PKLI ایک خواب کی تعبیر

علاج معالجے کی سہولتوں کو موثر بنانے کے لیے حکومت نے دواؤں کی فراہمی کا موثر نظام وضع کیا ہے.

آج جب کہ میں یہ سطریں قلم بند کر رہا ہوں، پوری قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت منا رہی ہے۔ قائد اعظم نے تخلیق پاکستان کا عظیم کارنامہ انجام دے کر تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ حالانکہ انھیں بیک وقت برطانوی راج اور انڈیا نیشنل کانگریس کی مخالفت کا سامنا تھا۔ مسلسل سیاسی اور آئینی و دستوری جدوجہد سے ایک آزاد ملک کا قیام قائد اعظم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کا اس وقت کے ہندوستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنما تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔

مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے قائد اعظم نے جس سیاسی حکمت و بصیرت سے کام لیا ہم تا حال اسے کماحقہ نہیں سمجھ سکے۔ قائد اعظم کی مدبرانہ قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مجھے معروف مورخ سٹینلے والپرٹ کی کتاب جنا ح آف پاکستان کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ بہت کم لوگ تاریخ کے عمل میں کوئی نمایاں تبدیلی لاتے ہیں، اس سے بھی کم لوگ دنیا کے نقشے کو تبدیل کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی فرد ایک آزاد قومی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہو، مگر محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے۔

بقیہ عوامل کے علاوہ تحریک پاکستان میں جس پہلو نے بہت زیادہ جان ڈالی وہ عام آدمی کی بہبود اور ان کے لیے سماجی اور معاشی سطح پر برابر مواقع فراہم کرنے کا تصور تھا۔ قائد اعظم کا پاکستان کا تصور ایک سماجی اور بہبودی ریاست کا تصور تھا۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: اگر ہم پاکستان کی عظیم مملکت کو خوشحال اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں عام آدمی کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہو گی خصوصاً عوام الناس اور غریب لوگوں پر۔ آپ میں سے ہر شخص کو رنگ، نسل یا قبیلے سے قطع نظر اس ملک کے برابر حقوق و فرائض کا حامل پہلا اور آخری شہری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

مجھے اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں ہے کہ پاکستان کی ہر طرح کے اشرافیہ میں اس ملک کے عوام بطور خاص غریبوں اور معاشرے کے محروم طبقات کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ستر سال گزرنے کے باوجود پاکستانی معاشرے کو ایک فلاحی معاشرہ بنانے کا خواب ابھی بھی تعبیر کا منتظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اندوہ ناک حقیقت بڑھتی ہوئی عدم مساوات ہے جس سے معاشرے کے مختلف طبقات ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ سماجی اور معاشرتی عدم مساوات ان مسائل کی بنیادی جڑ ہے جن کا ہم مسلسل شکار ہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ کی عام آدمی کی بنیادی سہولتوں کی قیمت پر خصوصی اور استحقاقی مراتب اور سہولیات کے حصول کی کوششیں ظاہراً پرسکون نظر آنے والے حالات کے نیچے ایک آتش فشاں کو جنم دے رہے ہیں جس کے کئی مظاہر گاہ بگاہ ہم مختلف صورتوں میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

حکومت کا وہ ماڈل جو ہم نے پنجاب میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے اس کی بنیاد اپنی پالیسیوں میں توسیع پیدا کرنا اور سوشل سیکٹر کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کرنا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا جو سوشل سیکٹر کی ترقی کے لیے ہماری کلیدی پالیسی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔


صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کے فوائد عوام کی صحت کی بہتری سے کہیں بڑھ کے ہیں۔ اس کا اثر اور نتیجہ معاشی نتائج اور محنت کشوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ خوشحال معاشرہ ہوتا ہے جس کا ہر فرد قومی ترقی میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔

وہ تمام بیماریاں جو غریب عوام کی صحت کو متاثر کر رہی ہیں اور ان سے معاشرے کے اکثر افراد متاثر ہوئے ہیں ان میں سرفہرست جگر اور گردے کے مسائل ہیں۔ ان بیماریوں کے بارے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار ہوش ربا ہیں۔ اس وقت پاکستان کے دس ملین افراد ہیپاٹائٹس سی اور پانچ ملین سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔ ایک اعشاریہ دو ملین افراد کو جگر تبدیلی کی ضرورت ہے جب کہ تین لاکھ کے قریب افراد کو ایمرجنسی معالجہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ مہنگے علاج کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ تو جگر کی تبدیلی کے لیے بھارت اور چین چلے جاتے ہیں جب کہ غریب لوگ بستر مرگ پر وقت گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ وہ علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

اس بدترین صورتحال کے پیش نظر ہم نے پنجاب میں صحت کا ایک بڑا منصوبہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر (PKLI) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اربوں روپے کے اس منصوبے کا سنگ بنیاد اگست ۲۰۱۵ء میں رکھا گیا تھا اور آج کے دن اس منصوبے کے پہلے حصے کی تکمیل پر اس کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ تکمیل کے بعد PKLI جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ اور دنیا کے عظیم ترین ٹرانسپلانٹ مراکز میں سے ایک ہو گا۔ اس میں آٹھ سو بستروں کی سہولت ہو گی جسے پندرہ سو تک بڑھایا جا سکے گا، ایک سو بستروں کا ایمرجنسی سینٹر ہو گا، ایک سو بستروں کا آئی سی یو ہو گا، ایک سو بستروں کا ڈائیلسز مرکز ہو گا، پانچ سو بستروں کی مریضوں کو داخل کرنے کی سہولت ہو گی۔ بیس آپریٹنگ روم اور دس یومیہ سرجری کے مراکز ہوں گے۔ پانچ ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے مواقع کے علاوہ PKLI نہ صرف پنجاب کے شہریوں کو مفت اور مناسب طبی سہولتیں فراہم کرے گا بلکہ یہاں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور دوسرے صوبوں کے عوام کو بھی علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

پنجاب میں ہم نے WHO کے عزائم کے مطابق صوبے کو 2030ء تک ہیپاٹائٹس سے پاک کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پنجاب پہلا صوبہ ہے جہاں پنجاب ہیپاٹائٹس آرڈیننس 2017ء نافذ کیا گیا ہے جس کا مقصد ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاو کو روکنے کے لیے منظم طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کے پھیلنے کے ذمے دار عوامل کا اس آرڈیننس کے تحت قلع قمع کیا جائے گا۔ پنجاب میں یہ پالیسی متعارف کرائی گئی ہے کہ پورے صوبے میں صحت کے مراکز پر از خود بے کار ہونے والی سرنجیں استعمال کی جائیں۔ اس سال تحصیل اور ضلع کی سطح پر اسپتالوں میں پچاس فیصد عام سرنجوں کی جگہ از خود بے کار ہونے والی سرنجیں استعمال کی گئیں۔ اگلے سال ہم اس تعداد کو نوے فیصد تک بڑھا دیں گے اور سرنجوں کے درست استعمال کو یقینی بنانے کے لیے آزادانہ آڈٹ بھی کروائیں گے۔

ہیپاٹائٹس سی کے مہلک اثرات کے پیش نظر جن کے باعث مریض جگر کے کینسر جیسے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں پنجاب حکومت نے ان ہیپاٹائٹس کے علاج اور روک تھام کے کلینک قائم کیے ہیں۔ ان کلینکوں کو فلٹر کلینک کا نام دیا گیا ہے اور یہ PKLI منصوبے کا حصہ ہیں۔ پنجاب حکومت صوبے بھر میں اس طرح کے سو کلینک قائم کرے گی جن میں سے آٹھ قائم کر دیے ہیں اور وہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں تمام سہولیات اور اہل عملہ متعین ہے جو جگر کے علاج کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ یہاں اس وقت چوبیس ہزار مریضوں کا علاج ہو رہا ہے جب کہ ہمارا ہدف اس سال ایک لاکھ مریضوں کا علاج کرنا ہے اور آنے والے سال میں اس تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

علاج معالجے کی سہولتوں کو موثر بنانے کے لیے حکومت نے دواؤں کی فراہمی کا موثر نظام وضع کیا ہے جس میں پرائیویٹ کوریئر سروسز کو بھی شریک کیا گیا ہے تاکہ مریضوں کو دوائیں ان کی دہلیز پر پہنچائی جا سکیں۔ PKLI اور ہیپاٹائٹس فلٹر کلینک کے قیام کا منصوبہ ڈاکٹر سعید اختر جیسے درد مند اور خداترس شخصیت کے اخلاص اور غیر معمولی جذبہ کے بغیر ناممکن تھا جن کی بے لوث محنت اور انسانیت سے محبت نے اس منصوبے کے قیام کو ممکن بنایا۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک مقیم بہت ہی قابل پاکستانی ڈاکٹروں کو قائل کیا کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں اور بیمار انسانیت کی خدمت انجام دیں۔ جس اخلاص سے انھوں نے اس عظیم مقصد کے لیے خدمات انجام دیں میرے پاس ڈاکٹر سعید اختر اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے پاک پنجاب میری منزل ہے۔ میں نے اپنی تمام توانائیاں اور کاوشیں پنجاب سے اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے وقف کر دیں ہیں جیسے ہم نے 2011-12 میں ڈینگی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو بہترین اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی بابائے قوم کے یوم پیدائش پر ان کی خدمت میں بہترین خراج تحسین ہے۔
Load Next Story