہوگا، ویسٹ انڈیز سے سیریز کے دوران اندازہ ہو گیا کہ گوکہ وکٹوں سے فاسٹ بولرز کو مدد ملتی ہے مگر اچھے بیٹسمین بھی بڑا اسکور کر سکتے ہیں، فخر زمان چیمپئنز ٹرافی کے بعد بجھے بجھے دکھائی دیے، البتہ اب اچھے باؤنس والی پچز پر دوبارہ سے ان کی جانب سے بڑی اننگز دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
بطور اوپنر احمد شہزاد کے انتخاب کی بھی باتیں ہو رہی ہیں مگر دیکھنا ہوگا کہ وہ ماضی جیسی فارم کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اظہر علی فٹ ہو کر واپس آ گئے ہیں، ان جیسے ثابت قدم بیٹسمین کا ساتھ ٹیم کیلئے بیحد ضروری ہے، ہماری بیٹنگ ناقابل اعتبار کہلاتی ہے، پلیئرز عادتاً کچھ جلد باز بھی واقع ہوئے ہیں، ایسے میں اظہر علی جیسے کھلاڑی ایک اینڈ روکے رہتے ہیں جس کا بیحد فائدہ ہوتا ہے، شعیب ملک کا تجربہ بھی مفید ثابت ہوگا، بطور کپتان سرفراز احمد اب خاصے میچور ہو چکے، انھیں نیوزی لینڈ میں بھی اپنی قائدانہ صلاحتیں منوانے کا اچھا موقع ملے گا۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق نے یو اے ای کی آسان کنڈیشنز میں سری لنکا جیسی کمزور ٹیم کیخلاف تو ڈیبیو پر سنچری بنا دی مگر اب دیکھنا ہو گا کہ غیرسازگار پچز پر وہ کیسا کھیل پیش کرتے ہیں،محمد حفیظ پابندی کے سبب گوکہ بطور بولر ٹیم کو دستیاب نہیں ہوں گے، البتہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کی خوبیاں ٹیم میں ان کی جگہ تو بناتی ہیں، حسن علی نے چیمپئنز ٹرافی میں شاندار بولنگ سے پاکستان کو ٹرافی کا حقدار بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، نیوزی لینڈ کی پچز پر بھی وہ حریف بیٹنگ لائن کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹرینٹ بولٹ کی 7 وکٹوں نے ان میں نیا جوش بھر دیا ہوگا اور وہ بھی سازگار پچز پر عمدہ بولنگ کیلئے بے چین ہوںگے، انھیں محمد عامر کی معاونت بھی حاصل ہو گی، اسپنر شاداب خان آسٹریلیا میں بگ بیش کھیل کر تجربہ حاصل کر رہے ہیں جس کا انھیں نیوزی لینڈ میں بہت فائدہ ہو گا، پاکستانی ٹیم میں کئی ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو کیویز کے دیس میں اچھا پرفارم کر سکیں ، ہمیں بھی اچھے نتائج کی امید رکھنی چاہیے۔