جوزف اسٹالن کی یاد میں
اسٹالن جنھوں نے روس کے اکتوبر 1917 کے انقلاب میں نہ صرف اہم ترین کردار ادا کیا
21 دسمبر 1879 کو روس میں جنم لینے والے جوزف اسٹالن کا اصل نام جوزف ویسیاریا نووچ جگاشولی تھا۔ اسٹالن جنھوں نے روس کے اکتوبر 1917 کے انقلاب میں نہ صرف اہم ترین کردار ادا کیا بلکہ اکتوبر انقلاب کے بعد اسٹالن نے روس کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسٹالن ابھی کمسن تھے کہ ان کے والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا اور اسٹالن کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمے داریاں ان کی والدہ نے اپنے سر لے لیں۔ ان کی والدہ کی شدید خواہش تھی کہ ان کا بیٹا دینی تعلیم پر مکمل عبور حاصل کرے اور پھر مبلغ بن کر دین کی تبلیغ کرے۔ اسی مقصد کے لیے ان کی والدہ نے اپنے بیٹے اسٹالن کو ایک مشن اسکول میں داخلہ دلادیا۔ اسٹالن کی والدہ ایک باہمت خاتون تھیں جنھوں نے اپنے بیٹے کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں نوکریاں کیں، جہاں انھیں برتنوں کی صفائی کے ساتھ گھروں کی صفائی بھی کرنا پڑی، مگر اسٹالن کی والدہ نے ہمت نہ ہاری، انھوں نے 1888 میں اسٹالن کو اس وقت مشن اسکول میں حصول تعلیم کی غرض سے داخلہ دلایا جب اسٹالن کی عمر 9 برس تھی۔
وہ 1894 تک مشن اسکول میں زیر تعلیم رہے اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے 1894 میں ارتھا ڈاکسی سیمی ناری نامی دینی ادارے میں داخل کرادیے گئے۔ البتہ اب یہ ضرور ہوا کہ اسٹالن نے نصابی کتب کے ساتھ ساتھ دیگر لکھنے والوں کی تحریروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی جیب خرچ میں والدہ کی جانب سے ملنے والی معمولی رقم بھی خرچ ڈالتے۔ یہ اسٹالن کے شوق مطالعہ کے باعث ہی ہوا کہ وہ کارل مارکس و ڈارون کی تحریروں و نظریات سے بھی روشناس ہوئے۔ بالخصوص کارل مارکس کی تحریروں نے اسٹالن کو بے حد متاثر کیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرنے و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اسٹالن کو بار بار ان کے تعلیمی ادارے سے نکال دیا جاتا اور بالآخر 1899 میں انھیں سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیمی ادارے سے ہی خارج کردیا گیا، کیونکہ اب اسٹالن نے جارجیائی زبان میں شاعری بھی شروع کردی تھی۔
اگرچہ اسٹالن 1898 میں ہی روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے تھے، البتہ 1900 میں فقط 21 برس کی عمر میں اسٹالن کو طفلس کے لیے پارٹی صدر منتخب کرلیا گیا جب کہ 1901 کو طفلس میں یکم مئی محنت کشوں کے عالمی دن کے حوالے سے اسٹالن کی قیادت میں ہزاروں محنت کشوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس میں شریک محنت کشوں کا زار شاہی پولیس کے اہلکاروں سے تصادم ہوگیا، جس کے باعث 14 افراد زخمی ہوگئے اور 15 محنت کشوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس واقعے کو کامریڈ لینن نے اپنے اخبار آسکرا میں کاکیشیا میں تاریخی اہمیت کا واقعہ قرار دیا۔ اسی برس اسٹالن نے باطوم کے مزدوروں کے ساتھ زیر زمین سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا، اسی باعث وہ 1902 میں گرفتار ہوئے اور بدنام زمانہ کتانیس کی جیل میں 18 ماہ اسیر رہے۔ 1903 میں جب پارٹی بالشویک و منشویک دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو اسٹالن نے بالشویک دھڑے کا ساتھ دیا، جب کہ اسی برس اسٹالن کو گرفتار کرکے تین برس کے لیے سائبیریا بھیج دیا گیا۔ البتہ اسٹالن سائبیریا سے فرار ہوکر باطون پھر طفلس واپس آگئے، یہ ذکر ہے جنوری 1904 کا۔
