تانبے و پیتل سے اشیا کی تیاری معدوم کاریگروں نے دوسرے پیشے اختیار کرلیے

بیروزگاری سے تنگ کاری گروںنے سینیٹری مارکیٹ میں وزن ڈھونے اور لوڈنگ گاڑیاں چلانے کاکام شروع کر دیا


Staff Reporter/Kashif Hussain December 25, 2017
پیتل وتانبے کی آرائشی اشیاکی فروخت 70فیصدکم ہوگئی، رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومت کی عدم دلچسپی اورنامساعد حالات کے باعث تانبے اورپیتل کی آرائشی اشیابنانے کافن معدوم ہونے لگا جب کہ بیروز گاری سے تنگ کاری گروںنے سینٹری مارکیٹ میں ہیلپرنگ اورلوڈنگ گاڑیاں چلانے کاکام شروع کردیا۔

کراچی کے تانبے و پیتل کے آرائشی ظروف بنانے والے ماہرکاریگروں کافن پاکستان سے باہربھی مشہوراورملک کی پہنچان ہے تاہم اب حکومتی سطح پرکوئی سرپرستی اور معاونت نہ ہونے اورنامساعدحالات کی وجہ سے یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے، بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے ہنرمندوں نے کراچی کے علاقے گولی مارکے علاقے میں پیتل گلی کی بنیاد ڈالی جہاں سوسے زائد دکانوں اور کارخانوں میں تانبے پیتل سے بنی ہوئی آرائشی اشیافروخت کی جاتی تھیں تاہم کراچی میں بدامنی، بجلی کی قلت اور برآمدات میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے یہ فن زوال پذیر ہوتا گیا، پیتل گلی میں سینٹری مارکیٹ پھیلتی چلی گئی اورپیتل تانبے کے کاریگرکم ہوگئے، اس وقت اس گلی میں 15 سے 20 دکانیں اورکارخانے باقی رہ گئے ہیں جوبڑھتی ہوئی لاگت اورفروخت میں کمی سے دوسرے روزگارتلاش کرنے پر مجبور ہیں۔

پیتل تانبے کے کاریگروں نے یہ فن اپنی آنے والی نسل کوبھی منتقل نہیں کیا جس سے کچھ عرصے بعداس فن کے مکمل طور پرمعدوم ہونے کاخدشہ ہے، پاکستان میں بنائی جانے والی پیتل تانبے کی اشیا بالخصوص گلدان، قندیلیں، کلس ، ہاتھی، ہرن، گھوڑوں اوردیگر جانوروں کے مجسمے اور ظروف سازی کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کے علاقے مرادآباد سے آنے والے افراد اس فن میں ماہرتھے جنھوں نے کراچی میں اس گھریلو صنعت کی بنیادرکھی۔

کراچی کی پیتل گلی میں بنائے گئے ظروف اورمجسمے زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور خلیجی ملکوں کو ایکسپورٹ کیے جاتے رہے جوامیر طبقے کے گھروں کی زینت بنے، پاکستان کے کاریگروں نے ایران اور عراق کے مقامات مقدسہ اور مزارات میں آرائشی اشیااور مزارات کی جالیاں بھی تیارکیں جبکہ اسلامی ممالک میں مساجد کے میناروں کے کلس خاص طور پر کراچی کے اس بازار سے بنوائے جاتے رہے ہیں۔

کاریگر محمد شمیم نے بتایا کہ 90کی دہائی میں کراچی کے حالات بالخصوص ہڑتال اور جلاؤ گھیراؤ پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اس کام کو شدید نقصان پہنچا ملک میں بدامنی کی وجہ سے سیاحوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا جو ان اشیاکے سب سے بڑے خریدارتھے اس طرح یہ کام زوال کی جانب گامزن ہوگیا اوررہی سہی کسر پیتل گلی میں سینٹری بازار کے قیام سے پوری ہو گئی۔

پیتل کا کام کرنے والے کارخانے اوردکانیں اب سینٹری اشیاکی فروخت کے مراکز اور گوداموں میں تبدیل ہوچکے ہیں، پیتل کی آرائشی اشیاکی فروخت 70فیصد تک کم ہو چکی ہے اور صرف امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی آرائشی اشیاخریدرہے ہیں جبکہ محدود پیمانے پرایکسپورٹ کاکام جاری ہے، پیتل اور تانبے کی اشیاکی فروخت میں نمایاں کمی کے نتیجے میں ماہر کاریگریومیہ اجرت پر مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ماہر کاریگر بے روزگاری کی وجہ سے اب سینٹری مارکیٹ میں لوڈنگ اور ہیلپری کرنے کے ساتھ لوڈنگ گاڑیاں چلاکرگزر بسر کر رہے ہیں۔

پالش کے دوران اڑنے والابرادہ کاریگروں کو بیمار کردیتا ہے

پیتل اورتانبے سے بنی ہوئی آرائشی اشیاکی پالش کے دوران اڑنے والابرادہ سانس کے راستے کاریگروں کے پھیپھڑوں میں جاکر بیماریوںکاسبب بنتاہے جس کے نتیجے میں اکثر کاریگر سانس،دمے سمیت دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کام میں محنت زیادہ اور معاوضہ بہت کم ہے، کاریگر

پیتل وتانبے سے بنی اشیاکے کاریگروں کا کہنا ہے کہ اہل خانہ کی کفالت کے لیے آبائی پیشہ ترک کرنا پڑا جس کا ہمیںبہت افسوس ہے تاہم اب اس پیشے میںمحنت زیادہ اور معاوضہ بہت کم رہ گیاہے جبکہ پیتل تانبے کی قیمت بڑھنے سے لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے، پیتل تانبے کی آرائشی اشیا تیار کرنے کے فن کو اب بھی زندہ کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر امن و امان کی صورتحال بہتر ہوچکی ہے کراچی میں حالات پرامن ہیں جس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں اور غیرملکی مہمان بھی پاکستان آرہے ہیں، آرائشی اشیا بنانے والے کاریگروں کو ملک میں ہونے والی تجارتی نمائشوں میں شرکت کے مواقع دیے جائیں تواس شعبے کو ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں