چیف جسٹس پاکستان کی صائب باتیں
آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے، چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے' پانی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے جو کرنا پڑا کریں گے' عدالت عظمیٰ کہیں بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہی' کوئی مزدور اور غریب شہری ملک کی صورت حال کا ذمے دار نہیں' ملک کی موجودہ کیفیت کا ذمے دار ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی ادارے میں برسراقتدار رہا ہو' معاملہ انسانی زندگیوں کا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ کی کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی کی سنگین صورت حال سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میو اسپتال لاہور کا دورہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کیا' جن لوگوں نے کوتاہی کی انھیں نہیں بخشا جائے گا۔
ملک بھر میں انسانی زندگیوں اور بنیادی انسانی حقوق کا جس قدر تحفظ اور احترام کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہر حکمران اور عوامی نمایندے کا شہریوں کو بنیادی سہولیات بہتر انداز میں فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنا معمول کی کارروائی بن چکی ہے۔ دور دراز علاقوں کا تو کیا کہنا ہر صوبائی دارالحکومت میں بنیادی انسانی سہولیات دگرگوں اور زبوں حالی سے دوچار ہیں۔ لاہور' کراچی' کوئٹہ اور پشاور کے بڑے سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذکر گاہے بگاہے حکومتی سربراہان یا اہم شخصیات کے دوروں کے دوران سامنے آتا رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور کے معروف میو اسپتال کا دورہ کیا اس موقع پر انھوں نے جو صورت حال دیکھی وہ انتہائی پریشان کن اور انتظامیہ کی ''بہترین کارکردگی'' کا پول کھولنے کے لیے کافی تھی۔ چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ اسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت تک میسر نہیں تھی۔ یہ تو ایک بڑے اور معروف سرکاری اسپتال کی حالت ہے کسی بھی بڑے سرکاری اسپتال میں چلے جائیں تو وہاں کی ابتر صورت حال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہاں مریض صحت یاب ہونے نہیں بلکہ مزید بیماریاں گھیرنے آتے ہیں۔
اس زبوں حالی کا ذمے دار یقیناً عام شہری نہیں بلکہ انتظامیہ کے وہ اعلیٰ عہدے دار اور ذمے داران ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ تمام تر سہولیات حاصل کرنے کے باوجود یہ ذمے داران اپنے فرائض کس خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں ان کے ماتحت اداروں کی حالت دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی ہب ہے وہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی' صحت کی سہولیات اور صفائی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس کا نوٹس لینا پڑا، انھوں نے جن چشم کشا حالات کی نشاندہی کی وہ سندھ حکومت اور وہاں کی انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جا رہا ' صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے' کراچی میں پینے کا پانی بیچا اور ٹینکر مافیا کو مضبوط کیا جا رہا' یہ سب کمائی کے دھندے ہیں' واٹر بورڈ کے لوگ ماہوار پیسے وصول کرتے ہیں' بتایا جائے ٹینکر مافیا کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
ہر سال بجٹ میں بنیادی انسانی سہولیات کی بہتر فراہمی کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کے علاوہ سیوریج اور صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے جس کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے بار بار نشاندہی کی جاتی ہے۔ جب کبھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ہے یا الیکشن قریب آتے ہیں تو وقتی طور پر انتظامیہ اور عوامی نمایندے پھرتیاں دکھا دیتے ہیں جس کے بعد وہی پریشان کن صورت حال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پینے کے پانی کی لائنیں اتنی پرانی اور ناقص ہو چکی ہیں کہ ان سے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہی نہیں رہی۔ انتظامیہ میں کرپشن اور اپنے فرائض سے کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہر' قصبے اور دیہات گندگی کا ڈھیر اور مختلف مسائل کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
اب چیف جسٹس آف پاکستان نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات کی ناقص صورت حال کی جانب جو توجہ دلائی ہے اس کے بعد کیا انتظامیہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرے گی، ماضی کی صورت حال کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی آجائے گی۔ ضروری ہے کہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ذمے داران کو قانون کے شکنجے میں لا کر تادیبی کارروائی کی جائے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ کی کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی کی سنگین صورت حال سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میو اسپتال لاہور کا دورہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کیا' جن لوگوں نے کوتاہی کی انھیں نہیں بخشا جائے گا۔
ملک بھر میں انسانی زندگیوں اور بنیادی انسانی حقوق کا جس قدر تحفظ اور احترام کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہر حکمران اور عوامی نمایندے کا شہریوں کو بنیادی سہولیات بہتر انداز میں فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنا معمول کی کارروائی بن چکی ہے۔ دور دراز علاقوں کا تو کیا کہنا ہر صوبائی دارالحکومت میں بنیادی انسانی سہولیات دگرگوں اور زبوں حالی سے دوچار ہیں۔ لاہور' کراچی' کوئٹہ اور پشاور کے بڑے سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذکر گاہے بگاہے حکومتی سربراہان یا اہم شخصیات کے دوروں کے دوران سامنے آتا رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور کے معروف میو اسپتال کا دورہ کیا اس موقع پر انھوں نے جو صورت حال دیکھی وہ انتہائی پریشان کن اور انتظامیہ کی ''بہترین کارکردگی'' کا پول کھولنے کے لیے کافی تھی۔ چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ اسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت تک میسر نہیں تھی۔ یہ تو ایک بڑے اور معروف سرکاری اسپتال کی حالت ہے کسی بھی بڑے سرکاری اسپتال میں چلے جائیں تو وہاں کی ابتر صورت حال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہاں مریض صحت یاب ہونے نہیں بلکہ مزید بیماریاں گھیرنے آتے ہیں۔
اس زبوں حالی کا ذمے دار یقیناً عام شہری نہیں بلکہ انتظامیہ کے وہ اعلیٰ عہدے دار اور ذمے داران ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ تمام تر سہولیات حاصل کرنے کے باوجود یہ ذمے داران اپنے فرائض کس خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں ان کے ماتحت اداروں کی حالت دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی ہب ہے وہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی' صحت کی سہولیات اور صفائی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس کا نوٹس لینا پڑا، انھوں نے جن چشم کشا حالات کی نشاندہی کی وہ سندھ حکومت اور وہاں کی انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جا رہا ' صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے' کراچی میں پینے کا پانی بیچا اور ٹینکر مافیا کو مضبوط کیا جا رہا' یہ سب کمائی کے دھندے ہیں' واٹر بورڈ کے لوگ ماہوار پیسے وصول کرتے ہیں' بتایا جائے ٹینکر مافیا کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
ہر سال بجٹ میں بنیادی انسانی سہولیات کی بہتر فراہمی کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کے علاوہ سیوریج اور صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے جس کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے بار بار نشاندہی کی جاتی ہے۔ جب کبھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ہے یا الیکشن قریب آتے ہیں تو وقتی طور پر انتظامیہ اور عوامی نمایندے پھرتیاں دکھا دیتے ہیں جس کے بعد وہی پریشان کن صورت حال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پینے کے پانی کی لائنیں اتنی پرانی اور ناقص ہو چکی ہیں کہ ان سے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہی نہیں رہی۔ انتظامیہ میں کرپشن اور اپنے فرائض سے کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہر' قصبے اور دیہات گندگی کا ڈھیر اور مختلف مسائل کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
اب چیف جسٹس آف پاکستان نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات کی ناقص صورت حال کی جانب جو توجہ دلائی ہے اس کے بعد کیا انتظامیہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرے گی، ماضی کی صورت حال کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی آجائے گی۔ ضروری ہے کہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ذمے داران کو قانون کے شکنجے میں لا کر تادیبی کارروائی کی جائے۔