طفلس میں اسٹالن نے تیل کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کو منظم کرنا شروع کردیا۔ اسی برس 13 دسمبر سے 31 دسمبر تک اسٹالن نے ایک بھرپور و تاریخی ہڑتال منظم کی، اسی باعث انھیں ٹریڈ یونین کا معمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ 1905میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی کل روسی کانفرنس میں اسٹالن کو لینن نے اولین ملاقات میں ہی زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مرد آہن کا خطاب دے ڈالا، جب کہ اس وقت اسٹالن کی عمر فقط 26 برس تھی۔ 1905 میں جب 9 جنوری کو انقلابیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کردیا گیا تو اسٹالن کاکیشیا میں ہڑتالوں و بغاوت کی قیادت کر رہے تھے، البتہ 1907 میں جون کے مہینے سے پھر انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کردیا اور 1908 گرفتار ہوئے۔ اسٹالن سات بار گرفتار ہوئے اور چھ بار جلا وطن ہوئے۔
کامریڈ لینن کی ہدایت پر اسٹالن کی ادارت میں انقلابی اخبار پراودا (صداقت) جاری ہوا، یہ ذکر ہے مئی 1912 کا۔ علمی محاذ پر اسٹالن نے 1913 میں قومی سوال پر اپنا مشہور ڈرافٹ قوم اور قومیتیں تحریر کیا، جب کہ کامریڈ اسٹالن کی مشہور کتب اساس لینن و لینن آرم کے مسائل تاریخی و جدلی و مادیت کو لینن ازم میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے، جب کہ 1917 میں پیٹرو گراڈ میں فیصلہ کن انقلابی معرکہ درپیش آیا تو بغاوت کے لیے تمام لوازمات اسٹالن نے مہیا کیے۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد اسٹالن کو قومی امور کا کمیسار مقرر کیا گیا البتہ جب اس انقلاب کے خلاف اندرونی بغاوت و بیرونی جارحیت ہوئی تو ان بغاوتوں و بیرونی جارحیت کو کچلنے میں اسٹالن نے اہم ترین کردار ادا کیا، جس کے باعث انھیں ہیرو آف دی ریڈ فلیگ کا اعزاز حاصل ہوا۔
3 اپریل 1922 میں کامریڈ لینن کی تجویز پر اسٹالن کو انقلابی بالشویک پارٹی کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا جب کہ 30 دسمبر 1922 کو سوویت یونین کے نام سے سرخ اتحاد شوروی وجود میں آیا، جب کہ 21 جنوری 1924 کو کامریڈ لینن کی وفات ہوئی تو اسٹالن نے تمام ملکی امور سنبھال لیے، البتہ اب ان کے مدمقابل اپنے وقت کی سپرپاور برطانوی ریاست تھی، جس کا اسٹالن نے 21 برس تک مقابلہ کیا، جب کہ 1945 میں وجود میں آنے والی سپرپاور امریکا کا آٹھ برس تک یعنی 1953 تک مقابلہ کیا۔ البتہ 1942 میں سرمایہ داروں کی حمایت پاکر جرمن آمر ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کردیا، جس کا سوویت یونین کے محنت کشوں کی سرخے فوج نے 3 برس تک مقابلہ کیا اور بالآخر سرخے فوج کو فتح نصیب ہوئی۔ گوکہ اس جنگ میں 2 کروڑ 70 لاکھ روسی عوام جاں بحق ہوئے۔
یہ ضرور تھا کہ جرمن فوج کے 260 ڈویژن کے مدمقابل سرخے فوج کے 59 ڈویژن تھے۔ یہ کھلی صداقت ہے کہ اسٹالن نے سوویت یونین پر 29 برس ایک ماہ 12 یوم حکومت کی، مگر یہ حکومتی اعزاز ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ جو صنعتی ترقی یورپی سرمایہ داری نظام حکومت میں صدیوں میں حاصل کی گئی سوویت یونین میں وہ صنعتی ترقی اسٹالن کی قیادت میں فقط 25 برس میں حاصل کرلی۔ بچپن میں غربت سے لڑنے والے جوانی میں زار شاہی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والے اکتوبر انقلاب کے بعد سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اسٹالن نے 5 مارچ 1953 کو دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ 21 دسمبر 2017 کو کامریڈ اسٹالن کی 148 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر ہم اسٹالن کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ تمام تر مشکلات کے باوجود جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔
وہ 1894 تک مشن اسکول میں زیر تعلیم رہے اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے 1894 میں ارتھا ڈاکسی سیمی ناری نامی دینی ادارے میں داخل کرادیے گئے۔ البتہ اب یہ ضرور ہوا کہ اسٹالن نے نصابی کتب کے ساتھ ساتھ دیگر لکھنے والوں کی تحریروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی جیب خرچ میں والدہ کی جانب سے ملنے والی معمولی رقم بھی خرچ ڈالتے۔ یہ اسٹالن کے شوق مطالعہ کے باعث ہی ہوا کہ وہ کارل مارکس و ڈارون کی تحریروں و نظریات سے بھی روشناس ہوئے۔ بالخصوص کارل مارکس کی تحریروں نے اسٹالن کو بے حد متاثر کیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرنے و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اسٹالن کو بار بار ان کے تعلیمی ادارے سے نکال دیا جاتا اور بالآخر 1899 میں انھیں سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیمی ادارے سے ہی خارج کردیا گیا، کیونکہ اب اسٹالن نے جارجیائی زبان میں شاعری بھی شروع کردی تھی۔
اگرچہ اسٹالن 1898 میں ہی روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے تھے، البتہ 1900 میں فقط 21 برس کی عمر میں اسٹالن کو طفلس کے لیے پارٹی صدر منتخب کرلیا گیا جب کہ 1901 کو طفلس میں یکم مئی محنت کشوں کے عالمی دن کے حوالے سے اسٹالن کی قیادت میں ہزاروں محنت کشوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس میں شریک محنت کشوں کا زار شاہی پولیس کے اہلکاروں سے تصادم ہوگیا، جس کے باعث 14 افراد زخمی ہوگئے اور 15 محنت کشوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس واقعے کو کامریڈ لینن نے اپنے اخبار آسکرا میں کاکیشیا میں تاریخی اہمیت کا واقعہ قرار دیا۔ اسی برس اسٹالن نے باطوم کے مزدوروں کے ساتھ زیر زمین سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا، اسی باعث وہ 1902 میں گرفتار ہوئے اور بدنام زمانہ کتانیس کی جیل میں 18 ماہ اسیر رہے۔ 1903 میں جب پارٹی بالشویک و منشویک دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو اسٹالن نے بالشویک دھڑے کا ساتھ دیا، جب کہ اسی برس اسٹالن کو گرفتار کرکے تین برس کے لیے سائبیریا بھیج دیا گیا۔ البتہ اسٹالن سائبیریا سے فرار ہوکر باطون پھر طفلس واپس آگئے، یہ ذکر ہے جنوری 1904 کا۔
طفلس میں اسٹالن نے تیل کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کو منظم کرنا شروع کردیا۔ اسی برس 13 دسمبر سے 31 دسمبر تک اسٹالن نے ایک بھرپور و تاریخی ہڑتال منظم کی، اسی باعث انھیں ٹریڈ یونین کا معمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ 1905میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی کل روسی کانفرنس میں اسٹالن کو لینن نے اولین ملاقات میں ہی زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مرد آہن کا خطاب دے ڈالا، جب کہ اس وقت اسٹالن کی عمر فقط 26 برس تھی۔ 1905 میں جب 9 جنوری کو انقلابیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کردیا گیا تو اسٹالن کاکیشیا میں ہڑتالوں و بغاوت کی قیادت کر رہے تھے، البتہ 1907 میں جون کے مہینے سے پھر انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کردیا اور 1908 گرفتار ہوئے۔ اسٹالن سات بار گرفتار ہوئے اور چھ بار جلا وطن ہوئے۔
کامریڈ لینن کی ہدایت پر اسٹالن کی ادارت میں انقلابی اخبار پراودا (صداقت) جاری ہوا، یہ ذکر ہے مئی 1912 کا۔ علمی محاذ پر اسٹالن نے 1913 میں قومی سوال پر اپنا مشہور ڈرافٹ قوم اور قومیتیں تحریر کیا، جب کہ کامریڈ اسٹالن کی مشہور کتب اساس لینن و لینن آرم کے مسائل تاریخی و جدلی و مادیت کو لینن ازم میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے، جب کہ 1917 میں پیٹرو گراڈ میں فیصلہ کن انقلابی معرکہ درپیش آیا تو بغاوت کے لیے تمام لوازمات اسٹالن نے مہیا کیے۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد اسٹالن کو قومی امور کا کمیسار مقرر کیا گیا البتہ جب اس انقلاب کے خلاف اندرونی بغاوت و بیرونی جارحیت ہوئی تو ان بغاوتوں و بیرونی جارحیت کو کچلنے میں اسٹالن نے اہم ترین کردار ادا کیا، جس کے باعث انھیں ہیرو آف دی ریڈ فلیگ کا اعزاز حاصل ہوا۔
3 اپریل 1922 میں کامریڈ لینن کی تجویز پر اسٹالن کو انقلابی بالشویک پارٹی کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا جب کہ 30 دسمبر 1922 کو سوویت یونین کے نام سے سرخ اتحاد شوروی وجود میں آیا، جب کہ 21 جنوری 1924 کو کامریڈ لینن کی وفات ہوئی تو اسٹالن نے تمام ملکی امور سنبھال لیے، البتہ اب ان کے مدمقابل اپنے وقت کی سپرپاور برطانوی ریاست تھی، جس کا اسٹالن نے 21 برس تک مقابلہ کیا، جب کہ 1945 میں وجود میں آنے والی سپرپاور امریکا کا آٹھ برس تک یعنی 1953 تک مقابلہ کیا۔ البتہ 1942 میں سرمایہ داروں کی حمایت پاکر جرمن آمر ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کردیا، جس کا سوویت یونین کے محنت کشوں کی سرخے فوج نے 3 برس تک مقابلہ کیا اور بالآخر سرخے فوج کو فتح نصیب ہوئی۔ گوکہ اس جنگ میں 2 کروڑ 70 لاکھ روسی عوام جاں بحق ہوئے۔
یہ ضرور تھا کہ جرمن فوج کے 260 ڈویژن کے مدمقابل سرخے فوج کے 59 ڈویژن تھے۔ یہ کھلی صداقت ہے کہ اسٹالن نے سوویت یونین پر 29 برس ایک ماہ 12 یوم حکومت کی، مگر یہ حکومتی اعزاز ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ جو صنعتی ترقی یورپی سرمایہ داری نظام حکومت میں صدیوں میں حاصل کی گئی سوویت یونین میں وہ صنعتی ترقی اسٹالن کی قیادت میں فقط 25 برس میں حاصل کرلی۔ بچپن میں غربت سے لڑنے والے جوانی میں زار شاہی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والے اکتوبر انقلاب کے بعد سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اسٹالن نے 5 مارچ 1953 کو دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ 21 دسمبر 2017 کو کامریڈ اسٹالن کی 148 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر ہم اسٹالن کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ تمام تر مشکلات کے باوجود جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